"IGC" (space) message & send to 7575

اٹھائیس سال بعد بھی انصاف نہیں ملا

یوں تو بھارت میں ایک محتا ط اندازہ کے مطابق پچھلے ساٹھ برسوں میں تیس ہزار کے قریب چھوٹے بڑے فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوچکے ہیں، لیکن اٹھائیس برس قبل اترپردیش صوبہ کے میرٹھ شہر میں ہاشم پورہ اور ملیانہ کی بستیوں میں بلوائیوں کے بدلے پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر چالیس مسلم نوجوانوں کو اپنے گھروں سے اٹھا کر گولیوں کا نشانہ بناکر بربریت کی ایک نئی مثال قائم کی۔اس سے قبل فسادات میں عمومی طورپر ایڈمنسٹریشن اگر غیر جانبدار نہیں بھی رہتی تھی، تو براہ راست کبھی ملوث نہیں ہوئی تھی۔ اس واقعہ نے نہ صرف اترپردیش کی پوری سیاسی صورت حال کو بدل کر رکھ دیا بلکہ کانگریس پارٹی اقتدار سے محرومی کا زخم چاٹنے پرآج بھی مجبور ہے۔جموں کشمیر کے موجودہ وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید اسی واقعہ کو بہانہ بنا کر راجیو گاندھی کی کابینہ اور بعد میں کانگریس سے مستعفی ہوگئے تھے، مگر اٹھائیس سال بعد جس طرح دہلی کی ایک کورٹ نے اس بہیمانہ واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کو بری کردیا، اس نے ایک بار پھر عدالتی نظام اور انصاف کے حصول پر سوالیہ نشان لگادئے ہیں۔ اس فیصلہ سے مسلم حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال انتخابات کی کوریج کے سلسلے میں میرٹھ پہنچ کر میں ہاشم پورہ گیا تھا۔ ایک تنگ گلی میںداخل ہوا ہی تھا کہ ایک پرنٹنگ پریس سے ایک شخص برآمد ہوا۔ وہ کوئی مزدور معلوم ہوتا تھاکیوں کہ اس کے ہاتھوں میں روشنائی کے داغ او رکپڑوں پرہر طرف دھبے لگے ہوئے تھے ۔یہ اقبال احمد تھے جو درحقیقت ایک میڈیکل گریجویٹ ہیں لیکن 25 برس قبل ان کی زندگی اس وقت پوری طرح بدل گئی جب میرٹھ کے بدترین
فسادات کے دورن پولیس دیگر تقریباََ ایک سو لوگوں کے ساتھ انہیں بھی ہاشم پورہ سے اٹھا کر لے گئی۔ وہ بہر حال خوش قسمت تھے کہ پولیس نے انہیں جیل میں ڈال دیاورنہ ان کا بھی حال شاید انہیں دیگر لوگوں کی طرح ہوتا جنہیں اترپردیش کی پرونشل آرمڈ کانسٹیبلری(پی اے سی) نے مبینہ طور پر بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کرکے ان کی لاشوں کو ہنڈن اور گنگ نہرمیںپھینک دیا۔اقبال کی زندگی تباہ ہوگئی ۔ وہ ذہنی طور پر اتنے پریشان ہوگئے کہ میڈیکل کی اپنی پریکٹس جاری نہیں رکھ سکے اور گذر بسر کے لئے ایک پرنٹنگ پریس میں کام کرنے لگے۔
90سالہ بوڑھی پیرو کی آنکھوں سے تو اب آنسو بھی نہیں نکل پاتے تھے ۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ دکھائی دیتی تھی۔ جب وہ اپنے سولہ سالہ لخت جگر نظام الدین کے بارے میں بتارہی تھیں تو ان کی نگاہیں دور کہیں خلاء میں کھوئی ہوئی تھیں۔ ان کے پیارے سے بیٹے کو پی اے سی کے جوان گھسیٹ کر اپنے ٹرک پر ڈال کر لے گئے تھے۔ نظام الدین کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ ماں اب بھی اپنے بیٹے کی منتظر تھی۔
75 سالہ جمال الدین انصاری بتاتے ہیں کہ بی جے پی کے چوٹی کے رہنما لال کرشن اڈوانی جب یہاں آئے اورحقیقی صورت حال سے واقف ہوئے تو انہوں نے بھی ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔1987ء تک جمال الدین قینچی کے بڑے تاجر وں میں سے تھے لیکن آج دو وقت کی روٹی کے لئے ایک تنگ گلی میں ایک چھوٹی سی دکان کی آمدنی ہی ان کا سہارا ہے۔ان کے 22سالہ کڑیل جوان بیٹے قمرالدین کو سرعام قتل کردیا تھا۔ جمال الدین کو تدفین کے لئے اپنے بیٹے کی لاش تک نہیں دی گئی۔ انہوں نے اس کے کپڑوں سے اس کی شناخت کی تھی۔جمال الدین کہہ رہے تھے کہ'' اس کے بعد سے تو میری زندگی ہی تباہ ہوکر رہ گئی۔ میرے بیشتر خریدار ہندو تھے ‘ جنہوں نے فسادات کے بعد خوف اور نفرت کے سبب ہم سے مال خریدنا بند کردیا‘‘۔
