"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیریوں کا مئی ڈے 29 اپریل

پچھلے ہفتے دنیا بھر کے مزدورں اور محنت کشوں نے مئی ڈے منایا۔ کمیونزم کے زوال کے بعد گو کہ یوم مئی میں اب پہلے جیسا جوش و خروش نظر نہیں آتا، مگر مزدوروں، کسانوں اور اس طبقہ سے متعلق دیگر افراد کے مسائل جوں کے توں ہیں، بلکہ کارپوریٹ کلچر اور سرمایہ دارانہ نظام کی مضبوطی اور کسی احتساب کی عدم موجودگی نے ان مسائل کو کچھ زیادہ ہی پیچیدہ کردیا ہے۔ 130 برس قبل جب امریکہ میں روزانہ 8گھنٹوں تک کام کرنے کا مطالبہ لے کر مزدور طبقہ سارے ملک میں احتجاج کررہا تھا تو شکاگو کے شہر میں بے دردانہ طریقے پر مظاہرین پر گولیاں چلا کر سینکڑوں نہتے احتجاجی مزدوروں کو ہلاک کردیا گیا اور کئی ایک کوتختہ دار پر کھینچا گیا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد مزدور طبقہ کے حق کوتسلیم کیا گیا۔ بعدازاں 1889ء میں سیکنڈ انٹرنیشنل کانگریس میں یکم مئی کو یومِ مزدور کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی اعتبار سے کرۂ ارض کے کم وبیش ہر کونے میں اس حوالے سے تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
شاید کم لوگوں کو ہی علم ہوگا، کہ دنیا کی پہلی ٹریڈ یونین موومنٹ کا سہرا کشمیر کے سر جاتا ہے۔ مئی 1886ء شکاگو کی ہئے مارکیٹ میں مزدوروں کے خلاف تشدد کے واقعہ سے 11 سال قبل 29 اپریل 1865ء کو سرینگر کی سڑکیں شال بننے والے کاریگروں کے خون سے لالہ زار ہوگئی تھیں۔اْس واقعہ کو‘ جس میں 28افرادڈوگرہ فوج کے ہاتھوںجاں بحق ہوئے تھے کوگذرے 150برس سے زائد ہوچکے ہیں، مگر مقامی باشندوں کے دل ودماغ میں اس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔چند برس قبل تک دہلی میں مقیم وادیٔ کشمیر کے معروف صحافی اور ٹریڈ یونین لیڈر آنجہانی پران ناتھ جلالی ہر سال 29 اپریل کو پریس کلب آف انڈیا کے ایک کونے میں ایک میز بک کرکے ان بدنصیب مزدوروں اور کاریگروں کو یاد کرتے تھے۔دہلی میں مقیم چند کشمیری صحافیوں اور قلم کاروں کی معیت میں جلالی صاحب اکثر رونا روتے تھے، کہ کشمیریوں نے تو انقلاب روس اور چین سے بہت پہلے محنت کشوں کے حقوق کیلئے خون بہایا، مگر تاریخ نے اس کو نظر انداز کر دیا ہے۔ شکاگو کی ہئے مارکیٹ کا واویلا پوری دنیا کرتی ہے، مگر بدنصیب شال بننے والے کاریگروں کو یاد کرنا تودور کی بات، ان کی قبروں تک کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔کمیونزم کے ساتھ رغبت رکھنے کے باوجود، جلالی صاحب بھارتی کمیونسٹ لیڈروں سے نالاں رہتے تھے۔ ا ن کا گلہ تھا، کہ چند ایک کو چھوڑ کر کشمیر کے سلسلے میں ان لیڈروں کے خیالات و افکار بھارتی قوم پرستوں سے جدا نہیں ہیں ، جو ہر دم کشمیر میں جائز جمہوری جدوجہد کو بھی تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ حق خود ارادیت کی حمایت کرنا تو دور کی بات، کشمیر کے محنت کشوں کی قربانیوں کو بھی بھلایا گیا ، شاید اس لیے کہ وہاں ظلم و جبر کا شکار ہونے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
تاریخی حوالوں کے مطابق یہ واقعہ 29اپریل 1865ء کو اْس وقت پیش آیا جب شہر سرینگر کے شالبافوں (شال بُننے والے کاریگروں) نے محکمہ داغِ شال،جوشالبافوں سے ٹیکس وصولی کا سرکاری محکمہ تھااور جس کے سربراہ کے عہدے کو 'داغِ شال‘ کے نام سے جانا جاتا تھا،کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا۔یہ احتجاج ،جوتاریخ میں شالبافوں کی تحریک کے نام سے مشہور ہے ،شالبافوں کے مشکل حالاتِ کار،برائے نام اْجرت، بھاری ٹیکسوں اورشالبافوں کے کشمیر سے باہر جانے پر پابندی عائد کئے جانے کے خلاف منظم کیا گیا تھاجس میں ہزاروں شالبافوں نے علی الصبح ڈوگرہ حکومت کے 'داغِ شال‘ پنڈت راج کاک دھرکے گھر ، جو شہر کے مرکز زالڈگر میںواقع تھا،کے باہر احتجاجی مظاہرے کئے۔ پنڈت دھر نے فوج کو یہ اطلاع فراہم کی کہ اس کے گھر پر حملہ ہوا ہے،چنانچہ بغیر کسی تفتیش کے کرنل بیجے سنگھ کی قیادت میں فوج کی ایک پلٹن نے مظاہرین کا گھیرائو کرکے بندوقوں کے دہانے اْن پر کھول دیئے اور
