ملک کا مسئلہ فقط چند لٹیرے سیاستدان اور تاجر نہیں، ایک سچّا اور کھرا نظامِ انصاف ہے۔ نظام کارگر ہو تو کوئی شجر بے ثمر نہ رہے۔ زمین سونا اگلتی رہے۔ عدل اگر نہیںتو ہر کھیت، ہر شاہراہ اور ہر کارخانے میں فریب کار اگتے رہیں گے ؎
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھیو سرِمحفل کوئی خورشید اب کے
سترہ برس ہوتے ہیں۔ بے یقینی و بے دلی سے عمران خان انتخابی میدان میں اترا۔ لاہور ریلوے سٹیشن سے ملحق ایک کچّی سی آبادی میں داخل ہوا۔ خان صاحب مقبول تب بھی تھے مگر شرمائے لجائے سے۔ ایک آلودہ گلی سے ہم گزر رہے تھے۔ تھڑے پر براجمان ایک نوجوان نے آواز دی ''خان صاحب، ہمیں ٹیپو سلطان جیسا لیڈر چاہئے۔‘‘
ایک نیم خواندہ، جذباتی سا آدمی لگا۔ اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ نادرِ روزگار ہیرو کے احوال سے شاید کچھ نہ کچھ وہ آشنا تھا۔ ممکن ہے بے روزگار لگتے اس لڑکے نے ، کوئی کتاب پڑھی ہو۔ دورِ زوال کے عبقری کا سراپا اس کے قلب میں مرتسم ہو۔ ایک امکان سا پل بھر کو جگمگا اٹھا ہو۔
صرف ولولہ انگیز شجاعت کے لیے ٹیپو یاد رکھّا گیا۔ وہ اس سے بہت بڑھ کر تھا۔ اقبالؔ نے کہا تھا : ایک مسلمان حکمران کی تمام اخلاقی صفّات اس میں یکجا تھیں۔ بیدار مغز اور شجاع باپ کی طرح، غیر ملکیوں کا داخلہ اس کے میسور میں ممنوع تھا۔ فرانسیسیوں کے سوا ، جن کی مدد سے جدید اسلحے کے علاوہ، افواج کی تشکیل نو میں وہ لگا رہتا۔ غیر متعصب سلطان پہ، غیر مسلم رعایا، جان چھڑکتی۔ دو ہزار سے زیادہ غیر مسلم اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ ایک مشہور ڈاکو بھی تائب ہوا جو اس کی شہادت کے بعد بھی برسوں شمشیر بکف رہا۔ حالتِ جنگ میں بھی عام آدمی کے لیے مسلسل وہ غور و فکر کیا کرتا۔ غیر سودی قرضے حاجت مندوں کو دیئے جاتے۔ کمزوری یہ تھی کہ غداروں کو معاف کر دیتا۔
خوبیاں تو خیر، ایک اور طرح سے یہ خامی خان میں بھی پائی جاتی ہے، کاروبارِ حکومت کے لیے ادنیٰ بلکہ چھچھوروں تک کا انتخاب۔ رقیق القلب تھا اور قرآن کریم کا قاری۔ بہترین اساتذہ نے اس کی تربیت کی تھی۔ اہلِ علم کو عزیز رکھتا۔ صلاح الدین کے علاوہ شاید وہ واحد مسلمان لیڈر ہے، جس کی عظمت کا مغرب نے بھی دل و جان سے اعتراف کیا۔
چھیاسٹھ برس کی عمر میں عمران خان ٹیپو تو کیا بنیں گے۔ آدمی اپنے اعمال کا قیدی ہوتا ہے۔ نیّت نیک ہو اور اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر ، غور و فکر کی توفیق تو کسی وقت بھی آدمی اپنی ترجیحات پھر سے مرتب کر سکتا ہے۔ شہزادے عمر بن عبدالعزیز نے کی تھیں۔ حر کے باطن سے کربلا میں شعلہ پھوٹا اور آسماں گیر ہو گیا۔
سبق ہوتے ہیں۔ سیکھنے والوں کے لیے سبق ہمیشہ ہوتے ہیں۔ شرط وہی ایک ہے کہ اپنی نفی کر سکیں۔خود سے رہائی پا سکیں۔
وقت آ پہنچا ہے کہ ہم سب، سب کے سب گروہ اپنے ماضی کو کھنگالنے کی کوشش کریں۔ تعصبات تیاگ کر مستقبل کی صورت گری میں جت جائیں۔ ملک کی نجات اسی میں ہے۔ قدرت نے ایک نادر موقعہ پھر سے فراہم کر دیا ہے۔ اسے ضائع کرنا باقی ماندہ متاع لٹانے کے مترادف ہوگا۔
غنیمت ہے کہ دونو ںبڑی پارٹیوں کے میڈیا سیل خاموش ہیں۔ دہشت گردوں کے ساتھ سترہ برس سے برسرِ جنگ صیقل فوج، مقابلے میں مرجھائی سپاہ، اپوزیشن کا صحت مند رویّہ، مہربان میڈیا، عالمی برادری، بالخصوص مسلم دنیا کی حمایت۔ دشمن میں پھوٹ پڑی ہے۔ ذہنی طور پر وہ الجھ گیا ہے۔