24مئی 1987ء کوپلاٹون کمانڈر سریندر پال سنگھ کی ماتحتی میںپی اے سی کے 19 جوانوں نے ہاشم پورہ کے 50مسلمانوں ‘ جن میں سے بیشتر روزانہ مزدوری کرکے اپنی زندگی چلانے والے اور غریب بنکر تھے‘ کو الگ کرکے اپنے ساتھ لے گئے لیکن کسی تھانے کے بجائے غازی آباد میں مراد نگر کی گنگ نہر پر لے جاکر گولیو ں سے بھون ڈالا اور لاشوں کو نہر میں پھینک دیا۔اس قتل عام میں زندہ بچ جانے والے پانچ لوگوں میں سے ایک بابو دین نے اپنے جسم پر لگے تین گولیوں کے نشانات دکھائے۔بابو دین کی عمر اب 43 برس ہوگئی ہے۔ وہ اب بھی اس بھیانک گھڑی کو یاد کرکے کانپ جاتے ہیں۔''ٹرک نہر کے کنارے رکا ۔ کچھ جوان ٹرک سے کود کر نیچے آئے ۔ انہوں نے ٹرک کا پچھلا حصہ کھولا اور ہم لوگوں کو اترنے کا حکم دیا۔اس کے بعد اچانک بندوقیں آگ اگلنے لگیں اور لوگ خون میں لت پت نہر میں گرنے لگے۔جب میری باری آئی تو ایسا لگا کہ شاید وہ گولیاں چلاتے چلاتے تھک گئے تھے۔ مجھے تین گولیاں لگیں۔ ایک پیچھے سے چھو کر گذر گئی‘ ایک کندھے کے طرف لگی اور ایک گولی سینے کے داہنے کنارے پر ۔ میںگر پڑا ۔ میرا آدھا جسم جھاڑیوں میں تھا اور آدھا نہر میں۔ میں بے ہوش تھا۔ اگلے دن مراد نگر کی پولیس کی گشتی پارٹی نے مجھے اور سراج الدین نامی ایک اور زخمی کو وہاںسے اٹھا کر ایک ہسپتال پہنچا دیا۔
عدالت کی دلیل یہ تھی، کہ ہاشم پورہ کے متاثرین خاطیوں کی شناخت کرنے میں ناکام ہوگئے، اس پر بابو دین کا کہنا تھا، کہ جب ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرک میں لادا جارہا تھا، اور جب ان پر فائرنگ کی جارہی تھی تواس وقت وہ کیسے پولیس اہلکاروں کی وردی ، ہیلمٹ اور بیلٹ کا نمبر دیکھ کر یاد رکھ سکتے تھے۔ وہ شاید گجرات کے فسادزدگان کی طرح اتنے خوش قسمت نہیں تھے جہاں 2002 ء کے فسادات کے بعد غیرسرکاری تنظیموں کے جھنڈ کے جھنڈ متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے میدان میں اتر آئے تھے۔ متاثرین کی طرف سے دائر کی گئی ایک عرضی کے جواب میں2001ء میں سپریم کورٹ نے ان کے کیس کو غازی آباد سے دہلی منتقل کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ اس کی تیزی سے سماعت ہو سکے۔ سپریم کورٹ نے کیس کو تیس ہزاری عدالت میں منتقل کرتے ہوئے اس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ایک عرصے تک تو سماعت شروع ہی نہیں ہوسکی کیوں کہ اترپردیش حکومت نے نہ صرف سپیشل پبلک پروسیکیوٹر کی تقرری میں جان بوجھ کر تاخیر کی بلکہ اس نے متاثرین کو انصاف دلانے کے سلسلے میں کسی دلچسپی کا مظاہر ہ بھی نہیں کیا۔ سیکولر کہلوانے والی کانگریس اور سماج وادی پارٹی میں سے کسی کو بھی ان بدنصیب لوگوں کی سدھ لینے کی فکر نہیں ہے، حالانکہ دونوں ہی پارٹیاں مسلمانوں کے اصل بہی خواہ ہونے کے دعوے کررہی ہیں۔کانگریس پارٹی کا تو ذکر ہی کیا خود کو مسلمانوں کے کاز کا سب سے بڑا چیمپئن قرار دینے والے ملائم سنگھ یادو نے بھی اپنی حکومت کے دور میں ہاشم پورہ کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اٹھائیس برس قبل ہاشم پورہ کے لوگوں میںکانگریس کے خلاف جو غصہ تھا وہ اب بھی برقرار ہے۔وہ مسلمانوں کو ریزرویشن‘ بہتر تعلیم اور روزگار دلانے کے اس کے وعدے کو جھوٹے وعدے سے زیادہ نہیں سمجھتے ۔ فساد میں اپنے بیٹے کو کھودینے والے 75 سالہ جمال الدین انصاری کہتے ہیں ''ہم اس پارٹی کو اس وقت تک معاف نہیں کرسکتے جب تک ہمیں انصاف نہیں مل جاتا‘‘۔تاہم جمال الدین اسی کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی جیسی خود کو سیکولر قرار دینے والی پارٹیوں کا رویہ بھی اس سے مختلف نہیں ۔ انہوں نے بھی خطاکار پی اے سی کے اہلکاروں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی زحمت تک گوارانہیں کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں