کامرانی دانش اور لچک سے ہوتی ہے۔ تن کر چٹانیں کھڑی ہوتی ہیں‘ آدمی نہیں۔ آدمی کو کامرانی کے لیے آدمی بننا پڑتا ہے۔ زندگی اے زندگی‘ روشنی اے روشنی‘ آدمی اے آدمی!
اب بالآخر خان کو احساس ہوا کہ ایف بی آر کی تشکیل نو درکار ہے۔ بلّی کے گلے میں گھنٹی مگر کون باندھے گا۔ ایک ایسے شخص کو پارٹی کی تنظیم سونپ دی ہے‘ جس کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔ پہلے اگر اس نے جتھہ بنا لیا تھا تو اب کیوں نہیں بنائے گا۔ لوگوں کی تربیت کی گئی اور نہ انتخاب میں احتیاط برتی گئی۔ بیس برس میں ٹکٹیں جاری کرنے کا نظام ہی وضع نہ ہو سکا۔ دوسروں پہ انحصار کرنا پڑا۔ وہ جو اس کام کا تجربہ ہی نہ رکھتے تھے۔ بیس سال میں امیدواروں کے کوائف جمع کرنے کا بندوبست نہ ہو سکا۔ طے نہ کر سکا کہ ان میں سے کون ووٹروں کے لیے قابل قبول ہے۔ اب وہ کیسے سنور جائے گی۔
آدمیوں کا چنائو کرنا ہوتا ہے۔ لکلّ فنّ رجال۔ ہر کام کے مخصوص آدمی ہوتے ہیں‘ پھر سکھانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ پہلے پرائمری‘ پھر مڈل اور آخر کو ماسٹرز کی ڈگری۔ عثمان بزدار صاحب ہی کو لیجئے۔ خود فرماتے ہیں کہ لاہور کے راستوں سے بھی میں واقف نہیں۔ راستے کیا‘ سیاسی خاندانوں سے ہی آشنا نہیں۔ افسروں کے بارے میں ان کی معلومات برائے نام ہیں۔
تدارک یہ نہیں کہ اسلام آباد سے معاملات چلائے جائیں۔ دارالحکومت‘ ایک خاص گروہ سے تعلق رکھنے والے افسروں کی زد میں ہے۔ لاہور ان کے لیے اتنا ہی اجنبی ہے‘ جتنا دِلّی یا کابل۔ کابل کو شاید زیادہ جانتے ہوں۔
آدمیوں کے تعصبات ہوتے ہیں۔ پسند اور نا پسند‘ عدم تحفظ کا احساس بھی‘ افسر شاہی میں گہرا ہے۔ ایسے میں جاننے والوں پر انحصار ہوتا ہے۔ وقت پڑنے پر جو کام آ سکیں۔ کام کاج ثانوی ہو جاتا ہے‘ قومی مفادات بھی۔ قرینہ یہ ہے کہ متنوع افراد پہ مشتمل ٹیم ہو۔ سندھ اور بلوچستان میں کرپشن اس لئے زیادہ ہے کہ دوسرے علاقوں کے لوگ قابل قبول نہیں۔ سندھ کا حال پتلا ہے۔ اس لیے کہ سر پہ زرداری صاحب کا سائبان ہے۔ بلوچستان کی حالت بھی مختلف نہیں۔ بالٹی میں سوراخ ہیں۔ بھرتے جائو‘ بھرتی ہی نہیں۔ پنجاب میں شرط شریف خاندان سے وفاداری کی تھی۔ ایسے میں صلاحیت سمٹتے سمٹتے یکسر سمٹ جاتی ہے۔ لوگ اپنے خول میں پناہ لیتے ہیں۔ کارکردگی کا انحصار آزادیِٔ عمل پہ ہوتا ہے۔ ایسی آزادی جس میں نگرانی اور احتساب کارفرما ہو۔ اندھے کا نہیں‘ آنکھوں والے کا احتساب۔ آنکھوں والے کہاں ہیں؟
سعدی نے کہا تھا‘ ''سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد‘‘۔
تاریخ نے صرف ایک بار انقلاب دیکھا ہے۔ اس کے سوا جہاں کہیں ہوا‘ ارتقا ہوا‘ رفتہ رفتہ‘ بتدریج اور جزوی۔ آدمی کی روحانی بیداری اور جان و مال کے تحفظ کا پورا سامان اگر ہوا تو 1400 برس پہلے کے مدینہ منورّہ میں۔
بنیاد اس کی علم پہ تھی۔ ادھورا نہیں‘ پورا علم‘ بنیادی اور حتمی۔ انسان کیا ہے‘ زندگی کیا ہے‘ یہ کائنات کیا ہے اور کیسے وجود میں آئی۔ ان سب کا خالق و مالک اور آقا و مصور کون ہے۔ اس کے بنیادی قوانین کیا ہیں۔ کیسی خیر و برکت ان پر عمل سے جنم لیتی ہے۔ انحراف سے پستی و پامالی کے سفر کا آغاز کیسے ہوتا اور آدمی کس نشیب کو پہنچتا ہے۔
کاروبارِ حکومت میں کئی چیزوں کو بہرحال ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ ہزاروں برس کے انسانی تجربے میں کن امور پہ اتفاق رائے قائم ہوا۔ تین پہلو عمارت کے ستون کی طرح لازم ہیں۔ اوّل: امن کا قیام جو ریاست کی رٹ قائم کرتا اور مؤثر بناتا ہے۔ یہ سول اداروں کے بل پر ہوتا ہے۔ انصاف قائم کرنے والی پولیس اور عدلیہ۔ اس کے سوا دوسرے سرکاری ادارے بھی۔ ثانیاً ٹیکس وصولی کہ حکومت اس کے بغیر اپاہج رہے گی۔ بھک منگی اور کمزور۔ جزا و سزا کے لیے صرف قوت نہیں‘ سرمایہ بھی درکار ہوتا ہے۔ سرکاری عمّال کے معاوضے اگر معمولی ہوں تو وہ بد دل ہو جاتے ہیں‘ چڑچڑے یا رشوت خور۔
دہلی میں اسلام آباد کے سفیر عبدالستار سے راجیو گاندھی نے پوچھا: سرکاری افسر اس قدر نکمے ہو گئے؟ انہوں نے کہا: تنخواہیں برائے نام رہ گئیں۔ اندرا گاندھی کے فرزند نے کہا: جی نہیں‘ معاوضے تو بڑھے ہیں۔ وہ بولے: ذرا حساب کیجیے گا‘ 1947ء میں سونے کی قیمت کیا تھی‘ غلّے کی کیا؟ پتہ چلا کہ ایک چوتھائی سے بھی کم ہو چکیں۔ ایک دوسرا زاویہ یہ ہے کہ زندگی پیچیدہ تر ہو گئی۔ پرانی افسر شاہی اب ثمر خیز نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر صحت‘ انجینئرنگ اور علاج معالجے کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اب درکار ہیں۔ ذہین نوجوان سرکار دربار نہیں اب بین الاقوامی کمپنیوں کا رخ کرتے ہیں‘ جہاں ایک ایک دن کی کارکردگی کا حساب رکھا جاتا ہے۔ ایک ایک چیز ماپ اور تول لی جاتی ہے۔ خیر یہ تو دوسرا معاملہ ہے۔ بہرحال روپیہ اگر نہ ہو گا تو تعلیم کیسی‘ صحت کیسی اور حریف ممالک کا سامنا کیوں کر؟ جی ہاں! ریاست کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ملک کا دفاع ہے۔ 1948ئ‘ 1965ئ‘ 1971ء اور اب پچھلے دنوں‘ جن بحرانوں کا ہمیں سامنا ہوا‘ ان میں خیر کا پہلو بھی تھا۔ بار بار یہ انکشاف کہ واسطہ ایسے دشمن سے ہے‘ جس کی مٹّی بغض و عناد میں گندھی ہے۔
