مولانا روم کی ایک رباعی ان کے لیے، سیکھنے سمجھنے سے جنہیں بیر نہیں:
دی شیخ با چراغ ھمی گشت گرد شہر/کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست
گفتند یافت می نشود جستہ ایم ما/ آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
''چراغ لیے شیخ شہر میں پھرتا رہا۔کہا: چھوٹے یا بڑے سب سے میں بے زار ہوں۔ مجھے انسان کی تلاش ہے۔ ہم راہیوں نے کہا: وہ تو میسر نہیں‘‘۔ مردانِ کار کپتان کو میسّر نہیں۔ شاید ان کی تمنّا اور تلاش بھی نہیں۔
پاکستان پہ تقدیر مہربان ہے۔ اعمال کی جزاوسزا ہے۔ عادل و قادر اللہ کی سنت نہیں بدلتی مگر پاکستان پہ وہ مہربان ہے۔ طوفان آتے اور گزرتے رہیں گے۔ ایک کے بعد دوسرا نالائق اور نکما حکمّران، مگر آخرکار یہ ملک ایک مشعل کی طرح فروزاں ہوگا۔ 27 رمضان المبارک کو ایک منور تقدیر کے ساتھ پیدا ہوا‘ انشااللہ ایک دن منزل مراد کو پہنچے گا۔
سب سے بڑا سانحہ مشرقی پاکستان کا تھا۔ اس پہ خون رویا گیا۔ اس پر بھی کوئی غور کرے کہ آج حسینہ واجد، ''مشرقی پاکستان‘‘ کی اگر وزیراعلیٰ ہوتیں؟
زندگی کا اہم ترین وظیفہ ادراک کا عمل ہے۔ گرتے پڑتے،آگے بڑھتے چلے جانا۔ اپنی حماقتوں کا تجزیہ کرنا‘ اپنی اصلاح کا عزم برقرار رکھنا۔
کیا خوبصورت اصطلاح کسی نے تراشی ''پاکستان حضرت صالح ؑ کی اونٹنی ہے‘‘۔سب سے بڑے مجرم، یحییٰ خان پہ کیا بیتی؟ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی اولاد کے ساتھ کیا ہوا؟ شیخ مجیب الرحمن کس انجام کو پہنچے؟ اندراگاندھی کو محافظوںنے مار ڈالا۔ راجیو گاندھی کو سری لنکا کی دہشت گرد تنظیم ایل ٹی ٹی ای نے خودکش حملے میں ہلاک کیا۔ یہ بے وفائی کا صلہ تھا۔ شہ دے کر منحرف ہو جانے کا۔ حکمرانوں کا مذہب یہی ہوتاہے۔ اسی کے تحت، چالاکی سے پھلتے پھولتے ہیں۔ آخرکو اسی بنا پہ برباد ہوتے ہیں۔ اخلاقی اقدار سے تہی دنیاوی دانش۔
روز ازل مجھ سے کہا یہ جبرئیل نے / جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول
لیڈروں نے لوٹ کھایا۔ ربع صدی ہوتی ہے، ایک مغربی معیشت دان نے کہا تھا: سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں، 97 ارب ڈالر پاکستانیوں کے پڑے ہیں۔ برسوں تک، ٹیکس سے پاک بجٹ بنایا جا سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تین سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ محترمہ مریم نواز، محترم حمزہ شہباز اور مکرّم بلاول بھٹو کے بزرگانِ گرامی کی جائیدادیں بھی۔ 23 مارچ 2019ء کو صدارتی تمغے پانے والے بعض کاروباریوں سمیت، ہزاروں افرادکے کھربوں روپے، اس کے سوا ہیں۔
سیاسی استحکام جب تک قائم نہیں ہو جاتا، امن و امان جب تک مثالی نہیں بنتا، یہ سلسلہ قائم رہے گا۔ سپیکر پرویز الٰہی، گورنر سرور، وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور وزرا کی موجودہ ٹیم کے ہوتے، کم از کم پنجاب میں یہ ممکن نہیں۔ عقاب صفت زرداری کی موجودگی میں سندھ میں اس کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ معیشت کا نام کراچی ہے یا پنجاب۔
