"IGC" (space) message & send to 7575

دہلی میں عآپ حکومت کا خاتمہ

بھارت کے دارالحکومت دہلی میں نوخیز عام آدمی پارٹی (عآپ) نے جس ڈرامائی انداز میں49 دن قبل صوبائی حکومت تشکیل دی تھی، اسی ڈرامائی انداز میں اس کا خاتمہ بھی ہو گیا۔ ریاستی اسمبلی میں کسی دوسری پارٹی کو واضح اکثریت نہ ہونے کے باعث دہلی میں اب صدر راج نافذ کیا جاچکا ہے۔ روایتی پارٹیوں کانگرس اور بی جے پی کا خیال تھا کہ شاید وزیراعلیٰ اروند کِجری وال کو اقتدار کی دلدل میں اتار کر اتنا آلودہ کیا جائے کہ یا تووہ خود سیاست سے توبہ کر لیں یا عوامی حمایت سے محروم ہوجائیں، یہ تو اب مئی میں ہونے والے عام انتخابات یا اگلے اسمبلی الیکشن ہی بتاپائیں گے کہ روایتی پارٹیاں اپنی حکمت عملی میں کس حد تک کامیاب رہیں۔
عام آدمی پارٹی نے مرکز کی منظوری کے بغیر اسمبلی میں لوک پال یعنی اعلیٰ اختیاراتی محتسب قائم کرنے کا قانون اسمبلی میں پیش کیا،جسے کانگرس اور بی جے پی نے مل کر پاس نہیں ہونے دیا۔ کِجریوال پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ اگرکرپشن کے خلاف اس قانون کو منظوری نہ ملی تو وہ مستعفی ہوجائیں گے۔ مگرجہاندیدہ سیاستدان اسے بڑ قرار دے رہے تھے۔ اُن کی رائے تھی کہ ہاتھ آئی حکومت اتنے معمولی ایشو پر کون جانے دیتا ہے۔ کشمیر کے وزیراعلیٰ تو آئے دن مستعفی ہونے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ کبھی اتحادی کانگریس سے تنگ آکر، کبھی فوج کی تلخیاں سن کر اور چند سال قبل افضل گورو کوسزائے موت دینے کے ایشو کو لے کر۔ مگر ہربار وہ تلخ گھونٹ پی کر اقتدار کی دیوی سے چمٹے رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
پچھلے49 دنوں میں عآپ حکومت نے نہ صرف وی وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا، بلکہ پانی اور بجلی کے بلوں میں بھی بڑی حد تک تخفیف کی۔ مگر ان کا سب سے بڑا گناہ،جس پر ملک کے کارپوریٹ اور ان کے زیراثر میڈیا نے ان کے خلاف طوفان برپا کر دیا وہ ، دہلی میں ریٹیل سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندی لگانا تھی۔اور تو اور جب کِجریوال حکومت نے بھارت کے اہم صنعتی گھرانہ ریلائینس انڈسٹریز کے مالک مکیش امبانی کے خلاف باضابطہ کیس دائر کیا تو اسی وقت یہ طے تھا کہ اُن کی حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں۔ امبانی دہلی کے بجلی گھروں کو 9 ڈالر فی برٹش تھرمل یونٹ کی شرح پر گیس فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ اسی کنویں سے نکلنے والی گیس کو ایک اور کمپنی پڑوسی ملک بنگلہ دیش کو 2 ڈالر میں فراہم کرتی ہے۔ 
قصہ مختصر کہ بھارت میں سیاسی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ عآپ نے ایسا سیاسی بھونچال پیدا کردیا ہے کہ کرپٹ نظام کے حامل اسے 'انارکی‘ سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ دہلی میں غیر متوقع اور حیرت انگیز کامیابی سے حوصلہ پاکر پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ جس نے موجودہ نظام کی دونوں بڑی نمائندہ جماعتوں کانگرس اور بی جے پی کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا۔ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس '' بلائے نا گہانی‘‘ کا کس طرح مقابلہ کیا جائے۔ عآپ نے دہلی کا اقتدار سنبھالنے کے بعد جس سادگی اور پاک و صاف سیاست کا مظاہرہ کیا اور عوام سے کئے گئے کئی وعدوں کو بڑی حد تک پورا کیا، اس نے پورے ملک کے عام آدمی کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ متوسط طبقہ کو بھی کافی متاثر کیا کیونکہ یہی طبقہ یا تو بی جے پی کا حامی رہا ہے یا وہ انتخابی سیاست سے لا تعلق رہا ہے ۔ اسمبلی انتخابات کے موقع پر 'عآ پ‘ نے سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے نیز عام آدمی کو مہنگائی اور رشوت ستانی سے نجات دلانے کی غرض سے18 وعدے
کئے تھے ۔ عآپ نے جود عوے اور اعلانات کئے ان کے مطابق کسی بھی رکن ریاستی اسمبلی یا وزیر کی کار پر لال بتی استعمال نہیں ہوگی ۔ اگر ان کے پاس ذاتی مکان ہو ا تو انہیں سرکاری رہائش گاہ نہیں دی جائے گی۔ محلہ کمیٹی کو فیصلہ سازی کااختیار دینے کے لیے سوراج ایکٹ وضع کیا جائے گا، بجلی کمپنیوں کے حسابات کی جانچ کی جائے گی، دہلی جل(پانی) بورڈ کی تشکیل نو ہو گی، کنٹریکٹ پر روزگار دینے کا سلسلہ ختم کیا جائے گا، ویٹ (ویلیو ایڈڈ ٹیکس سسٹم) کو آسان بنایا جائے گا، ایف ڈی آئی کو خوردہ بازار میں ممنو ع قر ار دیا جائے گا ، یومیہ مفت ساتھ سو لیٹر پینے کا پانی اور بجلی کی شرح کو نصف کیا جائے گا۔ کِجریوال نے پولیس سکیورٹی لینے سے بھی انکار کردیا ۔اس پر مرکزی ارباب اقتدار نے ڈارمہ رچایا کہ انڈین مجاہدین نامی تنظیم جسے مسلم اور سیکولر حلقے آئی بی کی تخلیق قرار دیتے ہیں، کِجریوال کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس کا خود کِجریوال نے بھانڈا پھوڑ دیا۔اس پر مستزاد یہ کہ ا نہوں نے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود بدعنوان نظام سے ٹکر لینے کے لئے مرکزی حکومت کے دفاتر کے عین سامنے دھرنا دینے کا ایک ایسا بے نظیر قدم اٹھایا کہ اس نے عام آدمی کو کافی متاثر کیا ۔ کِجریوال نے برملا الزام لگایا کہ '' دہلی پولیس کرپٹ ہے وہ جرائم کی سر پرستی کرتی ہے ، پولیس تھانے خریدے جاتے ہیں، ایس ایچ او ہفتہ جمع کرکے پولس کمشنر کو بھیجتا ہے اور اس کا ایک حصہ مرکزی وزیر داخلہ کو پہنچایا جاتا ہے ۔‘‘ جب کوئی وزیر اعلیٰ سر عام پولیس پر ایسا سنگین الزام عائد کرتا ہے تو یہ موجودہ نظام پر تازیانہ سے کم نہیں ہوتا ۔ یہ احساس دراصل ہر عام و خاص کا ہے جس کی ترجمانی کِجریوال نے کی ۔
اس دھرنے کے حوالے سے عآپ کو پہلی مرتبہ خوب سب و شتم کا نشانہ بنایا گیا لیکن وہ اپنے موقف پر قائم ہے اور اس نے لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے شروع کردی ہیں۔ پارٹی نے ملک بھر میں ایک کروڑ رکن بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ صرف12 دن میں 50 لاکھ افراد نے اس میں شمولیت اختیار کی جن میں ملکہ سار بھائی ، کیپٹن گوپی ناتھ ، ٹی وی صحافی آشو توش وغیرہ متعدد معروف شخصیات ہیں۔ پارٹی کے ایک لیڈر کمار وشواس نے خاندانی سیاست کی سب بڑی علامت راہول گاندھی کو ان کے روایتی حلقہ امیٹھی میں چیلنج کر نے کا پہلے ہی سے اعلان کر رکھا ہے ۔ 
گو دیہی علاقوں میں عآپ کے امکانات اتنے زیادہ خوش کن نہیں ہیں مگر وہ شہروں میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے امکانات کو زک پہچانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ کے زیر اثر جس میڈیا نے کل تک عآپ کو سر پر اٹھا رکھاتھا وہی آج اس کے لَتے لینے لگا ہے ۔ کِجریوال کو ہیرو سے ولن بنانے میں مصروف ہے ۔ دوسری طرف کانگرس اور بی جے پی دونوں عآپ کی نقل کرنے کی بھونڈی کوششیں کررہی ہیں ۔کانگرس کے ' ولی عہد‘ نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں وہ15 نشستوں پر پارٹی کارکنوں کو امیدوار منتخب کرنے کا موقع دیں گے اور اب وہ پارٹی کا انتخابی منشور تیار کرنے کے لئے جگہ جگہ عوامی جلسے کر رہے ہیں۔ ادھر بی جے پی نے کہا کہ وہ عوام سے پارٹی فنڈ کے لئے عطیات جمع کرے گی ۔
بی جی پی نے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو وزرات عظمیٰ کا امیدوار نامزد کرکے جو دائو کھیلا تھا اور میڈیا کے سہارے مودی کے حق میں جولہر پید ا کرنے کی کوشش کی گئی تھی وہ عآپ کے ' کرشماتی‘ ورود نے ماند کردی ۔ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس اب اپنے وسیع تر جال کے ذریعہ ملک کے قریہ قریہ پرو پیگنڈا مہم چلارہی ہے کہ پہلی مرتبہ ایک پسماندہ طبقہ کا رہنما ( مودی) ملک کا وزیر اعظم بننے جارہا ہے۔ کانگرس ہمیشہ سے پسماندہ طبقات ( او بی سی ) کے خلاف رہی ہے اس نے دلتوں اور مسلمانوں کو اوپر اٹھایا۔ خود مودی بھی اپنی تقریروں میں اپنے پسماندہ ہونے اور اپنی غریبی کا پس منظر بیان کرنا نہیں بھول رہے تاکہ دیگر پسماندہ طبقات کے لوگوں کے جذبات کا استحصال کیا جاسکے۔ 
'عآ پ‘ کی کامیابی دراصل جنوبی ایشیا میں سیاسی ، سماجی اور اقتصادی بیداری کی ایک چھوٹی سی علامت ہے ۔ ان ممالک میں آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخا بی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں امرا (Oligarchy)کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا، اس نے ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں لوٹا۔ جس کا پروردہ موجودہ حکمران طبقہ ہے۔ اب اس کے وجود کو عاپ کی شکل میں ایک سخت چیلنج کا سامنا ہے ۔ بھارت میں انتخابی تجزیہ کار کہتے ہیں اگر عآپ 30 سے 50 نشستوں پر پر بھی کامیاب ہوتی ہے تو یہ کانگرس کی قیادت والی یو پی اے اور بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے دونوں کے حساب کتاب کو بگاڑ سکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں