زندگی ترجیحات طے کرلینے ‘ریاضت اور ترتیب کا نام ہے۔ وگرنہ انتشار، وگرنہ زوال، پسپائی اور ناکامی... اگّے تیرے بھاگ لچھئے!
مہلت سبھی کو ملتی ہے، فائدہ سب نہیں اٹھاتے۔ زیاں بہت ہے، خدا کی کائنات میں زیاں بہت۔ عمر فاروق اعظمؓ دعا کیا کرتے: یا اللہ میرے وقت میں برکت عطا فرما۔ خان کو ایک اور موقعہ قدرت نے دیا ہے۔ اپوزیشن اپنے اعمال کی سزا بھگت رہی ہے۔ جان کے لالے پڑے ہیں۔ سپیکر سراج درانی کی گرفتاری سے آشکار ہے کہ بازپرس کا عمل نیب نے تیز کر دیا ہے۔ اسے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جہانگیر ترین‘ اعظم سواتی اور اب علیم خان کی ابتلا سے وہ ماحول میسر آیا، حکمران پارٹی، جس میں چوکے چھکے لگا سکتی ہے۔کہہ سکتی ہے کہ نیب آزاد ہے۔
معیشت اب بھی دگرگوں ہے۔ عشرو ں بعد ٹیکس وصولی میں کمی کا سامنا ہے۔مگر دوست ممالک کی امداد کے علاوہ سعودی سرمایہ کاری نے امید جگا دی ہے۔ یہی تو چاہئے تھا۔
پلوامہ کے واقعے سے اندیشوں کی آندھی اٹھی مگر بیٹھ گئی۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے دبائو ڈالا۔ بھارت کی پیٹھ ٹھونکی‘ وقت کا دھارا مگر پاکستان کے خلاف نہیں۔ پینٹاگان اور سی آئی اے کا احساس یہ ہے کہ تزویراتی اعتبار سے اس اہم ملک کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ خود امریکی صدر کا دردِ سر یہ ہے کہ افغانستان میں اخراجات کم کر کے پیسہ عوام پہ خرچ کیا جائے۔ اگلے برس الیکشن ہے۔ پاکستان کے بغیر افغان سر زمین پہ قرینے سے جنگ ہو سکتی ہے نہ امن ۔ قبائلی معاشرہ ہے۔ کم از کم اتفاق رائے کے بغیرقرار ممکن نہیں ۔ اس اتفاق رائے کے حصول میں پاکستان کا کردار کلیدی ہوگا۔
جلد باز اور جذباتی ٹرمپ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ کہاں وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے۔ کہاں یہ کہ بھارت اور پاکستان کومذاکرات کی تلقین فرمائی۔ چین کو اپنے حلیف کی تائید کرناہے۔ واقعہ تو یہ ہوا کہ یورپی یونین نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے قتلِ عام پہ احتجاج کیا۔ اندمال کا مطالبہ کیا۔ تیس سال سے کشمیری مقتل میں کھڑے ہیں ۔ اکثریت یوں ڈٹ کر کھڑی ہے کہ لیڈر مجبور ہیں۔ فاروق عبداللہ تو رہے ایک طرف، محبوبہ مفتی کو واویلا کرنا پڑا۔ ایک جوان نے جان دے کر، تاریخ کا ایک ورق الٹ دیا۔
بھارتیوں کا خیال تھا کہ صورتحال کو وہ پاکستان کے خلاف استعمال کریں گے۔ پاکستان نہیں، اب بھارت تنہا دکھائی دیتا ہے۔ چاہ کن را چاہ در پیش۔ کالے بادل چھٹنے میں، وزارتِ خارجہ اور پاکستانی سفارت خانوں کا دخل ہے۔ سب سے زیادہ اقوام متحدہ میں سفیر ملیحہ لودھی کا، پسِ پردہ سفارت کاری نے حقائق کو اجاگر کر دیا۔ عرب شاعر نے کہا تھا: اس طرح جیسے بارش کھنڈرات کو نمایاںکرے۔
خون کبھی خاموش نہیں ہوتا۔قصاص تک دہائی دیتا رہتا ہے۔
بھارت بے بس ہے۔ چیخ سکتا ہے، دھمکی دے سکتا ہے، یلغار نہیں کر سکتا۔ دہشت گردی کے دو عشروں اور چھوٹی بڑی جنگوں نے آدم زاد کو ہراساں کر رکھا ہے۔ لاشعور کے ملگجے اندھیروں میں اندیشوں کے سنپولیے رینگتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے۔
محدود سی کارروائی ہی برہمن کر سکتا ہے۔ بھارتیوں کا تضادیہ ہے کہ ستر برس سے پاکستان کو ختم کرنے کے خواب میں اپنے لوگوں کو نفرت کا درس دے رہے ہیں۔ دوسری طرف خود ان کے ہاں علیحدگی کی تحریکیں برپا ہیں، پر تشدد تحریکیں۔ ہزار برس کے بعد خوش حالی کا دروازہ کھلا ہے۔ اس کے بند ہونے کا تصور ہی ڈرائونا خواب ہے۔ دنیا میں ظلم ہمیشہ رہا،مگر اللہ اپنی دنیا شیطان کے حوالے نہیں کر دیتا۔