مذہبی انتہا پسند بے بس ہیں۔ لبرل پٹ گئے، مغرب بالخصوص امریکہ کے بل پر بروئے کار وہ مخلوق جو کبھی کچھ کمیونسٹ اور سوشلسٹ تھی، پھر سیکولر ہو گئی اور اب لبرل کہلاتی ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق ان کی ماں مر گئی ہے، جو اپنے وطن کے باب میں اجنبی ہیں۔ عوامی جذبات کے طوفان میں اب وہ لاچار ہیں مگر ہمیشہ نہ رہیں گے۔وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز، برطانیہ کے انڈیپنڈنٹ، سی این این اور بی بی سی نے بھارتی قیادت کا کھوکھلا پن واضح کر دیا ہے۔ عشروں سے دہشت گردوں کی سرپرستی کے طعنے سنتا پاکستان امن کا علمبردار ہے۔ عسکری وقار نے اس کا ہیولا روشن کر دیا ہے۔ دو طرح کے اعتراض اور سوالات مغربی پریس اٹھا رہا ہے۔ ایک یہ کہ بھارت بالاکوٹ میں کسی کیمپ کا وجود ثابت کرے ۔ ثانیاً وہ بتائے کہ عمران خان شاخِ زیتون لہرا رہے ہیں تو بھارت جنگ آرائی پہ مصر کیوں ہے۔اسلامی کانفرنس کی قرارداد ایک غیر متوقع خوش خبری ہے۔
پاکستان پہ قدرت مہربان ہے۔ ایک شاندار مہلت اس نے مہیا کر دی۔ کوئی مہلت مگر دائمی نہیں ہوتی۔ کفران نعمت کرنے والوں کو وقت معاف نہیں کیا کرتا۔
پرسوں پرلے روز کراچی پہ میزائل حملے کا خطرہ ٹل گیا تھا مگر بحری ناکہ بندی کا اندیشہ برقرار تھا۔ وزیراعظم کے سر پہ احتساب کا بھوت پھر بھی سوار رہا۔ شب گیارہ بجے، لاہور میں اپنے مشیر طلب کیے کہ بدعنوان لیڈروں کی فہرست لائیں۔ علیم خان کو وہ پہلے سے قربان کر چکے۔ عون محمد اور ملتان کے احمد ڈیہر کا صدقہ دینے پر آمادہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہاشم جواں بخت اور خسرو بختیار کے بارے میں نیب کے ریفرنس آخری مرحلے میں ہیں۔ پنجاب اینٹی کرپشن کے سربراہ حسین اصغر کی ملازمت میں توسیع متوقع ہے۔ تاثر ان صاحب کا اچھا ہے۔
وزیراعظم اپنے ساتھیوں کا گوشوارہ الم نشرح کر نے پہ آمادہ کیوں ہیں؟ ظاہر ہے کہ مخالفین کا کچا چٹھا آشکار کرنے اور اپنی خوئے انتقام کی تسکین کے لیے۔ اس لیے کہ اقتدار کو دوام مل سکے۔ اقتدار کو دوام نہیں مل سکتا، کبھی کسی کو نہ مل سکا۔
کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد
ہر کہ گیرد مختصر گیرد
بھارت کے مقابلے میں، ہماری کمزوری دفاعی نہیں، سیاسی اور معاشی ہے۔ ہمارا تاجر اور صنعت کار ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ آدھا بھی نہیں۔ کاروباریوں کا ذہن، ماضی کے مہربانوں نے مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ لوٹ کھائو، ملک سے باہر بھجوائو بس یہ کہ ووٹ ہمیں دو۔ سرکاری اہلکار ان کے مددگار ہیں۔ ایف بی آر اپاہج ہے۔ لالچی اور کرپٹ افسروں کا بے مہار گروہ۔اس کی تازہ تگ و تاز نمائشی ہے۔ معاشروںکی عادات عشروں میں ڈھلتی ہیں۔
سرمایہ حسّاس بہت ہوتا ہے۔ اس طرح کے طبقات کی اصلاح، معالج کے نشتر سے ہوتی ہے، تھانیدار کے کوڑے سے نہیں۔ افسوس کہ حکومت کو ادراک نہیں۔ بار بار عرض کیا کہ ، احتساب بجا مگر اس میں انتقام کی ذرا سی آمیزش بھی، امکانات کی فصل اجاڑ دے گی۔ ایک آلودہ قطرہ پورے تالاب کو گندا کر ڈالتا ہے۔
باز پرس عدالتوں کا کام ہے، حکمرانوں کا نہیں۔ پختونخوا کے سوا سارے صوبوں کی پولیس ویسی کی ویسی ہے، بلکہ اس سے بھی بدتر۔سول سروس کی طرح حکمرانوں کی کم فہمی کا اس نے بھی ادراک کر لیا ہے، چار شہروں میں چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے افسر لگوائے۔ پھر گورنر، وزیراعلیٰ، وزراء اور ارکان اسمبلی نے۔ باقی کیا بچا؟
سب جانتے ہیں کہ عادل پولیس اور جج ہی استحکام کی بنیاد ہوتے ہیں۔ یہی استحکام معاشی نمو کی اساس اٹھاتا ہے۔ خان صاحب کی خوئے شہسواری کو رتی برابر پروا نہیں۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ہر چیز خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو ذہن نشین کرا دی تھی۔ تب ان کے ولولے جہاں گیر تھے۔ ایک خواب کے فسوں میں سرشار۔ رفتہ رفتہ سب کچھ بھول گئے۔ آدمی اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔
ملک کا مسئلہ فقط چند لٹیرے سیاستدان اور تاجر نہیں، ایک سچّا اور کھرا نظامِ انصاف ہے۔ نظام کارگر ہو تو کوئی شجر بے ثمر نہ رہے۔ زمین سونا اگلتی رہے۔ عدل اگر نہیںتو ہر کھیت، ہر شاہراہ اور ہر کارخانے میں فریب کار اگتے رہیں گے ؎
پھر سے بجھ جائیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی
لا کے رکھیو سرِ محفل کوئی خورشید اب کے