"IGC" (space) message & send to 7575

بابری مسجد بنام مسجد شہید گنج

بھارت میں مسلمانوں نے ایک بار پھر قدیم تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے دن کو یوم سیاہ اور شدت پسند ہندو تنظیموں نے اسے یوم جرأت کے طور پر منایا۔ ریاست اتر پردیش کے شہر اجودھیا میں اس تاریخی مسجد کی شہادت کو اب 23 برس ہو چکے ہیں۔ بابری مسجدکے انہدام کے بعد وہاں ایک عارضی مندر تعمیر کر دیا گیا تھا۔ بعض ہندوئوںکا عقیدہ ہے کہ ان کے بھگوان رام چندر اسی مقام پر پیدا ہوئے تھے، اس لیے وہ اس جگہ پر ایک عظیم الشان مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ایک سابق لیڈر مرحوم جاوید حبیب نے کہا تھا کہ بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے پانچ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا 1857ء کی جنگ آزادی، دوسرا 1920ء میں موہن داس کرم چند گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947ء میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا 1971ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں 1984ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور 1992ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ 
بابری مسجدکی شہادت میں بھارتی عدلیہ اور انتظامیہ نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا پول کھول دیا۔ دنیا بھر میں بھارتی عدلیہ ایک سیکولر اور غیر جانبدار ادارے کی حیثیت سے مشہور ہے‘ لیکن بابری مسجد کے سانحے پر اس کے رویے نے اس کا اعتبار مشکوک کر دیا ہے۔ اس کے اعتبار کی رہی سہی کسر 30 دسمبر 2010ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین ججوں کے بنچ نے پوری کر دی‘ جب برسوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اس نے قانون اور شواہد کو بالائے طاق رکھ کر ایک فریق کے عقیدے اور یقین کو بنیاد بنا کر بابری مسجد پر حق ملکیت کا فیصلہ ہندوئوں کے حق میں سنا دیا۔ ایک جج نے زمین کے بٹوارے کی تجویز دی۔ بنچ نے ان نکات پر بھی فیصلہ دیا جو شامل بحث ہی نہ تھے۔ یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ 1949ء کو جب مسجد کے منبر پر مورتی رکھی گئی اور مقامی انتظامیہ نے تالہ لگا کر مسلمانوںکی عبادت پر پابندی لگائی تو مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے اس کے خلاف کورٹ میں فریاد کی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ Law of Limitation کا اطلاق ہندو دیوتائوں پر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان دیوتائوں کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔ اس فیصلے کا اعتبار اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کیا کہ بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا اور یہ بھی کہا کہ ان کے مطابق رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے۔ دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے۔ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے طویل فیصلے میں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی ایک لمبا چوڑا تبصرہ کیا ہے‘ اور ان کے دور میں ہندو عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے عمل کو بھی اپنے فیصلے کا جواز بنایا۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہندو حکمرانوں کے ذریعے لاتعداد بدھ خانقاہوں کی بے حرمتی اور ان کی مسماری کس کے کھاتے میں ڈالی جائے؟ کشمیر کے ایک ہندو بادشاہ ہرش دیو نے اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لیے مندروں کو لوٹا اور جب پجاریوں نے مزاحمت کی تو ان کو تہہ تیغ کر دیا۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘ تو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا کیونکہ ہر قوم نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی۔ مگر اب آبائواجداد کے گناہوںکے سزا ان کی اولادوں کو تو نہیں دی جا سکتی۔
اس قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ قانون دانوں کو یقین تھا کہ عدالت اس کو فیصلہ کی بنیاد بنائے گا۔ 1762ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 1849ء میں جب پنجاب برطانوی عملداری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ پریوی کونسل نےLaw of Limitation کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ 1850ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ 1880ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بارLaw of limitation کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی
اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ 1935ء میں سکھوں نے اس مسجدکو رات کے اندھیرے میں مسمار کر دیا۔ انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی تھی‘ جس پر ابھی رائے عامہ ہموار ہو رہی تھی کہ سکھوں نے مسجد کی عمارت ہی ڈھا دی۔ جب بادشاہی مسجد سے ناراض مسلمانوں نے جلوس نکالا تو کئی افراد گولیوں سے ہلاک ہوئے۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کو رد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تحویز پیش کی۔ اسی طرح کی تجویز حال ہی میں ہندو انتہا پسندوںکی مربی تنظیم آر ایس ایس اور شیوسینا نے بھی دی ہے۔ ان کے مطابق عقیدے سے متعلق فیصلے عدالتوں پر نہیں چھوڑ دینے چاہئیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ سے قانون سازی کے ذریعے بابری مسجد کی املاک کو ہندوئوں کے حوالے کرکے وہاں ایک عالی شان مندر تعمیر کرنے کی راہ ہموارکرنی چاہیے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت جب حکمران بی جے پی کے پاس ایوان زیرین میں واضح اکثریت ہے، یہ قانون سازی نہ ہو سکی تو پھر کبھی نہیں ہو سکے گی۔ اس سے قبل 1998ء اور 2004ء کے درمیانی عرصے میں اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت اتحادیوںکی بیساکھی کے سہار ے چل رہی تھی مگر مودی کے پاس تو واضح اکثریت ہے۔ معروف قانون دان اور مورخ اے جی نورانی کے بقول جب اسی طرح کی تجویز مسلم لیگ کے کئی ارکان نے پیش کی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا تھا۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے
کے باوجود نورانی کا کہناہے کہ انہوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عملداری کا پاس کیا۔ 
پاکستان بننے کے 68 سال بعد بھی یہ گوردوارہ آب و تاب کے ساتھ لنڈا بازار میں کھڑا ہے‘ جبکہ شاید ہی اب کوئی سکھ اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر کسی پاکستانی سیاستدان نے انگریز عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہ کی۔
بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ہندوتوا کو مذہبی علامت کے بجائے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریہ زندگی بتایا تھا۔ انہوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکرکی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر تکیہ کیا اور یہ فیصلہ سناکر ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کیا۔ 1992ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریقہ کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوں (مسجد کو مسمار کرنے والے والنٹیٔروں) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ 1998ء میں بی جے پی حکومت نے انہیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا۔ بابری مسجد سانحہ پر جسٹس من موہن سنگھ لبراہن کمیشن کی 1000 صفحات پر مشتمل عدالتی رپورٹ نے بی جے پی اور تمام ہندو قوم پرست تنظیموں کی اعلیٰ قیادت بشمول 68 رہنمائوں کو مسجد کے انہدام کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا مگر ہنوز کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔یک رکنی کمیشن نے مسلم قیادت کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ وہ مسلمانوںکی صحیح رہنمائی اور بابری مسجدکا تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں