شورش زدہ ریاست جموں کشمیر میں جب بھی حالات بہتری کی طرف گامزن نظر آتے ہیں۔ کوئی ایسا واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے جس سے خرمن میں دوبارہ آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان میں نئے وزیراعظم نوازشریف نے باگ ڈور سنبھالتے ہی بھارت کے ساتھ امن مساعی اور تجارتی رشتوں کو بحال کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں، وہیں18جولائی کورات گئے جموں خطے کے ضلع رام بن کے دورافتادہ گول علاقہ میں بھارتی بارڈر اسکیورٹی فورسز یعنی بی ایس ایف کے جوانوں نے ایک مدرسے اور اس سے ملحق مسجد کی تلاشی کے دوران مبینہ طور پر قرآن شریف کی نہ صرف بے حرمتی کی، بلکہ اگلے دن نماز فجر کے بعد احتجاج کررہے نہتے لوگوں پر گولیاں برساکر چار افراد کو ہلاک کر دیا اور بیسوں افراد کو زخمی کر دیا۔ اس سے قبل بی ایس ایف کیمپ کے انچارج نے دیر رات تک نمازتراویح کا اہتمام کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ گول کا یہ واقعہ دراصل اس تسلسل کی کڑی ہے ،جہاں کوئی نادیدہ ہاتھ امن مساعی کو ناکام بنانے پر تلاہوا ہے۔ابھی چند روز قبل ہی ممبئی اور راجستھان پولیس نے دو کشمیری نوجوانوں کی لاشیں ان کے لواحقین کے سپرد کیں۔ اس سے ایک ہفتہ قبل وسطی کشمیر کے حاجن علاقہ میں فوج نے رات کی تاریکی میں تلاشی کے بہانے دونوجوانوں کو گولی مار کر ابدی نیند سلادیا۔ قصہ مختصر کہ کشمیر میں جس تسلسل کے ساتھ اس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں، کسی سازش کی بو آنا لازمی ہے۔کوئی نادیدہ ہاتھ خرمن امن کو آگ کے حوالے کرنے پر مصر ہے۔ایک طرف بھارتی حکومت بلند بانگ دعوے کر رہی ہے کہ ریاست میں عسکری کارروائیوں میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے، وہیں دوسری طرف فوج اور حفاظتی دستوں کے ہی کچھ عناصراپنے سینوں پر تمغے سجانے اور ترقی پانے کے لیے اپنے علاقوں میں عسکریت کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔اسی طرح کے ایک اسکینڈل کو حال ہی میں جموںکشمیر پولیس نے ڈوڈہ ضلع میں طشت ازبام کر دیا،او رنوکری کی لالچ میں لائے گئے وادیِ کشمیر کے پلوامہ کے تین نوجوانوں کو اس علاقے میں فرضی جھڑپ میں توپ کی رسد بننے سے بال بال بچایا۔ یہ خطرناک منصوبہ حال ہی میں دوران تحقیقات منظر عام پر آیا، جب مقامی نوجوانوں کی عسکری تنظیموں میں بھرتی کے حوالے سے مقامی پولیس نے تحقیقات شروع کی۔ کیس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ پلوامہ کے تین نوجوانوں راسخ احمد تیلی، مظفر شیخ ،شہباز احمد بٹ کے والدین نے پولیس کے پاس اپنے بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے رپورٹ درج کی تھی ۔ تاہم یہ تینوں نوجوان کچھ ایام کے بعد گھر لوٹ آئے جس کے بعد پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔ دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ راسخ ،مظفر اور شہباز کو ایک پولیس مخبر ارشد احمد میر نے جنگجو گروپ میں شامل ہونے کیلئے آمادہ کیا تھا۔پولیس کے مطابق ارشد کشتواڑ کے ایک اور پولیس مخبرمحمد عارف کے ساتھ کام کرتا تھا، جس نے اسپیشل آپریشن گروپ کے سب انسپکٹر شو کرشن شرما عرف سونو کیلئے ایک نقلی جنگجو گروپ قائم کیا تھا اور ڈوڈہ اور کشتواڑ میں فرضی مقابلے کرکے نئے بھرتی ہونے والوں کو ہلاک کیا جاتا تھا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سونو اور عارف کو 5جون کو فرضی جنگجو گروپ چلانے اور فرضی مقابلے کرکے انعامات و اعزازات حاصل کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق راسخ ،مظفر اور شہباز کو ارشد کے ذریعے عارف کو سونپا گیا جس نے ان تینوں کو ماروتی 800کار میں مئی 2013ء کو سنتھن شاہراہ کے ذریعے کشتواڑ پہنچایا۔کشتواڑ پہنچتے ہی عارف نے ان تینوں کو ایک سرنڈرڈ جنگجو راشد عرف عبداللہ کے سپرد کیا اور انہیں کیتھر جنگلات میں گھومنے کی صلاح دی۔دریں اثناء عارف نے سب انسپکٹر سونو کو علاقے میں تینوں نوجوانوں کے آنے کی اطلاع دی۔تحقیقاتی آفیسر کے مطابق سونو نے اس دوران اپنے سینئر افسران او ر جموں میں ا نٹیلی جنس بیورو کو بتایاکہ اسکے پاس علاقے میں جنگجوئوں کی موجودگی کی پختہ اطلاعات ہیں، لیکن ایک سینئر آفیسر ،جسے سونو کی حرکتوں پر شک ہوگیا تھا ،نے اسے علاقے میں کوئی بھی آپریشن نہ کرنے کی ہدایت دی۔پولیس آفیسر کے مطابق یہ بات فہم سے بالا تر تھی کہ کشمیری جنگجو اتنی دور ڈوڈہ اور کشتواڑ آکر جنگجویانہ کارروائیاں انجام دینے کے بجائے اپنے علاقوں میں جاکر کارروائیاں کیوں نہیں کرتے؟ دوسری طرف پلوامہ کے ان 3نوجوانوں کو بھی کمانڈر عبداللہ پر شک ہوا اور انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔ انہوں نے کسی طرح مذکورہ کمانڈر کو چکمہ دیا اور مشکل سے واپس اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔اسی روز سونو نے پولیس کو اطلاع دی گئی کہ کیتھر جنگل میں کچھ جنگجو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔بعد میں جب پلوامہ پولیس نے مذکورہ نوجوانوں کو اپنی تحویل میں لے لیا اور دوران تفتیش یہ بات منکشف ہوئی کہ کس طرح پیسوں اور ایوارڈ کیلئے معصوم نوجوانوں کو خرید کر بعدمیں انہیں ہلاک کیا جاتا ہے۔ 19مئی 2013ء کو تینوں کو ارشد کے ساتھ کشتواڑ پہنچایا گیا جہاں ان سے 27اپریل کوٹھاٹھری پولیس پوسٹ پر ہوئے گرنیڈ حملے کے بارے میں پوچھ تاچھ کی گئی۔تاہم پولیس کے مطابق مذکورہ نوجوان اس میں ملوث نہیں پائے گئے۔اس دوران پکڑے گئے مخبر نے گرنیڈ حملے میں سب انسپکٹر سونو کو ملوث قرار دیااور الزام لگایا کہ گرنیڈ حملہ اسی کے کہنے پر کیا گیا۔بعد میں راسخ رشید ،مظفر اور شہباز کورہا کیا گیا جبکہ ارشد کو پولیس نے اپنی تحویل میں رکھا۔رہا شدہ نوجوانوں نے یہ بھی بتایا کہ کیتھر جنگل میں ایک دفعہ انہیں فوج کے ساتھ فرضی جھڑپ میں مارنے کی کوشش بھی کی گئی۔پولیس افسران کی طرف سے آپریشن نہ کرنے کی ہدایت کے بعد سونو نے فوج کو ان جنگجوئوں کی موجودگی کی اطلاع دی۔ ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ جب وہ تینوں جنگل میں گھوم رہے تھے تو ایک گوجر چرواہے نے ان کو اطلاع دی کہ قریب ہی فوج ان کا انتظار کرہی ہے۔جس کے بعد انہوںنے جلد ہی راستہ بدل دیااور اسکے ساتھ ہی وہاں زبردست فائرنگ شروع ہوئی۔سونو گذشتہ 13برسوں سے ڈوڈہ ضلع میں آپریشنل انچاج رہا ہے۔اگرچہ وہ صرف ایک اے ایس ّئی ہے تاہم اس کے پاس ایس پی کا چارج تھا۔ اسکے اثر ورسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ2005ء میں سونو کو راجوری پونچھ رینج میںٹرانسفر کیا گیا تو اس نے وہ آرڈر منسوخ کرادیا۔بتایا جاتا ہے کی مذکورہ آفیسر نے ان نوجوانوں کو پھنسانے کیلئے مخبروں کو 15لاکھ روپے فراہم کیے تھے۔یہ سکینڈل دہلی میں بیٹھے ارباب اقتدار نیز دیگر سیاسی رہنمائوں کیلئے ایک طرح کا الارم ہے کہ کس طرح عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر سکیورٹی ایجنسیوں نے ایک ایسا جال بچھایا ہے، جس میں معصوم افراد کو بلی کا بکرا بنا کر ترقیاں حاصل کی جاتی ہیں اور پورے ملک کو دہشت گردی سے نپٹنے کے نام پر مسلسل خوف میں مبتلا کردیا گیا ہے۔