ایک سال کا قلیل عرصہ مکمل کرنے کے بعد ہی بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت ایک بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا کر رہی ہے۔ اگرچہ فی الحال ان کی حکومت کو کوئی خطرہ درپیش نہیں مگر عوام ، خاص طور پر بھارت کی نو دولتیہ مڈل کلاس میں یہ احساس گھرکرتا جارہا ہے کہ یہ حکومت بھی سابق کانگریسی حکومتوںکا عکس ہے۔ صاف ستھری، بدعنوانی سے پاک، شفاف اور آئین کی حکمرانی اورکالے دھن کی واپسی جیسے بلند وبانگ نعروں کے زور پر نریندر مودی کی سربراہی میں بی جے پی کوگزشتہ سال بھاری اکثریت کے ساتھ بر سر اقتدار آ نے کا موقع ملاکیونکہ عوام کانگریس حکومت سے نالاں تھے۔ اب لگتا ہے کہ کانگریسی کلچر حکمران بی جے پی میں بھی سرایت کر گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مبینہ بدعنوانی،اپنے آئینی عہدے کا بے جا اورغلط استعمال اور بدعنوانی میں ملوث مفرور ملزم کی مدد وغیرہ کے یکے بعد دیگرے کئی معاملے منظر عام پر آ نے کے باوجود وزیر اعظم مودی معنی خیز خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ بی جے پی ان وزرا کا پوری ڈھٹائی سے دفاع کر رہی ہے اورکہتی ہے کہ کرپٹ وزیروں کو ہٹایا نہیں جائے گا۔
وزیر اعظم مودی کے لیے اس وقت لندن میں مقیم بھارت کے ایک مقتدر صنعتی گھرانے کے فرد للیت مودی گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ وہ مالی بدعنوانیوں اورکرکٹ انتظامیہ میں خورد برد کے الزامات کے سلسلے میں کئی ایجنسیوں کو مطلوب ہیں۔ وہ لندن سے تقریباً روزانہ ایسے تیر چھوڑ رہے ہیں کہ بھارت میں سیاستدانوں، کرکٹ انتظامیہ، صنعت کاروں حتّی کہ کئی کھلاڑیوں کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس وقت بھارت کے 'وکی لیکس‘ کے خالق جولین اسانج بن گئے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کے ایک ٹویٹ سے ملک کی سیاست لرزہ براندام ہوجاتی ہے اور دن بھر میڈیا کی خوراک کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ للیت مودی 2008ء میں کرکٹ کی دنیا میں رنگا رنگ انڈین پریمیر لیگ یعنی آئی پی ایل شروع کروانے اور کھیل کو شوبزاور بزنس کے ساتھ منسلک کرنے کے خالق ہیں۔ للیت مودی نے بھارت کے
کرکٹ بورڈ کو خاصا مال دار تو بنایا مگر بورڈ میں بڑھتے اثر و رسوخ کی وجہ سے ان کے کئی دشمن بھی پیدا ہوگئے۔ انہوں نے اب ایک ویب سائٹ ''للیت گیٹس‘‘ کے نام سے شروع کی ہے جس پر بھارتی سیاستدانوں کی کرپشن اورکرکٹ منیجروں کی مالی بدعنوانیوں کی تفصیلات اپ لوڈکی جاتی ہیں۔ یہ ''مودی نامہ‘‘ دراصل برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے 7جون کو شروع کیا جو بظاہر بھارتی نژاد لیبر پارٹی کے رکن پارلیمان کیتھ وازکو فیکس کیے گئے کچھ حقائق تھے۔ جب مذکورہ اخبار نے واز کے ای میلزافشا کیے تو معلوم ہوا کہ بھارتی وزیر خارجہ شسما سوراج نے وازکے تعاون سے للیت مودی کو برطانیہ کے لیے سفری دستاویزات فراہم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ادھر دہلی میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اورمحکمہ انکم ٹیکس نے للیت مودی کے خلاف متعدد نوٹس جاری کیے تھے اور خود بھارتی وزارت خارجہ نے برطانوی فارن آفس کو ایک کمیونیکیشن بھیجا تھا کہ للیت مودی کی کسی بھی طرح مدد بھارت برطانیہ تعلقات ہراثرانداز ہوسکتی ہے۔