وادی کشمیر کے ایک بھارت نواز سیاستدان اور ریاستی کانگریس کے سابق صدر غلام رسول کارگزشتہ ہفتے 94 برس کی عمر پا کرانتقال کر گئے۔ انہیں شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور میں سپرد خاک کیا گیا۔ایک بھارت نواز سیاستدان، جس پر ملک و قوم کا سودا کرنے کا الزام ہو اور یا جو وطن کو غیروں کے ہاتھوں رسوا کرنے کا ذریعہ بنا ہو، کی تعزیت شایدکچھ دوستوںکو ناگوارگزرے، مگر بقول بھارتی سیاستدان ایل کے ایڈوانی، سیاست میں حریف ہونا واجب مگر دشمن ہونا ٹھیک بات نہیں ہے۔ مرحوم کی نجی اور سیاسی زندگی کے ایسے مختلف گوشے رہے جن کا مجھ سے سابقہ پڑتا رہااس لیے قارئین کی نذرکرنا فرض سمجھتا ہوں تاکہ سند رہے۔
وادی کشمیر کے ہنگامہ خیز قصبہ سوپورکا امتیاز رہا ہے کہ اس سرزمین نے نہ صرف مشکل وقت میں بھی آزادی کشمیرکی قندیل کو روشن رکھا بلکہ کشمیری سیاست کو چند روشن چراغ بھی عطا کیے۔ صوفی محمد اکبر ‘جو شیخ محمد عبداللہ کے دوست ہونے کے باوجود آخر دم تک حق خود ارادیت کے حامی رہے اور سید علی گیلانی ‘جو اس وقت قافلہ حریت کے سالار ہیں ‘کے علاوہ ریاستی اسمبلی کے سابق سپیکر عبدالاحد وکیل اور ریاستی قانون سازکونسل کے سابق چیئرمین حکیم حبیب اللہ بھی اسی قصبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عبدالغنی لون مرحوم ، غلام قادر وانی اگرچہ سوپور سے تعلق نہیں رکھتے تھے مگر ان کو دنیائے سیاست میں متعارف کرانے میں گورنمنٹ کالج سوپورکا کلیدی رول رہا ہے۔
مرحوم غلام رسول کارکی سیاسی زندگی 64 برس پر محیط رہی۔ اس سفر میں وہ ابتدائی دور میں ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف کشمیر چھوڑ دو تحریک سے وابستہ رہے لیکن بعد میںکانگریس پارٹی کے ٹکٹ پرکئی بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے رہے اور ریاستی کابینہ کے وزیر بھی رہے۔ وہ 19جون1921ء کو پیدا ہوئے،تقسیم کے بعد1951ء میں ریاست کی آئین ساز اسمبلی کے رکن نامزد ہوئے اور1957ء میںاس کے لیے منتخب ہوگئے۔ 1938ء میں جب شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کیا گیا تو ایک سرگرم نوجوان کارکن کے طورپر مرحوم نے اپنے حلقوں میں اس کی حمایت کے لیے مہم چلائی۔کشمیر چھوڑ دوتحریک کے دوران انہیں1938ء اور1946ء میں گرفتار بھی کیا گیا؛ تاہم جب ریاست میں کانگریس نے اپنے سیاسی قدم جمانے کی کوشش کی تو غلام رسول کار نے اپنی بانہیں پھیلائیں اور پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ وہ کئی مرتبہ پارٹی کے ریاستی صدر رہے۔
1990ء کی دہائی کے اوائل میں ‘جب کشمیر میں عسکریت پسندی انتہائی عروج پر تھی، تقریباً سبھی بھارت نواز سیاستدان اپنا بوریا بستر لپیٹ کر دہلی یا جموں منتقل ہوگئے لیکن کار صاحب کئی قاتلانہ حملوں کے باوجود سوپور میں مقیم رہے۔ میں نے انہی دنوں میدان صحافت میں نیاشیا قدم رکھا تھا اور ایک قومی فیچر ایجنسی میں پہلے بطور انٹرن اور بعد میںجونیئر سب ایڈیٹرکے بطور کام کرنے لگا ۔ میرے سینئر جنوبی بھارت کے ایک مسلم صحافی تھے ‘مگر از حد قوم پرست اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار۔ انہیں کشمیریوں سے پرخاش تھی کہ ان کی وجہ سے بھارتی مسلمانوںکا امیج متاثر ہوتا ہے۔ اسی دوران سعودی عرب کے ایک معروف اخبار'سعودی گزٹ‘ کوکشمیر پرایک ضمیمہ شائع کرنا تھا۔ اس کا کنٹریکٹ اسی ایجنسی کو دیا گیا ۔ مجھے ایسے موزوں افرادکی ایک فہرست بنانے کے لیے کہا گیا جن کے انٹرویوکیے جاسکتے ہوں۔ ایڈیٹر صاحب کا خصوصی حکم تھا کہ ایک بھارت نواز مسلم کشمیری لیڈرکا انٹرویو ضرور ہونا چاہیے تاکہ بیرونی دنیاکو باورکرایا جاسکے کہ سبھی کشمیری بھارت سے آزادی نہیں چاہتے۔ چونکہ نیشنل کانفرنس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ حکومت سے مستعفی ہوکر لندن منتقل ہوگئے تھے؛ چنانچہ قرعہ غلام رسول کارکے نام نکلا جو اس وقت ریاستی کانگریس کے سربراہ تھے۔ انٹرویو کا وقت طے ہوگیا۔ میں اور میرے ایڈیٹر وقت مقررہ پر دہلی کی لودھی کالونی میں ان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے انٹرویوکے بعد جب میں نے ٹیپ ریکارڈ بندکیا اور ایڈیٹر نے نوٹ بک بند کرکے قلم واپس جیب میں رکھا توکار صاحب نے چائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر انٹرویو ختم ہوگیا ہو تووہ کچھ باتیں آف دی ریکارڈکرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ لگا تار ایک گھنٹہ بولتے رہے۔ بھارتی لیڈروںجواہر لال نہرو، اندراگاندھی سے لے کر نرسمہا رائو تک سبھی پر نکتہ چینی کرتے رہے کہ کس طرح انہوں نے کشمیریوںکو دھوکہ دیا اورجوانوں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کیا۔ ایڈیٹر نے ان کو ٹوکنا چاہا توکار صاحب نے برہم ہوکرکہا: ''میں اندرون خانہ سے آیاہوں اور بھارتی لیڈروںکی رگ رگ سے واقف ہوں، میں جانتا ہوںکون کتنا لبرل اور سیکولر ہے‘‘۔
انہوں نے کانگریس کی مسلم اورکشمیر دشمنی کے کئی ہوشربا انکشافات کیے۔یہ بتایا کہ انتخابات کوکس طرح ہائی جیک کیا جاتا رہا۔کشمیریوں کی کسمپرسی اور مظلومیت کا ایسا نقشہ کھینچا کہ شایدکوئی حریت پسند لیڈر بھی اتنی بیباکی اورمدلل انداز میں بیان نہ کرسکتا۔ ایڈیٹر صاحب تو ہکا بکا تھے، باہرگاڑی میں بیٹھتے ہی میری طرف دیکھ کر گویا ہوئے:''کشمیرکے سبھی بھارت نواز لیڈر منافق ہیں، ان کے دل اور چہرے میل نہیں کھاتے‘‘۔
اکتوبر1994ء میں حریت لیڈر شبیر احمد شاہ طویل قید سے رہا ہوئے تو افواہوںکا بازار گرم تھاکہ بھارتی حکومت انہیںانتخاب لڑوانے پر مصر ہے اور اس کے لیے بساط بچھ چکی ہے۔ انہیں باورکرایاگیا تھا کہ ان کی مقبولیت کا گراف باقی تمام لیڈروں سے اونچا ہے، وہ کشمیرکے دوسرے شیخ عبداللہ ہی نہیں بلکہ قید و بندکے حوالے سے نیلسن منڈیلا کو بھی مات دے چکے ہیں۔ رہائی کے بعد مارچ1995ء میں شاہ صاحب دہلی وارد ہوئے۔بھارت کے اخبارات میں مسلسل ان کے انٹریوز چھپ رہے تھے۔ ان کو کشمیرکے واحد لبرل اور سیکولر لیڈرکے طور پر نمایاں کیا جارہا تھا۔ شبیر شاہ بھی انٹرویوز میں حریت اور پاکستان سے تعلق کے بارے میں دبے لفظوں میں تحفظات کا اظہارکررہے تھے۔ افواہیں گرم تھیںکہ نیشنل کانفرنس کے انتخابی میدان سے فرارکے بعد کشمیرکا تاج شاہ صاحب کے سر پر سجنے والا ہے۔ اسی دوران ایک دن میں ان کے کمرے میں موجود تھا کہ کار صاحب ایک کشمیری پنڈت وکیل اشوک بھان کے ہمراہ وارد ہوئے اور شاہ صاحب سے کہا کہ وہ تخلیہ میں بات کرنا چاہتے ہیں مگر شاہ صاحب نے تخلیہ میں جانے سے منع کیا توکار صاحب نے انہیںدہلی کی سیاسی شطرنج کا مہرہ بننے سے خبردار کیااورجاتے جاتے ایک معنی خیز جملہ بھی کہہ گئے کہ''70ء کے اوائل میں جب ہم نے وزیر اعلیٰ غلام محمد صادق کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو اندرا گاندھی سے ملاقات کے لیے دوسرے ارکان اسمبلی کے ساتھ مجھے بھی دہلی لاکر اسی ہوٹل میں ٹھہرایاگیاتھا۔ اس کاکرایہ اور دوسرے اخراجات اس وقت کے مرکزی وزیرداخلہ وائی بی چوان اداکر رہے تھے،اب فرق صرف یہ ہے کہ بھارت کے وزیر داخلہ ایس بی چوان ہیں‘‘۔ مجھے یاد ہے، وہ یہ جملہ ادھورا چھوڑکر چلے گئے اور بعد میں کبھی اس کی تشریح نہ کی مگر اس کے فوراً بعد عبدالغنی لون، سید علی گیلانی اور اس وقت دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر ریاض کھوکھر، شاہ صاحب کو قافلہ حریت میں لانے میں کامیاب ہوئے۔ دہلی میں حریت دفتر کھولنے کا سہرا بھی شاہ صاحب کے سر جاتا ہے ‘جو2003 ء تک قائم رہا۔کیاکار صاحب کی سرزنش کے نتیجے میں شاہ صاحب واپس کاروان آزادی میں شامل ہوگئے؟ اوراس وقت دہلی میں شاہ صاحب کی تگ ودوکا مقصد کیا تھا؟ اس کے جواب معلوم کرنا ہنوز باقی ہیں۔
سرینگر میں 15ویںکورکے کمانڈر انچیف نے ایک ضیافت کا اہتمام کیا۔ صحافیوں کے علاوہ کئی بھارت نواز سیاستدانوںکے ساتھ کار صاحب بھی مدعو تھے۔ جنرل صاحب کسی سے محو گفتگو تھے اورکار صاحب مصافحہ کرنے کا انتظارکررہے تھے۔ جب انتظار طویل ہوا توکار صاحب نے جنرل کی گفتگوکا تسلسل توڑکر، ان کا ہاتھ اپنے ہاتھو ں میں لے کرکہا: ''میں نفس کی غلامی میں یہاں آیا ہوں ورنہ غیرت کا تقاضا تھا کہ یہ ہاتھ میں کبھی اپنے ہاتھوں میں نہ لیتا‘‘۔ 2002 ء میں جب مجھے دہلی میں گرفتارکیا گیا، تومیں جس کالونی میں رہتا تھا وہاں کے مکینوں نے ایک طرح سے میرے اہل خانہ کا سوشل بائیکاٹ کر رکھا تھا، حتیٰ کہ میرے بچے ‘جن کی عمریں اس وقت چاراور دو سال تھیں، جب کالونی میں کھیلنے کے لیے نکلتے تو پڑوسی اپنے بچوںکو فوراً اندر بلالیتے۔ میری اہلیہ کسی کام سے باہر نکلتیں توگلی میںگفتگو میں مصروف خواتیں منتشر ہوجاتیں اور اپنے گھروں کے دروازے بندکرلیتیںلیکن کار صاحب نے کئی بار میری رہائش گاہ پر آکر اہل خانہ کی ڈھارس بندھائی۔
چند سال قبل کانگریس ہیڈ کوارٹر میں انہیں پارٹی جنرل سیکرٹری موہن پرکاش کے کمرے میں برستے دیکھا۔ موہن پرکاش کانگریس کے کشمیر معاملوں کے انچارج تھے۔ان کی قوت سماعت جواب دے چکی تھی اور نظرکمزورہونے کی وجہ سے وہ کسی کو پہچان بھی نہیں پاتے تھے۔کانگریس ترجمان نے پاکستان کے خلاف کوئی سخت بیان دیا تھا۔ کار صاحب اونچی آوازمیں موہن پرکاش کو سمجھا رہے تھے کہ کشمیریوںکی پاکستان کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے، چاہے وہ کانگریسی ہو یا نیشنلی یاکسی اور پارٹی کا، یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو مرکزی لیڈروںکو جا ن لینی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا: ''میں بھارت نواز لیڈر سہی مگر پاکستان میں ہوئی کسی بھی ہلاکت پر میں خون کے آنسو روتا ہوں۔ یہ محض میرا نہیں بلکہ یہ پورے کشمیرکا المیہ ہے‘‘۔
یقیناً کشمیرکے کانگریسی لیڈر بھارتی آئین میں جموںوکشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ رہے ہیں۔ شیخ عبداللہ کی برطرفی اورگرفتاری کا فائدہ اٹھاکر 1954ء اور1960ء میں صدارتی ریفرنس کے ذریعے ان لیڈروں نے عوام کے سیاسی حقوق پر شب خون مارا، مگر نیشنل کانفرنس جہاںکشمیر کے تشخص کو برقرار رکھنے کی علامت ہے، وہاں اس نے حکومت میں رہ کر اقربا پروری اور ظلم و جبر کو انتہا تک پہنچایا۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کار صاحب کو معاف فرما دے اور ان کے سیاسی وارثوںکو عقل و فراست کے ساتھ ساتھ یہ جرأت بھی عطا کرے کہ وہ مظلوم قوم کی داد رسی کا ذریعہ بنیں نہ کہ ان پر مزید ظلم و ستم کا۔