مدتوں میں اس غلط فہمی+ خوش فہمی کا شکار رہا کہ میں نے اپنے لیے بہترین پروفیشن کا انتخاب کیا ہے ۔گوہمارے زمانہ میں اس پیشہ کے ساتھ مالی آسودگی کے امکانات کچھ زیادہ نہیں تھے لیکن پھر بھی میں نے اچھی طرح سوچ سمجھ اور ناپ تول کر ’’صحافت‘‘ کے حق میں فیصلہ کیا کیونکہ باقی پیشوں میں ایسی خود مختاری، آوارگی اور آزادی کا قطعاً کوئی چانس نہیں ہوتا اور ڈسپلن بھی ضرورت سے زیادہ ۔مثلاً سول سروس میں ’’باس‘‘ بھی ہوتا ہے جو اپنے بس کی بات نہیں۔ طبیعت ہی ایسی ہے کہ نہ میں کسی کا باس ہوسکتا ہوں نہ بطور باس کسی کو قبول کرسکتا ہوں اور یوں بھی سول سروس میں ٹرانسفرز عام ہیں جبکہ ادھر یہ حالت ہے کہ ’’حضرت ذوق جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے‘‘۔ میں لوگوں اور جگہوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ وابستہ ہوجاتا ہوں سو ’’ٹرانسفر‘‘ کا تصورہی روح فرسا ہے۔ اس بڑھاپے میں بھی بیرون ملک جائوں تو ہفتہ دس دن کے اندر اندر ’’اپنی‘‘ مکھیوں، مچھروں، شاپروں اور بے ہنگم ٹریفک کو یاد کرکے آہیں بھرنے لگتا ہوں۔ فوجیوں کی زندگی ٹف بہت ہوتی ہے، ڈاکٹرز کو ساری زندگی روتے چیختے مریضوں کے ساتھ گزارنی پڑتی ہے، بزنس کیلئے بھی مزاج موافق نہیں تھا ۔ علیٰ ہذالقیاس ۔سو اپنی طرف سے بڑی چالاکی بلکہ ’’چلاکی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں صحافت میں جا گھسا کہ زندگی بھر پڑھتے، لکھتے، سیکھتے چلے جانے کا خیال بہت ’’فیسی نیٹنگ‘‘ تھا لیکن سچی بات ہے اپنے پیشہ میں بھرپور کامیابی پالینے کے باوجود، ہر طرح کے سکھ سکون آسودگی کے باوجود گزشتہ چند سال سے اپنے فیصلے پر پچھتاوا سا محسوس ہونے لگا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کچھ اور ہی کرلیتا تو بہتر ہوتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان لوگوں کے بارے لکھنا پڑتا ہے جن کے تصور سے ہی کراہت آتی ہے اور جن کے ’’بڑے بڑے‘‘ …’’معزز‘‘ نام لکھنے کے بعد قلم کو ڈیٹول سے دھونا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ یہ جھوٹے، چور چکار، موقع پرست، پوری ڈھٹائی و بے حیائی کے ساتھ پارٹیاں بدلنے والے، ذہنی طور پر مفلس و قلاش و کرپٹ ترین قائدین کے قصیدے لکھنے والے۔ خانہ بدوش تو ایسے ٹھکانہ نہیں بدلتا جیسے یہ سیاسی آشیانہ تبدیل کرلیتے ہیں۔ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ایسے لوگ زیادہ قابلِ نفرت اور بدکردار ہوتے ہیں یا انہیں قبول کرلینے والے بہروپیے جو بہروپ اور بیان بدلنے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کرتے اور اس طوائفیت کو سیاست، مفاہمت اور مصلحت کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ مقصد صرف حکومت کا حصول ہوتا ہے جس کے ذریعے پروٹوکول اور بے تحاشا پیسہ ہی ان کا اصل ٹارگٹ ہوتا ہے۔ میں کس پیشے میں پھنس بلکہ دھنس گیا ہوں جہاں ان کا ذکر بھی کرنا پڑتا ہے جن کے ساتھ دستانے پہن کر ہاتھ ملانے سے بھی آدمی ناپاک ہوجائے۔یہاں اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ میں کوئی ’’سویٔپنگ سٹیٹمنٹ‘‘ ہرگز نہیں دے رہا اور بخوبی جانتا ہوں کہ ’’مستثنیات‘‘ زندگی کی بنیادی حقیقتوں میں سے ایک زندہ حقیقت کا نام ہے۔ وفاداری بدلنے والا ہر شخص بے وفا و بے حیا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی انسان کو اس طرح دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے کہ وہ ری ایکٹ کرنے پر مجبور ہوجائے، کبھی کبھی اصولوں پر سمجھوتہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے تو کبھی کبھی سچوایشن کچھ اس قسم کی بھی ہوسکتی ہے کہ اپنے اپنے بیوفائوں نے ہمیں یکجا کیا ورنہ میں تیرا نہ تھا اور تو کبھی میرا نہ تھا عرض کرنے کا مطلب یہ کہ میں سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی حماقت و جسارت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ چند ’’باوقار بے وفائوں‘‘ کی جینوئن مجبوریاں بھی ہوں گی لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جدھر دیکھو اور جس کو دیکھو، منیر نیازی کے اس مصرعہ کا منظر پیش کررہا ہے ع ’’ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ بات اصول کی ہو تو قبول… انا کی ہو تو تب بھی کچھ کچھ پلّے پڑتی ہے لیکن اگر انسان کی قیمت، اس کی کُل اوقات ہی قومی یا صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ہو تو لعنت ایسی شرافت و نام نہاد خاندانیت پر کہ ایسوں کے پاس کچھ بھی ہوسکتا ہے… عزت نہیں ،کیونکہ باعزت و با وقار لوگ کچھ اور طرح سوچتے ہیں: زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کیلئے عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارہ کرلیں Philip Armour کیا خوبصورت بات کہہ گیا: \" There is one element that is worth it\'s weight in gold and that is loyalty.It will cover a multitude of weaknesses\" جو مائیکرو لیول پر وفا کا ثبوت نہیں دے سکتے… وہ میکرو لیول پر عوام کے ساتھ وفا کیسے کرسکتے ہیں؟ میں نے تو اپنے تئیں بہت ہی خوبصورت پروفیشن کا انتخاب کیا تھا لیکن یہ کیا ہوگیا کہ میں اکثر و بیشتر ڈسٹ بن نما بوزنوں کا ذکر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں جن کے نام لکھنے کے بعد قلم کو ڈیٹول سے غسل دینا پڑتا ہے اور بولنے کے بعد ’’مائوتھ واش‘‘ سے غرارے کرنے پڑتے ہیں۔