سرمایہ دار سب سے زیادہ اور سب سے جلد گھبرانے والی مخلوق ہوتی ہے۔ اور کتنا اسے ڈرائو گے؟ عام آدمی کو اور کتنی بے چینی میں مبتلا کرو گے ؟
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
تشدد ہے ، مسلسل اور المناک تشدد ۔ تھانوں میں ، مدارس حتیٰ کہ گھروں اور بازاروں میں۔ پوری کی پوری قوم ہیجان میں مبتلا ہے ۔ حکمرانوں کو ، دانشوروں کو ، فعال طبقات کو اس کی بھی کچھ فکر ہے یا نہیں ۔ وکلا ججوں پہ چڑھ دوڑتے ہیں۔ پولیس والو ں اور عام لوگوں کو مارتے پیٹتے ہیں ۔حصولِ عدل میں اعانت ان کا فرض ہے ۔مگر وہی توسب سے بڑی رکاوٹ بن گئے۔
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
سرکارؐ نے انتباہ کیا تھا کہ وہ قوم برباد‘ جو کمزوروں کو انصاف عطا نہ کرے ۔ انگریزی استعمار اور ہندو اکثریت سے نجات کے بعد عدالت اور پولیس کو بہتر سے بہتر بنانے کا چلن چاہیے تھا ۔ ہوا تو اس کے الٹ ہوا۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کا ضمیر
یہ عجیب آزادی ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی امید مرتی جا رہی ہے۔ ہزار حماقتو ںکے باوجووتحریکِ انصاف کو اس لیے گوارا کیا گیا کہ افتادگانِ خاک کے دن بدلیں گے۔ اہلِ زر کی چیرہ دستیاں کم ہوں گی۔ وہ تو بڑھتی جا رہی ہیں ۔ کوئی سننے والا ہی نہیں ۔ ع
تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
2007ء میں منی مارشل لا کے ہنگام گرفتار عمران خان ڈیرہ غازی خان لے جائے گئے۔ پہلی بار زنداں کی دیواروں کے پیچھے اس محروم اور مجبور مخلوق کو دیکھا، سیاست میں جسے رونے والا بھی کوئی نہیں۔ جہاں آفتاب تو طلوع ہوتاہے مگر اجالا نہیں کرتا۔ رہائی کے بعد نہایت دکھ کے ساتھ انہوں نے بتایا کہ جیلوں میں پڑے آدھے قیدی بے گناہ ہیں۔ وکیلوں کی فیس جو ادا نہیں کر سکتے۔ وردی والوں کی مٹھی گرم نہیں کر سکتے ۔ حکومت میں آنے کے بعد آج تک ان بے کسوں کا نام نہیں لیا۔
کوئی کمیشن بنایا ہوتا ، نظمِ حکومت کا شعور رکھنے والے بیدار مغز شہریوں پر مشتمل کوئی کمیٹی قائم کی ہوتی کہ جیلوں کا جائزہ لے۔ کروڑوں اربوں نہیں ، زیادہ سے زیادہ پانچ سات لاکھ روپے صرف ہوتے ۔ حامد علی خان سے کہا ہوتا، بیرسٹر علی ظفر کو زحمت دی ہوتی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا منصب عطا کرنے کی بجائے احمد اویس سے بات کی ہوتی ، جن کے لیے موجودہ کردار نبھانا مشکل ہے ۔
پولیس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ کہا جاتاہے کہ خان صاحب کے ہم نفس علامہ طاہر القادری کچھ پولیس افسروں کو معزول یا منتقل کرنے کے خواہاں تھے۔ آئی جی محمد طاہر نے گریز کیا۔ کہا کہ پولیس فورس کا حوصلہ منہدم ہو جائے گا۔ اتنی سی بات پہ وزیرِ اعلیٰ بگڑے اور پھر وزیرِ اعظم۔ وہ وزیرِ اعلیٰ، جو اب کپتان کا سب سے بڑا دردِ سر ہیں ۔ پنجابی محاورے کے مطابق ہاتھ سے لگائی گانٹھیں اب دانتوں سے کھولنی ہیں ۔ ناصر درّانی ایسے آدمی کو چلتا کیا ، جو پی ٹی آئی حکومت کا سب سے بڑا تمغہ، سب سے بڑا امتیاز اور کارنامہ تھے۔ بھلے آدمی نے چپ اوڑھ لی ۔ رسوائی کے سوا حکومت کو کیا ملا؟
سپردم بہ تو مایۂ خویش را
تو دانی حسابِ کم و بیش را
تیرا مال تیرے حوالے ۔ کم و بیش کا حساب اب خود ہی کر لے۔یہی نہیں، ذوالفقار چیمہ کو بھی جانے دیا۔ بے شک مستعفی ہونے کی پیشکش انہوں نے خود کی تھی ۔ اس اخلاقی جواز پر کہ ان کے چھوٹے بھائی نون لیگ کی طرف سے قومی اسمبلی کے ممبر ہیں مگر انہیں روکا ہوتا۔ ایسے آدمی بازار کی جنس نہیں ہوتے کہ ایک نہیں تو دوسرا۔ 1997ء سے وزیرِ اعظم ان کے مداح چلے آتے تھے۔ جب وہ رحیم یار خان میں ایس پی کے عہدے پر فائز تھے ۔ وہی کیا، پورے کا پورا پنجاب ان کا معترف تھا ۔ گوجرانوالہ الطاف حسین کے دور کا کراچی بن جاتا‘ اگر وہ اس صنعت زار کے ڈی آئی جی نہ بنائے جاتے۔بے روزگاری کا عفریت جس معاشرے میں ہمہ وقت منہ کھولے کھڑا ہو، ایک ایسے ادارے کو بانجھ کرنے کا خطرہ کیسے مول لیا جا سکتا تھا، ملازمتیں فراہم کرنے کی واحد راہ جس نے کشادہ رکھی ہو۔
کچھ سرکاری افسروں سے ملاقاتیں رہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سول سروس تباہ ہو چکی ۔تشکیلِ نو کا فہم اب کسی کو نہیں ۔جن کو تھا ، انہیں اٹھا پھینکا گیا۔
آئے عشاق‘ گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
سیالکوٹ کے ایک ''زرخیز ‘‘موضع میں ایک پٹواری کے تقرر پہ قاف لیگ اور پی ٹی آئی میں ٹھن گئی۔ صوبائی حکومت قضیہ نمٹا نہ سکی ۔ آخر کار مرکز کو مداخلت کرنا پڑی ۔ تصور کیجیے کہ کس شخص کو ثالث مقرر کیا گیا۔ تمام دانائوں اور بزرجمہروں کی موجودگی میں نعیم الحق کو... اور نعیم الحق کی شہرت کیا ہے ؟
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
کچھ چیزوں کا الیکشن سے پہلے کا پیمان تھا۔ پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام، پولیس اور پٹوار میں اصلاحات کے علاوہ زرعی ایمر جنسی۔ بلدیاتی نظام کے سلسلے میں بلند بانگ دعوے ابھی پچھلے دنوں تک جاری تھے۔ جس طرح شہباز شریف ہر تین ماہ بعد تھانہ کلچر بدلنے کا اعلان کیا کرتے ۔ اب اس محاذ پر ایک مہیب سناٹا ہے ۔ جس طرح سرماکی دھواں دھار بارش کے بعد غروبِ آفتاب کے ہنگام کالے بادل افق پہ جم جاتے ہیں ۔کسی طرح ٹلتے ہی نہیں ۔ایک خوفناک خاموشی زمین سے آسمان تک کو محیط ہو جاتی ہے ۔
جہاندیدہ سرکاری افسر یہ کہتے ہیں کہ پٹوار اور پولیس سدھار لی جائے تو چالیس پچاس فیصد مقدمات دائر ہی نہ ہوں گے ۔جو دائر ہوں گے ،زیادہ تر تھانوں کی مصالحتی کمیٹیاں نمٹا دیں گی۔اس لیے کہ سب فریق عدالتی سماعت وار اخراجات سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ نامزدگیاں اس طرح نہ ہوں، جیسے 23مارچ کے تمغوں کی۔اندھا بانٹے ریوڑیاں ، مڑ مڑ اپنوں کو۔
عدالتوں میں نگرانی کا عمل اب کچھ بہتر ہے ۔ پولیس اور پٹوار کسی قدر سدھر جائے۔ ججوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے تو استحکام کا آغاز ہو سکتاہے ۔ آفتاب سلطان اور ان کے ساتھیوں نے آئی بی کو بہتر بنانے کی سر توڑ کوشش کی۔ ملک بھر سے تین ہزار دہشت گرد گرفتار کیے گئے۔ 1800 اشتہاری ملزم اور ڈاکو ان کے سوا۔ تین سوتخریب کار مقابلوں میں مارے گئے۔ بیرونِ ملک 65دہشت گردوں کی نشاندہی کر کے دوست ممالک کی مدد سے واپس لانے کا انتظام کیا گیا ۔اب کیا حال ہے ؟
مشکلات اور مصائب اپنی جگہ ،نئے مواقع ملک کو ملے ہیں ۔ جنگ کا خطرہ عملاً ٹل چکا۔ مزید ممالک سی پیک کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں ۔ سرمایہ مگر سہما ہو اہے ۔ آئے دن وزرائِ کرام بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی نوید دیتے ہیں ۔ اللہ کے بندو، گرانی تو جب ہوگی، تب ہو گی۔ کیا اتنی سی بات آپ نہیں جانتے کہ دولت دنیا کی بزدل ترین چیز ہے ۔ کمسن بچوں سے زیادہ ڈرنے والی۔ سرمایہ دار سب سے زیادہ اور سب سے جلد گھبرانے والی مخلوق ہوتی ہے ۔اور کتنا اسے ڈرائو گے؟ عام آدمی کو اور کتنی بے چینی میں مبتلا کرو گے ؟
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہو ا، دیدہ ء بینا نہ ہوا