ملا ئیشیا اور سنگاپور سے واپسی کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں 32 ممالک کا دورہ کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس سال کے آخر میں وہ فرانس اور روس بھی جا رہے ہیں۔ چونکہ 2002ء میںگجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد اکثر یورپی ممالک اور امریکہ نے مودی کو ویزا جاری کرنے سے انکارکیا تھا، شاید اس لیے گزشتہ سال 26 مئی کو زمام اقتدار سنبھا لنے کے بعد سے انہوں نے غیرملکی دوروں کا سلسلہ شروع کردیا تاکہ دنیا میں اپنا تاثر بہتر بنائیں اورعالمی برادری انہیں جواہر لال نہرو اور اٹل بہاری واجپائی جیسے بھارت کے سابق سربراہوں کے ہم پلہ تسلیم کرے۔
مختلف حلقوں میں اب یہ سوالات گردش کر رہے ہیں کہ ان دوروں سے ملک کوکیا حاصل ہوا؟ مودی نے اقتدار اس وقت سنبھالا جب عالمی کساد بازاری بھارتی معیشت پر بھی اثر انداز ہو رہی تھی۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے ماہرین زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات کو بڑھانے کا مشورہ دے رہے تھے۔ دوسری طرف کارپوریٹ سیکٹر نے مودی کو کرسی تک پہنچانے کے لیے انتخابات میں دل کھول کر چندہ دیا تھا، اس لیے ان کو نئی مارکیٹیں دلانا اور سستی ٹیکنالوجی فراہم کروانا بھی نئے وزیر اعظم کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ اب تک چین، جاپان، شمالی کوریا، امریکہ اور برطانیہ نے مجموعی طور پر 100ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، مگر یہ سرمایہ کاری تا حال کاغذوں تک محدود ہے جبکہ گزشتہ گیارہ مہینوں سے برآمدات میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ 18ماہ میں برآمدات میں 44.89 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی کیونکہ مارچ 2014ء میں اس کی مالیت 280 ارب ڈالر تھی جواکتوبر 2015ء میں کم ہو کر 154ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ ادھر صرف گزشتہ برس مودی کے بیرونی دوروں پر تین ارب روپے سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں۔
بڑی طاقتوں کے ساتھ مودی کے تعلقات شاید بہتر ہو رہے ہوں مگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ ان کی پالیسی شدید تنقید کی زد میں ہے۔ سفارتی تعلقات میں انتہائی اشتعال انگیزی کا مقابلہ بھی صبر و تحمل سے کرنا پڑتا ہے مگر مودی نے عدم برداشت سے متعلق اپنا امیج برقرار رکھتے ہوئے نیپال اور افغانستان کو سبق سکھانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ نیپال کا دو بار دورہ کرنے کے بعد مودی کو یقین تھا کہ وہاں کی پارلیمنٹ ان کی مرضی کے مطابق ایک تو ہندومت کو سرکاری مذہب قرار دے گی، دوسرے بھارتی صوبوں بہار اور اتر پردیش سے وہاں جا بسی مدھیشی آبادی کو سرکاری اداروں میں خاطر خواہ نمائندگی ملے گی، مگر جب نیپالی پارلیمنٹ نے یہ دونوں تجاویز ٹھکرا دیں تو چاروں طرف سے گھرے اس ملک کی سرحدوں پر نقل و حمل مسدودکردی گئی۔ اگر بھارت چاہے تو فوراً ناکہ بندی ختم کروا سکتا ہے۔ اسی طرح جب افغانستان کے نو منتخب صدر اشرف غنی نے مسائل حل کرنے کے لیے پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھایا اور پاکستانی اداروں کو کابل میں رسائی دی تو نریندر مودی اس قدر برہم ہوئے کہ افغان صدرکو دہلی کا دورہ کرنے کے لیے نہ صرف کئی ماہ انتظار کروایا بلکہ خاموش سفارتی سرزنش کے طور پر بھی کئی قدم اٹھائے جن میں علاج معالجے کے لیے بھارت آنے کے خواہش مند افغانوںکے ویزے جاری کرنے میں تاخیر شامل تھی تاآنکہ افغانستان نے سرتسلیم خم کرکے دوبارہ آستانہ دہلی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ طالبان کے ساتھ گفت و شنید میں ناکامی اور قندوز واقعہ کے بعد افغان رہنما اب مودی کو باورکروا رہے ہیںکہ پاکستان نے انہیں دھوکہ دیا ہے، وہ بھارت کے ساتھ دوبارہ تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں دوبارہ عمل دخل کو یقیناً مودی حکومت کی سفارتی کامیابی تصورکیا جاسکتا ہے مگر ماہرین کو اس دوستی کی پائیداری پر شبہ ہے جس کا انحصار اصولوںکے بجائے پاکستان دشمنی پر ہے۔ البتہ افغان نائب وزیر خارجہ حکمت کرزئی نے آئندہ 'ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ بھارت میں منعقد کرنے کا عندیہ دیا ہے اور مودی کے دورہ کابل کی تاریخوںکا تعین کیا جا رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں بھارت کی خارجہ پالیسی کا محور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اور بیرونی سرمایہ کا حصول رہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس، آسٹریلیا اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک ہندوستان کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے کے علاوہ اس کے ہاتھ اپنا اسلحہ بھی فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ ان ترقی یافتہ ملکوں کے لیے ایک ترغیب یہ بھی ہے کہ بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی جوان آبادی ہے، یہاں سستی لیبر اور خام مال بھی آسانی سے دستیاب ہے۔ جہاں تک سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا معاملہ ہے امریکہ ، روس اور برطانیہ وغیرہ بھارت کو خوش کرنے اوراسلحے کے سودے کرنے کی غرض سے اب تک صرف چکنی چپڑی باتیںکرتے رہے ہیں، عملی اقدام کا وقت آتا ہے تو وہ رنگ بدل لیتے ہیں۔ یہ منظر اقوام متحدہ کے اجلاس میں دیکھنے کو ملا۔ چنانچہ کانگریس رہنما آنند شرما کو کہنا پڑا کہ بھارت اپنے اس مطالبے پر روس کی حمایت کھوچکا ہے اور امریکہ نے بھی مبہم موقف اختیار کر رکھا ہے حالانکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر پر قدغن لگانے اور افغانستان میں ناکامی کے بعد امریکہ کو نئی دہلی کی سخت ضرورت ہے۔
بھارت کے الیکٹرانک میڈیا کی چوبیس گھنٹے مودی کے غیر ملکی دوروںکی تشہیر، مبالغہ آرائی اور غلط بیانی اب اس کی روایت
بن چکی ہے۔ مودی کے خلاف جانے والے واقعات کی پردہ داری کی جاتی ہے جیسے سان جوز میں ان کے خلاف جو بڑا مظاہرہ ہوا اسے بالکل نظراندازکر دیا گیا حالانکہ اس میں دو ہزار سے زائد مظاہرین پلے کارڈز اور بینروں کے ساتھ احتجاج کر رہے تھے اور اس میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل تھے۔ سری لنکا کے دورے میں بھی مودی کے خلاف مظاہرہ ہوا لیکن اسے بھی دبانے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح بھارت نے سلامتی کونسل میں اصلاحات کے مطالبے کو تقویت پہنچانے کے لیے مستقل رکنیت کے امیدوار ملکوں جرمنی، برازیل اور جاپان کا ایک گروپ بنایا تاکہ اصلاحات کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے۔ اس کی پہل من موہن سنگھ کے پہلے دور حکومت میں ہوئی تھی لیکن اس کا کریڈٹ مودی حکومت کو دینے کو کو شش کی گئی۔ میڈیا کی مودی نوازی کا یہ عالم تھا کہ اس نے یہ خبر اڑائی کہ امریکی دورے کے دوران صدر بارک اوباما اور امریکی انتظامیہ نے مودی کو خصوصی اور ممتاز مہمان کا درجہ دے رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اوباما نے چینی صدرکے اعزاز میں دو بار سرکاری عشائیہ دیا جو ان کی خصوصی عزت افزائی تھی جو کسی دوسرے مہمان سربراہ کے حصہ میں نہیں آئی۔
ذرائع کے مطابق بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہروکی طرح مودی اکیلے ہی خارجہ امورطے کر تے ہیں۔ عموماً ان کے دن کا آغاز خارجہ سیکرٹری ایس جے شنکر سے ملاقات سے ہوتا ہے۔ اس وزارت کے تمام افسر مودی کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ سشما سوراج برائے نام وزیر خارجہ ہیں۔ غالباً تن تنہا خارجہ پالیسی چلانے کا نتیجہ تھا کہ امریکہ میں وزیر اعظم نے دعویٰ کر دیا کہ ہندوستان کی قومی مجموعی پیدوار آٹھ کھرب ڈالر ہے اور ہم اسے 20 کھرب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ بیان اپوزیشن کی سخت تنقیدکا ہدف بنا۔کانگریس نے یاد دلایا کہ جب یو پی اے نے حکومت کی باگ ڈور مودی کے حوالے کی تھی تو اس وقت ہندوستان کا جی ڈی پی کا حجم تقریباً2.27 کھرب ڈالر تھا جو اب 2.50 کھرب ڈالر کے قریب پہنچا ہے،حتّی کہ چین کی جی ڈی پی کا حجم بھی آٹھ کھرب ڈالر نہیں ہے۔
وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کے موقع پر ان کے اعزاز میں استقبالیہ جلسوں کا انعقاد بھی اب ایک فیشن بن چکا ہے جس کا بظاہر مقصد وزیراعظم کا سیاسی قد بلندکرنا ہوتا ہے۔ غیر ملکی سرزمین پر ہونے والی ان تقاریب کی الیکٹرانک میڈیا پر اس قدر تشہیرکی جاتی ہے جیسے بھارت میں ان سے پہلے کوئی ایسا سیاسی رہنما پیدا ہی نہیں ہوا جس کی غیرملکی سر زمین پر اتنے بڑے پیمانے پر قدردانی کی گئی ہو۔ ان تقریبات پر لاکھوں ڈالرخرچ ہوتے ہیں۔ ان کے انعقاد کی تیاری کے سلسلے میں ہزاروں لوگوں بالخصوص ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے کارکنوں اور بی جے پی کے ورکروںکو بہت پہلے اس ملک بھیج دیا جاتا ہے جہاں کا مودی دورہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ امریکہ کے دورے کے موقع پر بی جے پی کے 4,300 کارکن 10جولائی سے وہاں مقیم تھے۔ بی جے پی کے جنرل سیکرٹری بیرونی دورے سے پہلے متعلقہ ملک پہنچ جاتے ہیں تاکہ جلسوں کی تیاریوں کی نگرانی کر سکیں۔ آر ایس ایس کے سابق پرچارک رام مادھو مودی کے غیر ملکی دوروں اور خارجہ پالیسی کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد کرتے ہیں اور اب وہی بی جے پی کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انڈیا فائونڈیشن نام سے قائم ادارہ اس کام میں ان کی مدد کرتا ہے جو رام مادھو اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال کے صاحبزادے شوریا ڈوبھال چلاتے ہیں۔ یہ ادارہ وزیر اعظم کو خارجہ ڈپلومیسی کے سلسلہ میں معلومات فراہم کرنے کے علاوہ ان کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