"HRC" (space) message & send to 7575

شاید‘ شاید

کوئی فوج اتنی ہی مضبوط ہو گی‘ جتنی کہ اس کی قوم متحد۔ کیا ہم متحد ہیں؟ قوم کو اس پر غور کرنا چاہئے۔ عسکری قیادت کو بھی‘ شاید‘ شاید!
دشمن سرحدوں کے باہر ہوتا ہے مگر کمزوریاں اندر۔ آدمی اپنا حریف آپ ہے۔ جتنی یہ بات افراد کے باب میں درست ہے‘ اتنی ہی اقوام کے بارے میں بھی۔
بھروسہ پروردگار پہ ہوتا ہے‘ بندوں پر نہیں؛ با ایں ہمہ اگر آج ہم پُر اعتماد ہیں تو اس لئے کہ پاک فوج واقعی فوج ہے۔ جدید‘ باصلاحیت‘ پر عزم اور جذبۂ شہادت سے سرشار۔ دنیا بھر کی افواج سے اگر تقابل کیا جائے؟ حالتِ جنگ میں جان نذر کرنے والے افسروں اور جوانوں کا تناسب پاکستان میں سب سے بہتر ہے‘ بلکہ حیران کن۔ سات جوانوں کے ساتھ ایک افسر۔ عزتِ نفس کا درس انہیں دیا جاتا ہے‘ سخت ترین تربیت سے گزرتے ہیں، صحت افروز کھانا کھلایا جاتا ہے۔ جوان کا نام افسر کو معلوم نہ ہو اور وہ کچھ فاصلے پر کھڑا ہے تو اسے ''شیر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے ''شیرا بات سن‘‘۔ میدانِ جنگ میں افسر آگے رہتا ہے۔ اپنی مثال اور ایثار سے وہ رہنمائی کرتا ہے۔ اس کا وجود مشعل بن جاتا ہے۔
سوات میں آپریشن کی تیاریاں تھیں تو تربیلا سے ملحق ہوائی اڈے پر ایک شب بسر کی۔ ایک پائلٹ کے ساتھ واک کرنے نکلا تو جذبے کی شدّت نے ششدر کر دیا۔ ونگ کمانڈر سے پوچھا: ایسا کون سا وصف آپ میں ہے کہ دوسروں سے الگ اور ممتاز دکھائی دیتے ہیں؟ لاہور کے محلّہ مزنگ سے تعلق رکھنے والا لڑکا شرمایا اور کہا: جی کچھ بھی نہیں... بس یہ کہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔
1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں ستارۂ جرأت پانے والے اساطیری سپاہی‘ میجر نادر پرویز کو پاک فوج کے بہادر ترین فرزندوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ان سے پوچھا: کیا ایسے بھی کچھ لوگ تھے‘ جن کی شجاعت پر آپ کو رشک آیا ہو۔ طویل قامت آدمی کی آواز رندھ گئی۔ بولے: ایک نہیںکئی۔ کہا: میرا ایک ساتھی جنگاہ میں تین دن جاگتا رہا۔ سونے کی تلقین کی گئی تو جواب ملا: There will be enough time to sleep in grave ۔ شہادت کے بعد قبر میں نیند پوری کر لیں گے۔ 
بریگیڈیئر اشفاق کو ملٹری کالج جہلم نے اپنی 74 سالہ تاریخ کے سب سے جری فرزند کا تمغہ عطا کیا۔ یہی سوال ان سے کیا تو بولے: منیر نام کا ایک لڑکا تھا‘ اسلامی جمعیت طلبہ کا۔ سرحد سے پیدل ڈھاکہ جاتے ہوئے‘ راہ کے جنگل میں مکتی باہنی والوں نے گھیر لیا۔ سپر اندازی کا حکم دیا تو اس نے کہا: ''مسلمان کبھی ہتھیار نہیں ڈالتا‘‘ پاکستانی رجمنٹ نے کئی سو کلو میٹر کا سفر پیدل طے کیا تھا۔ گاڑیاں شہریوں کے حوالے کر دی گئی تھیں۔ بریگیڈیئر صاحب گرفتار ہوئے، دوسروں کے ساتھ بھارتی کیمپ میں پہنچے تو دشمن کے جنرلوں نے ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ کچّے مورچوں میں ایک رجمنٹ کے ساتھ انہوں نے دشمن کی ایک ڈویژن فوج کا اس دلیری سے سامنا کیا کہ عالمی پریس میں گونج سنائی دی۔ مقامی آبادی کے خوش دلانہ تعاون سے 80 کلو میٹر تک خندقوں کی آٹھ قطاریں کھودیں۔ درمیان میں گوکھرو بکھیر کر ٹینکوں کا راستہ روک دیاگیا۔ امریکی اخبارات کرسچیئن سائنس مانیٹر اور نیوز ویک نے اس مفہوم کا خراج تحسین پیش کیا: یہ تاریخ کے عظیم ترین دفاعی انتظامات میں سے ایک تھا۔ 
بعد ازاں بلوچستان میں بھی انہوں نے ایسی ہی حکمت عملی اختیار کی۔ مشرقی پاکستان کی طرح قیدیوں کو رہا کر دیا۔ کیک کھلایا اور کہا: ہماری تم سے کوئی دشمنی نہیں۔ ایک بار پکڑا ہے تو دوسری بار بھی پکڑ سکتے ہیں۔ وہ گئے تو گھروں کو چلے گئے۔ 
1977ء تک باقی وقت انہوں نے جنگلات اگانے اور چرواہوں کی تربیت میں گزارا کہ شاخیں محفوظ رکھّو‘ بکریوں کو پتّے کھلایا کرو۔ 1977ء کا الیکشن ہوا تو دھاندلی پر انہوں نے احتجاجی خط لکھا۔ جولائی میں جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کرنے کے کچھ دن بعد‘ بریگیڈیئر سے بات کی تو یہ بھی کہا: اب تو آپ خوش ہیں۔ وہ بولے: سر! آپ نے تو بھٹو سے بھی بڑی دھاندلی کر دی۔
فوج سے وہ سبکدوش کر دیئے گئے۔ انہیں ہرگز کوئی ملال نہ تھا۔ 1993ء میں‘ جب میرے اصرار پہ اپنی کہانی سنائی تو کہا: میں اکتا چکا تھا۔ سپاہی مشکل اور مصیبت برداشت کر سکتا ہے‘ بے اصولی اسے دیمک کی طرح کھا جاتی ہے۔ سبکدوشی کے بعد بریگیڈیئر نے اخبارات کے لیے کچھ مضامین لکھّے۔ ایسے دلآویز کہ بار بار یہ طالب علم پڑھا کرتا۔ جمیل نثر اور دلِ درد مند کا روح کی گہرائیوں تک اتر جانے والا سوز۔
آئی ایس پی آر کو یہ مضامین یکجا کر کے چھاپ دینے چاہئیں۔ سچّا اور کھرا سپاہی انسانیت کا افضل استعارہ ہوتا ہے۔ جان ہتھیلی پر رکھّے‘ ایک طالب علم اور اپنی طرز کا ایک فقیر
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
جان کے خوف سے آدمی اوپر اٹھ جائے تو اپنی سب سے طاقتور جبلّت کو تسخیر کر لیتا ہے۔ خود کو فتح کر لینے والا‘ دوسروں سے ہار کیسے سکتا ہے۔
امریکی ہوں یا بھارتی‘ برطانوی یا آسٹریلوی۔ حالتِ جنگ میں دنیا بھر کی افواج میں خود کشی کے واقعات ہوتے ہیں۔ پاکستانی فوج واحد استثنیٰ ہے۔
ایک کڑا نظم و ضبط ہے‘ اتنا کڑا کہ تعجب ہوتا ہے مگر احساسِ تحفظ۔ میرے عم زاد کرنل ریاض عید کے دن گھر پہنچے۔ ان کے والد بریگیڈیئر رفیق مرحوم نے پوچھا: تمہارے جوان کیا چھٹی پر چلے گئے؟ بولا: نہیں تو ڈیڈی۔ لمبے تڑنگے افسر نے‘ جو دو کتابوں کا عنوان بنا‘ اکلوتے بیٹے سے کہا: تم کیسے افسر ہو کہ عید کے دن اپنے بچوں کو تنہا چھوڑ آئے۔ 
وہیں سے اپنی جیپ ریاض نے واپس موڑ لی۔ میرے بڑے بھائی مقبول طاہر‘ ایک فوجی جیپ میں سوار ان کے ہاں پہنچے۔ سینیٹر طارق چوہدری کے والد‘ منشی محمد حسین کا رقعہ انہیں پہنچانا تھا۔ بریگیڈیئر صاحب نے وضاحت طلب کی: سرکاری گاڑی میں کیوں آئے ہو؟ اس نے کہا: فوج سے میرا تعلق ہے‘ یہ گاڑی آپ ہی کی طرف آ رہی تھی‘ ایک دھیلے کا سرکاری پٹرول خرچ نہیں ہوا۔ تب رقعہ وصول کیا‘ تب حال پوچھا۔
شاعر نے سچ کہا تھا: ہیروں کے مول بھی یہ جوان نہیں ملتے۔
سچ پوچھئے تو ہم سب نے ان سے بے وفائی کا ارتکاب کیا ہے۔ ملک کو لوٹ کھانے والے سیاست دانوں نے۔ نشہ آور اقتدار سے فیض یاب ہونے کی آرزو میں‘ ان کی قیادت نے بھی... خیر‘ یہ درد ناک داستان دوسری ہے۔
1965ء میں ہم اس لئے سرخرو تھے کہ پوری کی پوری قوم فوج کی پشت پر کھڑی تھی۔ 1971ء میں آدھی آبادی سے وہ متصادم تھے‘ اہلِ بنگال سے۔
آخری تجزیے میں ملکوں اور فوجوں کی حفاظت افواج نہیں‘ اقوام کرتی ہیں۔ ایک صحت مند معیشت‘ ایک شاد کام معاشرہ‘ اپنی سمت اور منزل جسے معلوم ہو۔
آج بھی قوم اپنی فوج کے پیچھے ایستادہ ہے۔ ہر طرح کے ایثار پہ آمادہ ہے۔ دل و جان سے آمادہ ہے۔
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
ہم چٹانیں ہیں‘ کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
ہاں! مگر وہ منقسم بھی ہے۔ قوم اور سپاہ جتنی زیادہ ہم آہنگ ہو گی‘ اتنی ہی زیادہ ناقابل شکست۔ جنگوں‘ وبائوں اور سیلابوں میں بھی کاروبارِ حیات رکتا نہیں۔ معمول کی بہت سی سرگرمیاں جاری رہا کرتی ہیں۔ مگر کوئی فوج اتنی ہی مضبوط ہو گی‘ جتنی کہ اس کی قوم متحد۔ کیا ہم متحد ہیں؟ قوم کو اس پر غور کرنا چاہئے۔ عسکری قیادت کو بھی‘ شاید‘ شاید!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں