کاش کوئی اسے بتا سکے کہ بہادری فقط برہمی اور چیخ و پکار رہ جاتی ہے، راستہ اگر معلوم نہ ہو۔ آدمی اگر یکسو نہ ہو تو آخر میں فقط بیچارگی۔ جو بھی فیصلہ اسے کرنا ہو، کر ڈالے، ہوا میں یوں معلق نہ رہے۔
امن کیسے قائم ہو، استحکام کیسے۔ قانون کمزور ہے اور مجرم طاقتور۔ غالباً یہ 2014ء کا موسم بہار تھا، جب وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک سے سوال کیا کہ بلوچستان لیویز کو پولیس میں ڈھالنے کا مرحلہ کیوں طے نہ ہو سکا؟ ان کا جواب یہ تھا: زیادہ سلیقہ مندی کے ساتھ، بتدریج ہم نے اسے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پانچ برس بیت گئے۔
جمعہ کی شام، بلوچستان کے آئی جی محسن بٹ کو تلاش کرتا رہا۔ کیا خوب آدمی ہیں۔ پولیس افسر سے زیادہ پروفیسر لگتے ہیں۔ ان کی قیادت میں دہشت گردوں کے خلاف کئی معرکے پولیس نے سر کیے۔ پوچھنا ان سے یہ تھا کہ ایسی پولیس سبزی منڈی میں نگراں کیمرے نصب کرنے میں کیوں ناکام رہی؟ خفیہ کاری کا مؤثر نظام کیوں وضع نہ کر سکی؟
تخریب کاروں کے خلاف ایک تاریخ ساز جنگ لڑی گئی۔ جنرل ناصر جنجوعہ، پھر جنرل عامر ریاض اور اب جنرل عاصم باجوہ۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری کی شہرت کبھی بہت داغدار تھی۔ پھر جنرل شیر افگن اور جنرل ندیم ایسے کمانڈر نمودار ہوئے۔ جنرل شیر افگن معلوم نہیں، اب کہاں ہیں۔ ان نادر و نایاب لوگوں میں سے ایک، جن کی حوصلہ مندی، مایوسی کو ہمیشہ دھو ڈالتی ،ہر بار امید کے چراغ جلا دیتی ہے۔
بھارت نے بلوچستان کو الگ کرنے کا خواب دیکھا تھا۔ یہ خواب اس لئے متشکّل نہ ہو سکا کہ سینہ تان کر کچھ لوگ کھڑے ہو گئے۔ ہمیشہ یہ قوم ان کی مقروض رہے گی۔ خاص طور پہ جنرل جنجوعہ کی، جنہوں نے بلوچستان کے شہروں، وادیوں اور صحرائی دیہات کو اپنائیت کا وہ ماحول بخشا کہ دل بدلنے لگے۔ زخم مندمل ہونے اور فاصلے سمٹنے لگے۔ لوگوں کے دل محبت سے جیتے جاتے ہیں۔ محض ایک اقدام اور فیصلہ نہیں، یہ ایک مسلسل جاری رہنے والی ریاضت ہوتی ہے۔
عسکری قیادت اور ایف سی نے اپنا فرض پورا کیا۔ زیادتی اور نا انصافی کے واقعات بھی ہوئے۔ کچھ دل خراش بھی مگر یہ ایک جنگ تھی اور پشتو محاورے کے مطابق لڑائی میں گڑ نہیں بانٹا جاتا۔ بلوچستان اہم ہے اور بے حد اہم۔ ملک کے مستقبل کا بہت کچھ انحصار اسی پہ ہے۔ تجارتی راہداری کا مرکز و محور۔ بھارت یہ بات سمجھتا ہے، اس کا تزویراتی حلیف امریکہ بہادر اور کابل میں اس کے کارندے بھی۔ بھارتی بنیا اسی لیے ایران اور افغانستان میں سرمایہ کاری کرتا رہا۔ بدلے ہوئے حالات میںوہ برہم ہے اور ہر قیمت پر تباہی لانے پر تلا ہوا۔