اس پر بھارتی حکومت نے نہ صرف للیت مودی کا پاسپورٹ منسوخ کردیا تھا بلکہ ان کی واپسی کے لیے قانونی کارروائی بھی شروع ہو چکی تھی۔ حیرت ہے کہ اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں پرتگال جانے کے لیے انسانی بنیادوں پر عارضی دستاویزات مودی کو بھارتی ہائی کمیشن بھی فراہم کروا سکتا تھا کیونکہ وہ بہرحال ایک بھارتی شہری تھا۔ اس تناظر میں شسما سوراج کا محض انسانی بنیاد پر مودی کی مدد کرنا اور اس سلسلے میں خود برطانوی ہائی کمشنر سے درخواست کرنا اور اپنے محکمہ کو بالکل اندھیرے میں رکھنا ہضم نہیں ہوتا جبکہ سوراج کی بیٹی اور ان کے شوہر بھارتی عدالتوں میں مودی کے کیس بھی لڑ رہے ہیں۔ جب میڈیا اور اپوزیشن پارٹیوں نے شور مچایا اور وزیر خارجہ کے استعفیٰ اور مودی کے خلاف
قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تواس سے پہلے کہ حکومت کوئی فیصلہ کرتی، للیت مودی نے ایک دھماکہ کرکے دستاویزات کا ایک انبار جاری کر دیا جس میں بی جے پی کی ایک اور مقتدر لیڈر اور مغربی صوبہ راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندرا راجے کی پول کھول دی۔ وسندرا راجے نے 2011ء میں لیڈر آف اپوزیشن ہوتے ہوئے لندن میں امیگریشن محکمہ کے سامنے مودی کے لیے ایک گواہ کے طور پر حلف نامہ داخل کیا تھا۔ انہوں نے حلف نامہ میں یہ بھی لکھا تھا کہ ان کی اس گواہی کی اطلاع کسی بھارتی اہلکارکو نہ دی جائے اور اسے بھارتی حکومت سے مخفی رکھا جائے۔ اس کے ساتھ یہ انکشاف بھی ہوا کہ مودی نے راجے کے صاحبزادے دشینت (جو ممبر پارلیمنٹ ہیں) کی کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ للیت مودی نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگلے کچھ ہفتوں میں وہ کچھ اور سیاستدانوں کی پول کھول سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سو سے بھی زیادہ ایسے سیاستدانوں کی لسٹ ہے جنہوں نے آئی پی ایل کی میزبانی کا مفت لطف اٹھایا۔اس کے علاوہ حوالہ ڈیلروں کے ساتھ سیاستدانوں اور چند کرکٹ کھلاڑیوں کے روابط کے پختہ ثبوت بھی ہیں۔ بہرحال اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بی جے پی میں للیت مودی کے دوستوں نے جو اب وزرا اور وزرائے اعلیٰ بن گئے ہیں اپنے مفرور دوست کو بچانے کے لیے مشترکہ کاوش کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راجے نے للیت مودی کی حمایت میں جس حلف نامہ پر دستخط کیے اس میںانہیں بی جے پی قیادت کی حمایت حاصل تھی۔ یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ راجے نے اس حلف نامہ پر دستخط کرنے کے لیے بذات خود لندن میں قیام کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شسما سوراج اور وسندھرا راجے فوراً اخلاقی بنیادوں پر مستعفی ہوجاتے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ اپوزیشن وزیراعظم مودی کو اپنا وہ ٹویٹ پیغام بھی یاد دلا رہی ہے جو انہوں نے 14جون 2014ء کوکیا تھا: ''اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے مفاد میں سخت فیصلے اور قدم اٹھائے جائیں۔ ہم جو بھی فیصلہ کریںگے وہ قومی مفاد کو سامنے رکھ کر کریںگے‘‘۔
تازہ ترین انکشاف کے مطابق جولائی2011ء میں نتین گڈکری کی قیادت میں، جب وہ بی جے پی کے صدر تھے، پارٹی کے ایک وفد نے لندن کا دورہ کیا تھا جس میں راجے، ایرانی اور وجے جولی کے علاوہ کئی دوسرے لیڈرشامل تھے۔ اب اس کی تصاویر بھی میڈیا میں آچکی ہیں۔ للیت مودی کے معاملے نے جو سیاسی طوفان پیدا کیا وہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی کے بارے میںدہلی کی ایک عدالت نے یہ فیصلہ سنادیا کہ الیکشن کمیشن میں متضاد حلف نامہ داخل کرنے اور اپنی غلط تعلیمی اہلیت بتانے پر ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم مودی کی منظور نظر ٹی وی اداکارہ سے وزیر بننے والی سمرتی ایرانی نے 2004ء میں پہلا پارلیمانی الیکشن لڑا تھا توحلف نامے میں اپنی تعلیمی لیاقت بی اے درج کی تھی جبکہ 2014ء میں الیکشن لڑتے وقت انہوں نے اپنی تعلیمی لیاقت بی کام فرسٹ ایئر بتائی۔ یہ حقائق چھپانے کا سنگین جرم ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ بھارتی وزیر تعلیم کی تعلیمی لیاقت گریجوایٹ نہیں ہے۔
اسی طرح مغربی صوبہ مہاراشٹر میں بھی ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا ہے جسے بی جے پی کے دورحکومت کا پہلا سکینڈل قرار دیا جارہا ہے۔ آنجہانی گوپی ناتھ منڈے کی بیٹی پنکجا منڈے پر جو ریاستی حکومت میں بچوں اور خواتین کی بہبود کی وزیر ہیں، ایک ہی دن میں 206کروڑ روپے مالیت کی قبائلی بچوں کے لیے چیزیں خریدنے کا الزام عائدکیاگیا ہے۔ حقائق کے مطابق وزیر پنکجا منڈے نے ایک دن میں 206کروڑ مالیت کی خریداری کی اجازت دی اور یہ اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کرکیا گیا۔ ایک ممنوع قرار دی گئی این جی او کو اس کا ٹھیکہ دیا گیا جس کا کنٹریکٹ 2013ء میں ختم کردیاگیا تھا۔ مہاراشٹرکے ایک وزیرتعلیم ونود تاوڑے پر یہ الزام عائدکیا گیاکہ انہوں نے ایک ایسے کالج سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے جوآل انڈیاکونسل فار ٹیکنکل ایجوکیشن سے منظورشدہ نہیں ہے۔ مبینہ طور جعلی ڈگریاں رکھنے والے لوگ تعلیم کا شعبہ سنبھالیں گے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی ملک کو کس سمت میں لے جانا چاہتی ہے۔ بہرحال ان واقعات سے وزیراعظم مودی کا صاف ستھری سیاست اور حکمرانی کا نعرہ سراب ثابت ہو رہا ہے اور عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیںکہ یہ حکومت من موہن سنگھ حکومت کی ہوبہو تصویر ہے جو کرپشن کی دلدل میںلت پت تھی۔
مودی کی کابینہ میںا یسے ارکان ہیں جن کے خلاف فوجداری مقدمات چل رہے ہیں۔ ان میں سے 31فیصد مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں، 17فیصد کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم ہیں۔ فروغ انسانی وسائل کے ایک جونیئر وزیر رام شنکرکٹھاریہ کے خلاف قتل سمیت 23 مقدمات درج ہیں۔ ان پر جعلی ڈگریاں رکھنے کا الزام بھی ہے۔ ایک وزیر پر عصمت دری کا مقدمہ درج ہے۔گری راج سنگھ، وی ایس چودھری اور دیگر وزیروں کے خلاف معاشی جرائم کے مقدمات درج ہیں۔تازہ معاملوں نے واضح کردیا ہے کہ ہاتھی کی طرح بی جے پی کے دکھانے اورکھانے کے دانت الگ الگ ہیں لیکن اس سے نہ صرف مودی حکومت بلکہ بی جے پی کے امیج کو سخت زک پہنچ رہی ہے۔