کشمیر کی بغاوت قابو سے باہر ہو گئی‘اس بغاوت کو اب کچلا نہیں جا سکتا۔ خوف ایک ہتھیار ہے، جو کبھی کبھار ہی برتنا چاہئے، احتیاط کے ساتھ‘ وگرنہ آسٹریلوی ہتھیار ''بوم رنگ ‘‘کی طرح واپس آتا ہے‘ یا بے معنی اور کند ہوجاتا ہے۔ سات لاکھ فوج دہلی نے وادی میں کھپا دی ہے...اور کتنی فوج؟
خوف جاتا رہا، جدوجہد آزادی کے سوا اہلِ کشمیر کے لیے سب راستے بند ہیں۔ اپنے لیڈروں کے لیے ہر کشمیری نوجوان کے چہرے پر لکھّا ہے۔
مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
کہنے کو ہندو بھی اپنے مرنے والوں کو ''شہید‘‘ کہتے ہیں، مگر یہ ان کے ایمان کا حصّہ نہیں‘ کبھی تھا۔ مہا بھارت کے ہنگام ارجن نے مہاراج کرشن سے کہا: میں کیسے ان سے لڑوں، میرے رشتے دار ہیں۔ مہاراج نے پوچھا: کیا تم سچائی پر ہو؟ اثبات میں جواب ملا تو وہ بولے: ارجن !سچائی کا کوئی رشتے دار نہیں ہوتا۔
پھر آسودگی کے اثرات۔ میرے سیاہ فام امریکی دوست مصطفیٰ کہا کرتے: امریکیوں کی تین نسلیں تموّل میں پلی ہیں۔ جنگ کے قابل نہیں ۔ ویت نام سے افغانستان تک یہی داستان ہے۔ بھارتی اقتدار پر رؤساکے کارندے مسلط ہیں۔ جنگ جوئی، نمرودوں کا شیوہ نہیں ہوتی۔
خون ریزی کے اندیشے نے قوم کو حکومت کی پشت پہ کھڑا کر دیا۔ سی پیک کے طفیل، معاشی امکانات کی فصل اُگی ہے۔ اب یہ ایک عالمی تجارتی مرکز بننے والا ہے۔ حالات آج خراب ہیں، کل نہیں ہوں گے۔
حکومت نے کتنی ہی جھک ماری ہو، رائے عامہ مہلت دینے کے حق میں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے 14 اگست 2012ء کو دھرنے کے ہنگام نواز شریف کو موقعہ دینے کی حامی تھی۔ خفیہ تائید بھی کام نہ آ ئی تھی۔
احتجاجی تحریک کے لیے ماحول قطعاًسازگار نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے سوا سب ٹھنڈے پڑے ہیں۔مولوی صاحب کا بھی اس سے بھلا نہ ہو گا۔
کون دیتا دادِ ناکامی
خونِ فرہاد بر سر فرہاد
زرداری صاحب دھمکی دے سکتے ہیں۔ جسمانی اور ذہنی طور پر تقریباً مفلوج ہیں۔ وہ ایک اور زرداری تھا، جو جیلوں میں جما جڑا رہا ۔یہ ایک تھکا ہارا بے نقاب آدمی ہے۔ ماضی کا فقط ایک سایہ۔
ہمت بلند تھی مگر افتاد دیکھنا
چپ چاپ آج محوِ دعا ہو گیا ہوں میں
نواز شریف بھی دل کے مریض۔ گردے خراب، شوگر، بلڈ پریشر‘ حافظہ خراب۔ اس پہ چٹوراپن۔بد پرہیزی اور پھر دوا دو گنا۔
دنیا بھر میں پھیلی دونوں لیڈروں کی جائیدادیں۔ تضادات کا بوجھ اٹھا کر کون سر پٹ بھاگ سکتا ہے۔
عمران خان کی مہلت دراز نہیں، کسی کی مہلت دراز نہیں ہوتی۔ فرمایا: میں ٹیکس وصولی دو گنا کر دوں گا۔ ارے بھائی کیسے؟اس بیمار ایف بی آر کے ساتھ؟ دس فیصد اضافہ بھی تاریخ ساز کارنامہ ہوگا۔ ایف بی آر کے موجودہ ڈھانچے کے ساتھ یہ نا ممکن ہے‘ مقرر عرض ہے نا ممکن۔ افسر لوگوں کو کیا پڑی کہ جان لڑائیں۔
سول سروس کا ماحول ایسا ہو گیا کہ خطرہ مول لینا تو دور کی بات، ریاضت پہ کوئی آمادہ نہیں۔ کیوں ہو کہ جب جزا و سزا ہی نہیں۔ ایک خاص ٹولہ ایوانِ وزیراعظم پہ مسلّط ہے۔ تمام تقرّر اس کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ سلیقہ نام کی کوئی چیز سرکاری لیڈروںمیں نہیں۔ فواد چوہدری اور نعیم الحق ایک دوسرے کے درپے ہیں‘ گنوار وں کی طرح۔ دونوں کے بارے میں دونوں طرف سے ایسی ایسی کہانیاں کہ خدا کی پناہ۔ وزیراعظم کا مزاج یہ ہے کہ ایسے میں لطف اٹھاتے ہیں۔ پی ٹی وی تباہ حال ہے، کھنڈر ہو جائے گا۔نکمّے اور کام چور ملازم نرے افیونی ہو جائیں گے۔ ایک سول ادارہ خراب ہوگا تو نتیجے میںدوسرے بھی۔ کام چوری ایک متعددی بیماری ہے۔
زندگی ترجیحات طے کرلینے ‘ریاضت اور ترتیب کا نام ہے۔ وگرنہ انتشار، وگرنہ زوال، پسپائی اور ناکامی... اگّے تیرے بھاگ لچھئے!