پنجاب میں خان صاحب وہ تجربہ فی الحال جاری رکھنا چاہتے ہیں، جو ایک دلچسپ تجزیے کی پیداوار ہے۔یہ کہ صوبے کا وزیراعلیٰ وزیراعظم سے بڑھ کر اقتدار کا لطف اٹھاتا ہے۔ کیوں اٹھائے؟ شکار میں سب سے زیادہ حصّہ شیر کا ہونا چاہئے۔
اتوار کے دن وزیراعظم لاہور میں تھے۔ تین وزرا پر وہ بگڑے۔ خوراک وزراعت کے سمیع اللہ خان اور سوشل ویلفیئر کے اجمل چیمہ۔ تیسرے کا نام بھول رہا ہوں۔ انشااللہ کسی دن عرض کردوں گا۔ کہا جاتا ہے کہ سمیع اللہ کی برطرفی کا فیصلہ ہوا، مگر بزدار صاحب آڑے آگئے۔ دوماہ کی مہلت مانگی۔ بدمزہ تو کپتان ہوا مگر وزیراعلیٰ کو تھوڑا سا، وزیراعلیٰ لگنا ہی چاہئے۔ فی الحال ان کی مان لی گئی۔
پنجاب کی موجودہ کابینہ برقرار نہیں رہ سکتی۔ خان صاحب کا اندازِ فکر اب یہ ہے کہ Some heads must roll، کچھ سر اپنی جگہ سے ٹلنے چاہئیں۔ مشکل یہ ہے کہ بزدار صاحب کے ہوتے، ساری کابینہ سونے کی بھی ہو جائے، اپنی پسند کی ترجیحات ڈھالی نہیں جا سکتیں، ناممکن!
اپوزیشن نہیں، ان کی اپنی پارٹی وزیراعظم کا دردِ سر ہے۔ ایک باخبر کے مطابق کئی ہفتے قبل پوچھنے والوں نے ان سے پوچھا کہ پرویز خٹک یا علیم خان؟ تو انہوں نے کہا: پرویز خٹک تو قطعی نہیں۔ اس لئے کہ خٹک خاندان طاقت ور ہے۔ توازن پیدا کرنے کی تدبیر میں علیم خان عتاب کا شکار ہوئے۔
پوچھنے والے اب مشکل میں ہیں۔ علیم خان ان سے پوچھتے ہیں: وزارت کے دنوں کا کوئی کیس؟ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے لین دین میں کوئی گھپلا؟ شریف خاندان کے دس سالہ اقتدار میں، میرے خلاف ایک بھی ایف آئی آر کیوں درج نہ ہو سکی؟ خان صاحب اب پریشان ہیں۔ اب انہیں ادراک ہواکہ زیادہ کرپٹ وزیر تو دوسرے ہیں۔ علیم خان تو حسد کا شکار ہوئے۔
برسبیل تذکرہ، علیم خان جس دن گرفتار ہوئے، چوہدری پرویز اور سرور چوہدری شاد تھے۔ وہ نادر روزگار فیاض الحسن تو مٹھائی بانٹتے بانٹتے رہ گیا۔ کسی نے سمجھایا کہ یہ بہت بڑی حماقت ہوگی۔ یہ اپوزیشن کا تمسخر اڑانے کی پتنگ بازی نہیں۔
شیخ رشید کا اندازہ ہے یا اطلاع، بات ان کی ٹھیک لگتی ہے۔ راولپنڈی میں شہباز شریف کے انکسار پہ نتیجہ نکلنے کا کچھ نہ کچھ امکان ہے۔ منطق یہ کہتی ہے کہ کچھ زیادہ نہیں۔ اس لیے کہ جناب والا دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ کسی ایک سے بھی اترنہیں سکتے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک مستقل معیار ہے کہ
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
موضوع سے ہٹ کر ایک بات‘ اقبالؔ کا یہ مستقل عنوان ہے۔ اس پہ ان کا بہترین شعر شایدوہ ہے۔
معلوم نہیںہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر رات کا شہباز
ہمارے بیشتر رہنما، شب زاد ہیں، رات کے شہباز۔ جوڑ توڑ میں طاق‘ کارِ حکمرانی میں بے کار۔ کام کے نہ کاج کے، پائو بھر اناج کے۔ جلد باز بہت‘ کاتا اور لے دوڑی!
تازہ ترین لطیفہ بے نامی ایکٹ ہے۔ یہ خان صاحب کے طرزِ حکومت کا ایک اور استعارہ ہے۔ اچھا کام بھدّے انداز میں۔ اس سے پہلے چار چیزیں انہوں نے مثبت کیں۔ درآمدات میں تھوڑی سی کمی، برآمدات میں اضافے کی کوشش، چھوٹے کاروبار کے لیے قرض جاری کرنے میں بینکوں کی حوصلہ افزائی اور اب مکانات کی تعمیر کے لیے ایک نظام تشکیل دینے کا اعلان۔
مشکل یہ ہے کہ ان کی مالیاتی ٹیم بڑی تصویر دیکھنے کی اہل نہیں۔ ڈرائیور رکھ لئے، باورچی بھرتی کر لیے۔ اب وہ سیکھ رہے ہیں۔جعلی ڈگریوں والے اصلی پائلٹ‘ جہاز اڑانا سیکھ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی تشکیلِ نو کے بغیر بے نامی ایکٹ بے کار ہے۔ دیرپا منصوبہ بندی کے اعتبار سے بہترین مگر یہ اس کے اجرا کا وقت نہ تھا۔ اس کا نفاذتو ٹیکسوں کے نظام میں اصلاح یا ایمنسٹی سکیم سے مشروط کرنا چاہئے تھا۔ اگر کوئی حکومت کر دکھائے۔کالی معیشت کو دستاویزی کرنا، عظیم ترین کارنامہ ہوگا۔ ٹیکس وصولنے والے مگر اس قابل ہی نہیں۔ ٹوٹی پھوٹی ویگن چلانے والوں کو نئی نویلی رولس رائس کار نہیں سونپی جاتی۔ ایف بی آر کو ڈرائی کلین کرنا ہوگا۔خراشیں آئیں گی، ٹھوکریں لگیں گی۔ گیراج میں بند کرکے رولس رائس، پھر سے چلائی جائے گی۔
اللہ کا شکر ہے کہ پے درپے کم کوش حکمرانوں کے باوجود ملک کی اصل دولت برقرار ہے۔ نئی نسل کے زرخیز دماغ، زرخیز زمین اور ان کے نیچے،کالے، سنہری اور نقریٔ دریا۔ سٹیل، کوئلے، سونے اور دوسری قیمتی دھاتوں کے پہاڑ۔
مولانا روم کی ایک رباعی ان کے لیے، سیکھنے سمجھنے سے جنہیں بیر نہیں:
دی شیخ با چراغ ھمی گشت گرد شہر/کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست
گفتند یافت می نشود جستہ ایم ما/ آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
چراغ لیے شیخ شہر میں پھرتا رہا۔ کہا: چھوٹے یا بڑے سب سے میں بے زار ہوں۔ مجھے انسان کی تلاش ہے۔ ہم راہیوں نے کہا: وہ تو میسّر نہیں۔ مردانِ کار کپتان کو میسّر نہیں۔ شاید ان کی تمنّا اور تلاش بھی نہیں۔
پسِ تحریر: چوہدری خاندان کی حکمتِ عملی مؤثر ہے۔ وزیراعظم سے چوہدری شجاعت کی ملاقات کے نتیجے میں قاف لیگ کے وزرا کو بااختیار بنانا ہوگا۔ مونس الٰہی کو وفاق میں وزارت دینی ہی پڑے گی، ورنہ؟ ورنہ چوہدری پرویز الٰہی، پہلے ہی اپوزیشن ارکان کو لمبی لمبی تقاریر کا موقع دے رہے ہیں۔ وہ کچھ اور دراز کر دیں گے۔ تجربے کا کوئی بدل نہیں، لیاقت کا کوئی بدل نہیں۔