ہماری اشرافیہ، میڈیا اور سیاستدانوں کو بھی کیا ادراک ہے؟
اب ایک لمحے کو ہم رکتے اور پنجاب کی طرف پلٹتے ہیں۔ شریف خاندان کے باب میں نیب کے افسر جو کچھ بتا رہے ہیں، ایسا لرزا دینے والا ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔
2013ء سے 2018ء تک حمزہ شہباز کے اثاثے دو کروڑ سے 34 کروڑ ہو گئے۔ وہ دولت، جس کا موصوف اعتراف کرتے ہیں۔ مگر یہ نہیں بتاتے کہ آئی کہاں سے؟ اس میں سے 80 فیصد رقم بیرون ملک سے ملی ہے، وہ ایک چیز جسے ٹی ٹی کہا جاتا ہے، Telegraphic transfer۔
سلمان شہباز کے اعلانیہ اثاثے تین ارب کے ہو گئے۔ بڑے بھائی پر بازی لے گئے۔ ان کی 99 فیصد آمدن سمندر پار سے پاکستان پہنچی۔ نیب کے تفتیش کاروں نے بار بار ان سے پوچھا ہے کہ یہ دولت انہو ں نے کمائی کیسے؟
ایک سبکدوش وفاقی سیکرٹری کا کہنا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سے متعلق، ہر اہم اجلاس میں سلمان شہباز موجود ہوا کرتے۔
بے سبب نہیں کہ حمزہ کو پرچون فروش اور سلمان کو تھوک فروش کہا جاتا ہے۔
شہباز شریف گرفتار ہوئے تو بہت دیر دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بیٹھے رہے۔ گمان ہی نہ تھا کہ کبھی گرفتار بھی ہو سکتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ سعودی عرب میں قیام کے دوران 16 کروڑ روپے کے وہ فلیٹ لندن میں کیسے خریدے؟ کہا: قرض کی رقم اور دوستوں کی امداد سے۔ قرض خواہوں اور دوستوں کے نام؟ ...''بھول چکا ہوں‘‘۔ سابق وزیراعلیٰ کے ایک قریبی ساتھی نے پچھلے دنوں کہا: سلمان ہمارا کمزور پہلو تھا، اسے ہم نے ملک سے نکال دیا۔ باقی بندوبست بھی ہو جائے گا۔
چار آدمی نیب کی حوالات میں پڑے ہیں، قاسم قیوم، فضل داد عباسی، محبوب علی اور منظور احمد۔ قاسم قیوم منی چینجر ہیں۔ فضل داد شریف خاندان کے ملازم۔ باقی دو کے بارے میں صرف یہ معلوم ہو سکا کہ آئے دن ان کے نام پر کروڑوں روپے بیرون ملک سے آیا کرتے۔ ذرائع آمدن نا معلوم، ملک سے باہر کبھی قدم نہیں رکھّا۔
قرینہ شریف خاندان کا یہ تھا کہ منصوبے بڑے بڑے بنایا کرتے۔ ہسپتالوں کو بہتر بنانا ہے تو الگ الگ نہیں ایک ہی کمپنی کے ذریعے، چالیس پچاس ارب روپے۔ عمارتیں سنوار دیں، فرش اجال دیئے۔ رہی دوائیں اور ڈاکٹر تو کبھی وہ بھی فراہم ہو جائیں گے۔ صاف پانی کا صوبائی منصوبہ غالباً چالیس ارب سے شروع ہوا اور سو ارب سے بڑھ گیا۔ وہ صاف پانی ہے کہاں؟
نون لیگ والے ان دنوں کچھ سرگوشیاں سی کرتے ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ چوہدری صاحبان سے اب رابطہ ہے۔ کھلا چیک انہیں دے دیا ہے کہ جب چاہیں، پنجاب میں حکومت بنا لیں۔ کسی چوہدری کو وزیراعلیٰ بنائیں یا کسی راجے کو۔ ابھی کچھ دیر پہلے ایک اخبار نویس نے کہا: آپ دیکھتے ہیں کہ ایک بے کار سی قائمہ کمیٹی کا ممبر خواجہ سعد رفیق کے بھائی سلمان رفیق کو بنا دیا ہے۔ رات گئے تک، جس کے ''اجلاس‘‘ جاری رہتے ہیں۔ صرف شب بتانے کیلئے وہ نیب کی حوالات کا رخ کرتے ہیں۔
ایک نظر وزیراعظم عمران خان کے ایجنڈے پر، جن کے ہمدرد بھی اب انہیں ''شغلِ اعظم‘‘ کہتے ہیں۔ 1:۔ قرض نہیں لوں گا۔ 2:۔ پٹرول، بجلی اور گیس سستی کروں گا۔ 3:۔ میٹرو بس نہیں بنائوں گا۔ 4:۔ڈالر مہنگا نہیں کروں گا۔ 5:۔ ہندوستان سے مراسم برابری کی بنیاد پر ہوں گے۔ 6:۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم نہیں دوں گا۔ 7:۔آزاد امیدوار نہیں لوں گا۔ 8:۔پروٹوکول نہیں لوں گا۔ 9:۔وزیراعظم ہائوس کو لائبریری بنائوں گا۔گورنر ہائوس گرا دوں گا۔ 10:۔بیرون ملک کم از کم جائوں گا، وہ بھی کمرشل پرواز سے۔ 11:۔ہیلی کاپٹر کی بجائے ہالینڈ کے وزیراعظم کی طرح سائیکل استعمال کروں گا۔ 12:۔ مختصر ترین کابینہ رکھوں گا۔ 13:۔جس کسی پر الزام ہوگا، اسے عہدہ نہیں دوں گا۔ 14:۔ اور میں آپ سے کبھی جھوٹ نہ بولوں گا۔
کوئٹہ میں ہمارے ہزارہ قبائل کے زخم ہمیشہ ہرے رہتے ہیں۔ 2001ء میں بنا لیویز کی تربیت کا منصوبہ وہیں کا وہیں پڑا ہے۔ کرپشن میں برائے نام ہی کمی آئی ہے۔ ارکان اسمبلی کو عطا کیے جانے والے سرمائے کی جانچ پڑتال کا کوئی حقیقی نظام اب تک قائم نہ ہو سکا۔
لاہور میں جائیدادوں کی خرید و فروخت میں سب سے زیادہ حصّہ کس کا ہے؟ اعداد و شمار تو مہیا نہیں۔ کچھ پولیس افسروں کا نام لیکن سبھی جانتے ہیں۔ ان میں سے بعض ارب پتی ہیں۔ سمگلنگ کا سامان انہی کی نگرانی میں بڑے بڑے سٹوروں تک پہنچتا ہے۔
سترہ اور اٹھارہ گریڈ کے ایسے افسر موجود ہیں، جو عالیشان گھروں میں رہتے، کئی کئی گاڑیاں رکھتے ہیں۔ جن کے بچے مہنگے سکولوں میں پڑھتے اور بیگمات زیورات سے لدّی پھندی۔کتنا ہی پانی ڈال دیجئے، بالٹی میں اگر سوراخ ہو تو نتیجہ کیا ہوگا؟
عمران خان کے سامنے دو راستے ہیں، ڈرتے جھجکتے‘ خوف زدہ اور سمجھوتہ کرتے، اسی بے دلی سے وعدے بیچتے اور حریفوں کو دھمکاتے رہیں۔ دوسرا یہ کہ پوری کی پوری بات قوم کو بتا دیں۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کریں۔ سب کچھ کھول کے رکھ دیں۔ اس طرح گھٹ گھٹ کے جینا بھی کوئی جینا ہے۔ کاش کوئی اسے بتا سکے کہ بہادری فقط برہمی اور چیخ و پکار رہ جاتی ہے، راستہ اگر معلوم نہ ہو۔ آدمی اگر یکسو نہ ہو تو آخر میں فقط بیچارگی۔ جو بھی فیصلہ اسے کرنا ہو، کر ڈالے، ہوا میں یوں معلق نہ رہے۔