1948ء میں کشمیر کی جنگ نے ہمیں بتا دیا کہ اگر ملک کو قائم رکھنا ہے تو فوج کو بہترین ہونا چاہئے۔ دشمن سے دو گنا بہتر۔ 1965ء کی جنگ کا سائنسی تجزیہ نہ ہوا۔ ہم ہیجان کا شکار تھے۔ ضرورت سے زیادہ پر اعتماد۔ اس کا نتیجہ 1971ء میں بھگتا۔ 1971ء کے المیے نے ایک بات خوب اچھی طرح ذہنوں میں راسخ کر دی کہ کمزور دفاع کے ساتھ ہم جی نہیں سکتے۔ اسی لیے بھٹو نے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں دفاع پہ شاندار کام ہوا۔ خوش بختی سے بہترین سائنس دان اور بعض اچھے منتظم اور جنرل میسر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ حملہ کرنے کے خواب دہلی والے بہت دیکھتے ہیں‘ مگر 1971ء کے بعد کبھی ہمت نہ کر سکے۔ امریکہ تھپکی دیتا ہے‘ مگر لا حاصل ۔ کئی برس پہلے‘ پاک فوج میں کاغذ کا استعمال متروک ہو گیا تھا۔ ہر چیز کمپیوٹر پہ۔
اس کے برعکس‘ بالکل برعکس سیاسی پارٹیاں انیسویں یا زیادہ سے زیادہ بیسویں صدی کے اوائل میں ہیں۔ جن افسروں اور اداروں سے انہیں کام لینا ہے‘ ان سے آدھا بھی نہیں جانتے۔ آدھا کیا بعض صورتوں میں دس فیصد بھی نہیں۔ تعلیم نہیں‘ تربیت نہیں۔ شخصیت پرستی‘ بلکہ اندھا پن۔ لیڈر انسان نہیں دیوتا ہیں۔ ارے بھائی‘ دیوتا صرف کہانیوں میں ہوتے ہیں۔ عظیم رہنما دراصل‘ زیادہ جاننے والے‘ زیادہ مشورہ کرنے اور سب سے زیادہ ریاضت کے ساتھ خون پسینہ ایک کرنے والے آدمی ہی ہوتے ہیں۔ باتیں بنانے اور نعرے لگانے والے نہیں‘ بلکہ زیادہ ایثار کرنے اور زیادہ بوجھ اٹھانے والے۔ نعرے تو فلمی کردار سب سے بہتر لگاتے ہیں۔ اس میدان میں لیڈر‘ ان کے پاسنگ بھی نہیں ہوتے۔
یہ تو فرار کا عمل ہے‘ Escapism کا۔ زندگی کے حقائق سے منہ چھپانے کا۔ قالین کے نیچے کوڑا چھپانے کا۔ بلّی کو دیکھ کر چوہا آنکھیں موند لیتا ہے۔ شتر مرغ ریت میں سر چھپا لیتا ہے۔
پھر ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی دنیا۔ خلا اور سیاروں سے زمین کو جانچنے والی۔ تمام اقوام‘ چاہیں یا نہ چاہیں تمام اقوام ہمیشہ مقابلے کے وسیع و عریض میدان میں رہتی ہیں۔
اپنے آپ سے آدمی بھاگ سکتا ہے‘ زندگی سے نہیں‘ اس کے حقائق سے‘ اس کے تقاضوں اور مطالبات سے نہیں۔ کوئی لیڈر اور کوئی گروہ اگر اس کا ادراک نہیں رکھتا تو ہار مقدر۔ رہی مہلت تو وہ سیکھنے کے لیے ہوتی ہے‘ جھک مارنے کے لیے ہرگز نہیں۔
سورج اور چاند جس طرح اپنا راستہ نہیں بدل سکتے‘ زندگی کی سچائیاں بھی بدل نہیں سکتیں‘ اسی آب و تاب سے برقرار رہتی ہیں۔ کامرانی دانش اور لچک سے ہوتی ہے۔ تن کر چٹانیں کھڑی ہوتی ہیں‘ آدمی نہیں۔ آدمی کو کامرانی کے لیے آدمی بننا پڑتا ہے۔ زندگی اے زندگی‘ روشنی اے روشنی‘ آدمی اے آدمی!