گھڑسوار رِسالوں نے گرے پڑے مظاہرین پر نیزوں سے وار کئے۔اس فوجی کارروائی کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے جان بچانے کی غرض سے نزدیک بہنے والی ندی 'کٹہ کول‘کے اوپر بنی کچی پلیا 'حاجی راتھر کی سم‘کے اوپر سے چھلانگیں لگائیں جس کے نتیجے میں کئی افراد ندی کے دلدل میں دھنس کر ہلاک ہوگئے جبکہ 100سے زائد زخمی ہوئے۔ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے استاد ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ ''یہ استحصالی نظام کے خلاف اوّلین عوامی تحریک تھی‘‘۔ اس تحریک کے لیڈروں سول شیخ ، عبلی بابا، قدہ لالہ اور سونہ بٹ کو قلعہ باہواوررام نگر کی جیلوں میں پابند سلاسل کرکے زیرتشدد سے ہلاک کر دیا گیا۔ اس زمانے میں ڈوگرہ حکومت شال کی صنعت سے 50 لاکھ روپیہ سالانہ کماتی تھی۔ اسی سال کشمیر سے ایک لاکھ پچیس ہزار پونڈ کی شالیں یورپ روانہ کی گئی تھیں، مگر چرب دست کاریگر کو روزانہ 16 سے 18 گھنٹہ کام کرنے کے باوجود 5 تا 7 روپیہ ماہانہ مشاہرہ ملتا تھا۔ جب کاریگروں نے شالبافی کو ترک کرنا شروع کیا، تو حکم نادری نازل ہوا کہ وہ شال بننے کا پیشہ ترک کرسکتے ہیںا ور نہ ہی بیرون ریاست جا سکتے ہیں۔
بھارت کے میڈیا اور تاریخ دانوں نے اس واقعہ کو جابرانہ ٹیکس نظام کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد کے بجائے ہندو حکمران کے خلاف مسلم رعایا کی بغاوت قرار دیا ہے۔ اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ 1924ء کو سرینگر کی سلک فیکٹری میں پیش آیا، جب وہاں مزدوروں نے کام کی مدت طے کرنے، بہتر اجرت، اور ایک استحصالی کلرک کی معزولی کا مطالبہ لے کر ایجی ٹیشن کی۔ یہاں بھی ڈوگرہ فوج نے فیکٹری پر دھاوا بول کرمزدوروں کو زد و کوب کیا اور ان کے لیڈروں کو گرفتار کرکے دور دراز کی جیلوں میں پہنچایا گیا۔ ان میں سے شاید ہی کسی کو زندہ واپس آنا نصیب ہوا ۔ ان غریب مزدوروں سے ہمدردی جتانے کے بجائے، 1924ء کے ہندوستان ٹائمز کی خبر ہے، کہ سلک فیکٹری کے مسلمان مزدوروں نے ہندو سپروائزروں کو بندھی بنایا، اور ان کے تحت کام کرنے سے انکار کیا۔ اکثر ہندو قلم کاروں نے اس واقعہ کو اسی طرح پیش کرکے اس کو فرقہ وارانہ رنگت دینے کی کوشش کرکے انتہائی متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کی ہے۔
شکاگو کے حادثے نے مزدوروں کی زندگی میں بہتری کے چراغ روشن کئے اور سرمایہ داروں کے خلاف دنیا کے مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع فراہم کیا، مگر کشمیر اب بھی انصاف کا منتظر ہے۔دنیا بھر کے محنت کشوں کی یا د میں آنسو بہانے والے ، اگر کشمیری مزدوروں، کاریگروں اور محنت کشوں کی حالت زار اور ان کی قربانیوں کو بھی یاد کرکے اس بدنصیب قوم کے آنسو پونچھنے کی سعی کریں، تو ان کی شان میں کوئی حرف نہیں آئے گا۔ کیا ہوا کہ یہ محنت کش مسلمان تھے، مگر محنت کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ شاید کی اتر جائے ترے دل میں مر ی بات!...

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں