آدمی کیسا کٹھور ہے۔ کس چیز کے لیے کیسی نادر زندگی قربان کرتا ہے۔ کتنے سچے لوگ، کتنا اجالا اور کتنی روشنی ''تہذیب ‘‘کی دائم برقرارقربان گاہ پہ بھینٹ چڑھتی رہتی ہے۔
بھولے بسرے وقت جب جاگ اٹھتے ہیں۔ حال اور ماضی نہ مستقبل، ایک ہی ساعت میں سب زمانے ۔ دل کیسا تڑپ کر بیدار ہوتااور بیدار رہتاہے ۔
احمد جاوید سے میں نے کہا تھا: اب کی بار صحرا کا قصد ہو تو مجھے ساتھ لے جائیے گا۔ کتنی ہی یادیں روہی کے ریگزار سے وابستہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ شاعروں کے شاعر اور سالکوں کے سالک خواجہ غلام فرید نے بہت غور و خوض کے بعد اپنی تنہائی کے لیے صحرا کا انتخاب کیا ہو گا۔ عمر بھر کے لیے کیا جانے والا فیصلہ اچانک تو ہوتا نہیں۔
چولستان کی مہربان خاموشی، ہوٹل کے سجے سنورے کمرے میں در آئی اور ٹہر گئی ہے۔ سکوت ہے اور دور دور تک سکوت ۔ نیند کہاں، آج کی شب شاید، پو پھٹے تک جاگنا ہوگا۔ اس سچّی، فطری اور بے ساختہ زندگی کی تلاش، ایک بڑے شہر میں، نمودِ ذات کی تمنا میں جو بے ثمر بیت گئی ۔
زندگی کے اس عظیم نباض اقبالؔ نے کہا تھا:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کُہستانی
خواجہ نے اپنے لیے صحرا کو چنا توہمیشہ باقی رہنے والے نغمے لکھ دیے:
میڈا ذکر وی توں میڈا فکر وی توں
میڈا ذوق وی توں وجدان وی توں
میڈا سانول مٹھڑا شام سلونڑا
من موہن جانان وی توں
میڈی وحشت جوش جنون وی توں
میڈا گِریہ آہ و فغان وی توں
میڈا اول آخر اندر باہر
ظاہر تے پنہان وی توں
خواجہ کوشاعرِ مشرق نے یاد کیا اور یہ کہا تھا: غلام فرید ایسا شاعر جس قوم میں موجود ہو، وہ مجھے کیوں پڑھے گی؟ ہاں، وہ درد اور سوز و گداز سے بُنے گئے مصرعے، فطرت کی گود میں ہمکتی، جیتی جاگتی، سپنے دیکھتی، صحرائی زندگی کی متحرک تصویریں۔ تاروں کی چھائوں تلے، سچی محبت کا کبھی نہ ختم ہونے والا گیت۔ روشنی کی وہ چھب جب شاہد اور مشہود کے درمیان بالشت بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ آسمانِ دنیا کو روشنیوں سے منور کرنے والا خالق، جب ایک دعا کی دوری پر ہوتا ہے۔ اقبال ؔ کو صحرا کی مادری محبت ایسی مہربان ہَوا کا تجربہ کم تھا مگران کے دل میں ، دورکا ایک صحرا آباد تھا ۔ تنہائی نصیب ہو تو اس میں جا بستے۔ اس کے ٹیلوں اور اس کی وسعتوں، اس کے نخلستانوں اور ہوائوں سے گفتگو کیا کرتے۔
اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی
ہم صحرا کے پڑوسی جانتے ہیں کہ شب کی ہوا میں کیسی تازگی، کتنی گہری پُراسراریت ہوتی ہے۔ چاندنی رات میں اونٹوں کے خاموش قافلے، کبھی کبھار کسی ہرن کا خرام۔ بانسری کی ایک تان دل کو چھوتی گزر جاتی ہے۔ وقت جیسے ٹھہر سا جاتا ہے۔ لوٹ کے آتی ہے اور پھر سے دل کو چھو لیتی ہے۔ پھر یادوں کے گلستاں میں دائم ہو جاتی،ہمیشہ لہراتی رہتی ہے۔
احمد ندیم قاسمی جوان تھے تو کچھ دن اس دیار میں رہے۔ ستلج اور صحرا کے کنارے ایک شہر میں۔روہی کے باطن میں جھانک کر دیکھا یا نہ دیکھا، معلوم نہیں۔ یہ معلوم ہے‘ عمر بھر ان دنوں کی یادیں شاعر کے دل میں دمکتی رہیں۔ اس کی میٹھی بولی کی بازگشت ''سائیں! کِن ویندو‘‘...''سائیں! اِن ویندوں‘‘۔
دستکاریوں کے مراکز میں رنگین پارچوں پر خواب لکھے ہیں، دنیا بھر میں جن کی مثال کم ہوگی۔ رنگوں کا ایسا تال میل کہ مصوّر کا موقلم بھی ہیچ ۔
بدروحوں کو بھگانے کے لیے دلہن کے ہاتھ میں ایک چھری ہوتی ہے، رنگین پیرہن جسے ڈھانپ رکھتا ہے۔ اس کا ایک ایک تار ہاتھوں سے بنا گیا ہے۔ تقریب کے ہنگام دولہا کے ہاتھ میں ایک چھڑی، وہ بھی پھول رنگوں سے بنی ۔
برسات کے بعد یکایک دور دور تک کھل اٹھنے والے پھول۔ درختوں اور پھولوں ایسے سادہ دل مکین، جن میں سے ایک نے ابھی ابھی یہ کہا ''سائیں، یہ جنگل کہیں جانے بھی نہیں دیتا‘‘۔ پہناوے اور چادریں اور بستر پر بچھانے والی رلّی۔ چہار طرف پھیلی ویرانی میں شوخ رنگوں کی آرزو، دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے۔ شاموں، صبحوں اور راتوں کی خاموشی میں ذات باری تعالیٰ کا جلوہ، جس نے اپنا سچا پیغمبرﷺ صحرا میں اتارا تھا:
کیا اس نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں
اس صحرا کے کچھ مکین بھی وہیں سے آئے تھے۔ چار سو برس پہلے جب قحط یا دشمن کی یلغار نے انہیں بے گھر کیا۔ کیا عجب ہے پندرہ سو برس پہلے، یہ کھجور کے درخت بھی، جن کی شاخوں پر بیتے زمانے لکھّے ہیں۔ لودھراں سے ذرا آگے، وہ چھوٹا سا باغ جہاں ہم ایک موڑ مڑتے ہیں۔ آگے بڑھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خواجہ فرید کی کوک سنائی دیتی ہے اور لاہور کا شاعر منیر نیازی یاد آتا ہے ع
اِکّو کوک فرید دی، سنجے کر گئی بن
اگرچہ وہ دوسرے فرید تھے، خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر، بادشاہ جن کے سامنے جھکا اور اتنا جھکا کہ تاریخ میں امر ہو گیا۔ ایک لشکر جس کے دربار میں اترا اور اس طرح اترا کہ سپاہی صوفی ہو گئے، پورے کا پورا لشکر۔ اس آدمی کا نام غیاث الدین بلبن تھا اور اس نے وہ اعزاز پایا جو کبھی کسی سلطان کو نصیب نہ ہوا تھا۔ بادشاہ کی نورِ نظر فقیر سے بیاہی گئی۔ ایک اور شاعر تھے، ظہیر کاشمیری۔ کبھی ایک شب روہی میں انہوں نے بسر کی تھی اور دائمی ہو گئی۔
میں سر جھکا لیتا ہوں، 45 برس پہلے کی وہ صبحیں اور شامیں۔ اپنے منفرد لباسوں میں، جب صحرا کی بیٹیاں سرخ مرچ اور ہلدی کی پوٹلیاں گھروں کے آنگن میں ڈھیر کیا کرتیں۔ ''بی بی جی! پسائی میں ایک چھٹانک کم ہو گئی اور ایک چھٹانک سرسوں کا تیل اس میں ڈالا ‘ ‘ ۔ بچّے حیران ہوا کرتے کہ بازار میں پسے ہوئے مصالحے ارزاں ہیں۔ اتنے سے کام کے لیے دور دراز سے سفر کرکے وہ کیوں آتی ہیں۔
ایک بار کسی نے اس سے کہا :کیسری! تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتیں؟ واپس جانے کے لیے کیسری نے ہلدی ،گرم مصالحے اورمرچوں کی پوٹلیاں اٹھائیں۔ دروازے کا رخ کیا اور جاتے جاتے یہ کہا: ہم صحرا والے جانتے ہیں کہ سب انسانوں کا ایک ہی رب ہے۔ کچھ اسے رحیم کہتے ہیں، کچھ رام۔ بارش وہی برساتا ہے۔ سانپ کے کاٹے اسی کے نام سے شفا پاتے ہیں۔
ساربانوںکی صدائیں اور اونٹوں کے گلوں میں بجتی گھنٹی کی آوازیں ۔ بہت دور، دریا کنارے سے وہ ایندھن لے کر آتے۔ سرکنڈوں ایسی جھاڑیاں۔چولہوں میں اس رسان سے جلتی جاتیں، جیسے کسی آتشیں نغمے کے سُر ۔ سوا روپے میں ایک اونٹ کا بوجھ۔اس کے سوا ساربان کا کوئی تقاضا نہیں۔ بس ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس، سرخ شربت ہو تو کیا کہنے۔ وہ زندگی کہاں چلی گئی، وہ چاندنی راتیں کیا ہوئیں؟
شاعر نے کہا تھا: شہر ہیں یا کہ تمدّن کے عقوبت خانے۔ عمر بھر لوگ چنے رہتے ہیں دیواروں میں۔ دو ہزار برس پہلے یہ ویرانہ آباد تھا۔ ایک اعتبار سے نصف صدی پہلے بھی جب دنیا بھر سے سیکڑوں اہل ذوق صحرا کی چاندنی راتوں کا قصد کیا کرتے!
پھر کیا ہوا؟ پھر شہروں کو برباد کرنے والے تمدن اور سیاست نے ریگ زار کو رفتہ رفتہ ویرانہ بنا ڈالا۔
آدمی کیسا کٹھور ہے۔ کس چیز کے لیے کیسی نادر زندگی قربان کرتا ہے۔ کتنے سچے لوگ، کتنا اجالا اور کتنی روشنی ''تہذیب‘‘ کی دائم برقرار قربان گاہ پہ بھینٹ چڑھتی رہتی ہے۔
(دسمبر2014ء میں لکھا گیا کالم، کچھ ترامیم اور اضافوںکے ساتھ)