کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا ۔ اس کی کتاب یہ کہتی ہے کہ انسان ظالم ہے اور جاہل بھی ۔ عارف نے کہا تھا : یعنی یہ کہ اپنی ذمہ داری کو وہ کمتر اور خود کو برتر گردانتا ہے!
کیا کرتار پور کوریڈور کی تعمیر برصغیر کے سیاسی مستقبل پہ اثر انداز ہونے والی ہے ؟ جی ہاں لیکن کتنی اور کب ؟ اس سوال کا جواب مستقبل دے گا۔
مذہبی جذبات کا معاملہ عجیب ہے ۔ مختلف لوگوں میں یہ مختلف انداز میں جھلکتے ہیں ۔ ایک بوڑھی ہوتی ہوئی دیہاتی عورت یاد آئی ۔ 1968ء کے موسمِ بہار میں وہ چک نمبر13 میں میری مرحوم بہن کے پاس آیا کرتی۔ خاموش طبع، شائستہ اور مرتب خاتون ۔ آپا نے مجھے بتایا کہ حج پہ جانے کی آرزو اس کی جان کا روگ ہے ۔ یہ عوامی احساسات کو اہمیت نہ دینے والے فیلڈ مارشل ایوب خان کا عہد تھا۔ چند ہزار عازمین ہی کو حجازِ مقدس کی اجازت دی جاتی ۔ مالیاتی نظم کڑا تھا۔ ایک ایک پیسہ سوچ سمجھ کے خرچ کیا جاتا۔ لٹانے والے بعد میں آئے۔
ہر ایک سے درخواست کرتی کہ کسی طرح مکّہ مدینہ وہ اسے لے جائے۔
نبی جیؐ کے شہر میں ، جہاں التجا سنی جاتی اور آنسو باریاب ہوتے ہیں ۔ '' نوکرانی بنا کر ہی لے جائے ‘‘ وہ کہتی اور آنسو اس کے بھرے بھرے گندمی رخساروں پہ گرتے رہتے ۔
پروردگار کا معاملہ اور بھی عجیب ہے ۔ کبھی سب دروازے چوپٹ کھول دیتا ہے ۔ دولت، اقتدار اور شہرت ، جو چاہے لے لو ۔ کبھی اپنے پیارے پیغمبر یعقوب علیہ السلام کو اپنے محبوب ترین فرزند یوسفؑ کی جدائی میں ڈالتا ہے ۔ سالہا سال، سالہا سال
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں
کوئی زمانہ نہیں ، جب شاعروں نے اس جلیل القدر پیمبرؑ اور اس کے فرزند کو سخن کا موضوع نہ کیا ہو ۔ کوئی زمانہ نہیں ، جب صوفیوں نے سورہ یوسف میں جی نہ لگایا ہو ۔ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے ، یہ کہانی کہی جاتی رہے گی۔
ساٹھ برس پہلے ، چک نمبر 42 جنوبی سرگودہا میں والدہ مرحومہ بی بی جی تلاوت سے فارغ ہو چکتیں تو قصہ یوسف زلیخا پڑھا کرتیں ۔ آواز میں سوز ایسا کہ پڑوسنیں بھاگی چلی آتیں۔ گھر کے کام کاج کی طرف متوجہ ہونا چاہتیں تو سحر میں مبتلا وہ التجا کرتیں کہ شاعر کا کلام وہ پڑھتی رہیں ، کام دھام وہ نمٹا دیں گی۔ وہ آٹا گوندھنے ، دودھ بلونے‘ حتیٰ کہ ٹیڑھے سے کچّے صحن میں جھاڑو دینے پہ آمادہ ہوتیں ۔
مشرقی پنجاب سے پاکستان آنے والی دیہاتی عورتوں کو میں دیکھتا ہوں تو بی بی جی کا چہرہ نگاہوں میں پھرنے لگتا ہے۔ وہ پنجابی بولا کرتیں۔ ان کے بعد ایسی خالص پنجابی اگر سنی تو مشرقی پنجاب کی فلموں میں ۔ کیسی قوتِ متخیلہ کو بیدار کرتی فصاحت۔
فارسی کے ایک شاعر تھے، غنی کاشمیری ۔ داتا گنج بخش سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کی طرح ، ان کا دیوان محفوظ نہ رہ سکا۔ صدیاں بیت چکیں۔ ہر صاحبِ ذوق کو اس کے کچھ اشعار مگر زبانی یاد ہیں ۔ شعیب بن عزیز کا چھوٹا بھائی کراچی جا بسا تو ان کے مرحوم والد ایک شعر اکثر گنگنایا کرتے ۔
غنی روزِ سیاہ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
غنی، کنعانی بزرگ کے روزِ سیاہ سے عجب ماجرا برپا ہوا۔ ان کی آنکھوں کے نور نے چشمِ زلیخا کو جا روشن کیا۔
اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ دانستہ آدمی کو وہ انتظار میں رکھتا ہے ۔ ''تمہیں صبر کیسے آئے، تم علم جو نہیں رکھتے ‘‘۔
افراد اور اقوام کی تقدیروں کو وہ اپنے قرینوں میں ڈھالتا ہے۔۔۔ کسی کوکیا خبر کہ آخر کار کیا ہو گا۔ کتاب کہتی ہے کہ اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اس پاک سرزمین میں ایسے احمق بھی پائے جاتے ہیں، جن میں سے بعض دعویٰ کرتے ہیں '' میں تمہاری تقدیر بدل دوں گا ‘‘ ۔ ''میں پاکستان کی تقدیر بدل ڈالوں گا ‘‘۔ ان چھچھوروں کو سیاسی لیڈر کہا جاتا ہے ۔ جو ہونق ان پہ ایمان لاتے ہیں ، خود کو سیاسی کارکن کہتے ہیں۔۔۔ بعض تو دانشور بھی ۔
تقدیر وہی بدل سکتا ہے ، جس نے بنائی ہے ۔ جس کے فرامین میں سے ایک یہ ہے : کہاں کہاں تم نے رکنا اور ٹھہرنا ہے اور کہاں تم نے پہنچنا ہے، پہلے سے ہم نے لکھ رکھا ہے ۔
برصغیر کی اس عجیب و غریب قوم، سکھوں کی تقدیر میں کیا لکھا ہے ؟ ساڑھے پانچ سو برس پہلے جس کی ابتدا ہوئی تھی ؟
منکرینِ حدیث اور ملحدوں کے سوا سب جانتے ہیں کہ سرکارؐ کی ہر پیش گوئی پوری ہوئی ۔ روم اور ایران پہ مسلمان غالب آئے اور چپٹے چہرے والوں پہ ، تاتاریوں پر ، قسطنطنیہ پر... اور آپؐ نے یہ فرمایا تھا کہ میرے امّتی سواریوں پہ مسجد جایا کریں گے ۔ ربع صدی میں عالی مرتبتؐ کی تین پیش گوئیاں پوری ہوتی دیکھیں ۔ مکہ کے پہاڑ اکھاڑ دیے جائیں گے ، عرب ہرا ہو جائے گا اور ننگے پیروں والے عالیشان عمارتیں بنائیں گے ۔ پہلی دو اپنی آنکھوں سے ، تیسرے کا راوی ایک ممتاز شخص تھا۔ ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر ۔ صحرا سے ایک دن اس کا مالک مکان کرایہ وصول کرنے آیا ، ننگے پائوں ۔ بدّوئوں میں ایسے بہت ۔
فرمایا: ہند کے مسلمان مشرکوں کو پامال کر دیں گے اور ان کے امرا کو گرفتار کریں گے ۔ پھر وہ دمشق میں یہود سے جا لڑیں گے ۔
امن عزیز ہونا چاہئے ۔ جنگ ایک اجاڑ دینے والی چیز ہے ۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا تھا: میں چاہتا ہوں کہ ایران اور عرب کے درمیان آگ کی ایک خلیج حائل ہو جائے۔ پاک بھارت سرحد پر اگر ایک خلیج حائل ہو سکتی ؟ ہونی کو مگر کون ٹال سکتا ہے ؟
ہمہ وقت برہمن نفرت کی آبیاری کرتا ہے ۔ کسی طرح وہ رکتا نہیں ۔ بیس برس ہوتے ہیں ، دہلی میں بی بی سی کے ایک پروگرام کے شرکا سے پوچھا گیا: کیا بھارت کو پاکستان پر حملہ کر دینا چاہئے ؟ دو تہائی کا جواب اثبات میں تھا۔ آج کی بھارتی سیاست پاکستان سے نفرت پہ کھڑی ہے۔ نفرت ایسی چیز ہے ، آخر کار جو طنابیں توڑ ڈالتی ہے ۔ آخر کار جو گھسیٹتی ہوئی لے جاتی ہے ۔ برہمی ایک کتے کا نام ہے ۔ اس کی باگ آدمی تھامے رکھتا ہے لیکن آخر کار کتا آدمی کو کھینچ لے جاتا ہے ۔
خوف ایک ہتھیار ہے ، بہت سوچ سمجھ کر جو برتنا چاہئے۔ تاریخ کا سبق لیکن مختلف ہے ۔ افراد اور اقوام کبھی اس طرح غیظ و غضب میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ غلبے کی تمنا اس طرح چھا جاتی ہے کہ انجام سے بے نیاز ، اپنے ہدف پہ وہ جا پڑتے ہیں ۔ کوئی ہٹلر، کوئی مسولینی... اور ان کی اقوام کھیت رہتی ہیں ۔
آج ایک نریندر مودی ہے ۔ ادنیٰ سیاسی مفادات کے لیے وہ اور اس کے ہم نفس نفرت کے جو بیج بو رہے ہیں ۔ کل زیادہ جنونی نسلیں جنم لے سکتی ہیں... وہ کہ جنہیں ایک ہٹلر درکار ہو گا ۔
اگر ایسا ہوا تو ہندوستان کی کمزور اور مظلوم اقوام کا کردار کیا ہو گا ؟ وہ برہمن کی سلگائی آگ کا ایندھن بنیں گی۔ یا ایسا کرنے سے انکار کر دیں گی ؟
کوئی نہیں جانتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا۔ اس کی کتاب یہ کہتی ہے کہ انسان ظالم ہے اور جاہل بھی ۔ عارف نے کہا تھا : یعنی یہ کہ اپنی ذمہ داری کو وہ کمتر اور خود کو برتر گردانتا ہے!