"IGC" (space) message & send to 7575

عراق میں چند روز

داعش کے ساتھ برسر پیکار عراق کی نیم فوجی رضاکار تنظیم حشدالشعبی کی العباس بریگیڈ کے کمانڈروں نے جب ہمیں کربلا شہر کے نواح میں اپنے ٹریننگ کیمپ میں لے جانے کی پیشکش کی‘ تو عراق دورہ پر آئے بھارتی صحافیوں کی رگ صحافت پھڑک اٹھی۔ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ساتھی کچھ زیادہ ہی خوش تھے۔ وہ ٹینکوں، مارٹروں اور دیگر اسلحہ کے ساتھ فوجیوں کی عکس بندی کرکے میدان جنگ کا سماں کیمروں میں قید کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔ جمعہ کا دن تھا۔ جب ہم اپنے گائیڈوں اور مترجموں کے ہمراہ ٹریننگ کیمپ پہنچے تو وہاں سناٹا چھایا تھا۔ چند افراد بیرکوں میں آرام کر رہے تھے۔ جب وہاں موجود کمانڈروں سے پوچھا کہ آخر فوجی ایکسرسائز کیوں موقوف ہے تو ان کا جواب تھا کہ آج جمعہ کی وجہ سے چھٹی ہے اور سبھی عسکری نماز ادا کرنے گئے ہوئے ہیں۔ جب میں نے پوچھا کہ اگر دشمن نے جمعہ کے دن ہی حملہ کیا تو کیا ہو گا؟ برجستہ جواب تھا: حملہ کرنے والے بھی تو جمعہ کی چھٹی کرتے ہیں، وہ بھی نماز ادا کرنے گئے ہوں گے، اس لئے حملہ کا کوئی اندیشہ نہیں۔ یہ عالم اسلام کا عظیم المیہ ہے، جو پندرہ صدی قبل کربلا سے شروع ہو کر کسی بھی طرح سے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آخر ایک اللہ، ایک نبی اور ایک قرآن کو ماننے والے کب تک ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہیں گے؟ معلوم ہوا کہ عراق کے میدان جنگ میں توپوں میں مارٹر لوڈ کرنے سے پہلے ان پر قرانی آیات کا دم کیا جاتا ہے اور ان کو اللہ اکبر کے نعرہ کے ساتھ ہی داغا جاتا ہے۔ یہی عمل شاید دوسری طرف بھی دہرایا جاتا ہوگا۔
اس سے قبل بنگلور کے ایک مشہور صنعت کار اور سماجی کارکن آغا حسن کی معیت میں کربلا درگاہ کی منتظمہ کمیٹی اور حکومت عراق کی دعوت پر 15 رکنی بھارتی صحافیوں کا وفد نجف پہنچا تو دوحہ سے فلائٹ میں سعودی زائرین کا ایک گروپ بھی ہمراہ تھا۔ جہاز کے پہیوں نے جوں ہی زمین کو چھوا تو درود شریف کا غلغلہ بلند ہوا۔ وفد میں موقر اداروں این ڈی ٹی وی، سی این این‘ آئی بی این، ٹائمز آف انڈیا، ٹیلیگراف، دکن ہیرالڈ، زی ٹی وی، ای ٹی وی، انقلاب، سیاست اور دیگر اداروں سے وابستہ صحافی بھی شامل تھے۔ نجف کے تاریخی شہر میں حضرت علیؓ کے روضہ کے احاطہ میں، بتایا جاتا ہے کہ‘ حضرت آدمؑ اور حضرت نوحؑ بھی آرام فرما ہیں۔ اس کی بغل میں دنیا کے سب سے بڑے قبرستانوں میں سے ایک وادی السلام میں حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ کی بھی قبریں ہیں۔ اسی شہر میں شیعوں کے چار روحانی راہنمائوں مراجع شیعان کی قیام گاہیں ہیں۔ ان مراجع کی قیادت فی الحال آیت اللہ علی الحسینی السیستانی کے پاس ہے۔ مرجع کے ایک رکن آیت اللہ بشیرالنجفی ہیں۔ ان کی پیدائش غیر منقسم پنجاب کے شہر جالندھر میں ہوئی‘ اور تقسیم کے بعد ان کا خاندان گوجرانوالہ منتقل ہو گیا تھا۔ 60ء کی دہائی میں حصول تعلیم کیلئے نجف کا رخ کیا۔ شستہ اردو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے عراق کی تباہی کیلئے بڑی طاقتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ جب وفد کے ایک رکن نے ان سے بھارت پاکستان تعلقات کے بارے میں استفسار کیا تو بغیر لاگ لپٹ کے ‘ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے میں ہی پوشیدہ ہے، اور ان کے خیال میں کشمیریوں کو آزادی دینا ہی مسئلہ کا دیرپا حل ہے‘ جس پر بقول ان کے‘ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان رضامند بھی ہو گئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغربی میڈیا پوری دنیا کو تاثر دے رہا ہے کہ عراق میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔ نجف سے 90 کلومیڑ دور شمال میں دریائے فرات اب کربلا شہر سے کافی دور بہہ رہا ہے۔ عراقی تاریخ کی طرح اس دریا نے بھی پچھلی 15 صدیوں سے اپنا رخ تبدیل کر دیا ہے۔ کسی ترک سلطان نے بعد میں دریا کے سابق بہائو پر ایک چھوٹی سی خوبصورت نہر تعمیر کی، تاکہ کربلا کے میدان جنگ اور حضرت امام حسینؓ کے پیاسے جانبازوں کی یادیں فرات کے ساتھ وابستہ رہیں۔ عراق کا سنہری دور تاریخ کے اوارق میں گم ہو چکا ہے۔ یہ ملک اس وقت شمال میں کردوں، جنوب میں شیعوں اور وسط میں سنی قبائلیوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ جنوب مغرب کا ایک وسیع حصہ، جس میں موصل جیسا اہم شہر بھی شامل ہے، داعش کے قبضہ میں ہے۔ شہر بغداد 90ء کے اواخر کے سرینگر کی یاد دلاتا ہے۔ قدم قدم پر چیک پوسٹ، سکیورٹی بنکروں کے پیچھے سے جھانکتی عقابی آنکھیں، شناختی کارڈ اور تلاشی لیتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں نے اس عروس البلاد کو محاصرے کا شہر بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ٹریفک بری طرح جام رہتا ہے۔ دریائے دجلہ پر بنے پل کو کراس کرنا، پل صراط طے کرنے جیسا معاملہ ہے۔ جب ایک وسیع و عریض احاطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمارے مترجم نے بتایا کہ یہ صدام حسین کا محل تھا، تو ٹریفک جام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہم نے جلدی سے اس کی تصویریں لینا شروع کیں مگر چند لمحوں میں ہی موٹر سائیکل پر سوار ایک پولیس اہلکار نے ہماری گاڑی روک کر تصویروں کو حذف کرنے کا حکم صادر کر دیا، اور ہمارے ڈرائیور اور مترجم کو ہدایت دی کہ وہ ہمیں تصویریں اتارنے سے منع کر دیں۔ دریائے دجلہ کے پل پر جہاںٹریفک رکا ہوا تھا، دوسری طرف کا راستہ کلیئر کرایا گیا تھا۔ حشدالشعبی کے جانباز، ہتھیار اٹھائے، فوجی گاڑیوں میں، نعرے بلند کرتے ہوئے، سرعت کے ساتھ مخالف سمت میں رواں تھے۔ معلوم ہوا کہ میدان جنگ سے ہلاک شدگان کی لاشیں تدفین کیلئے لائی جا رہی ہیں۔ بغداد سے میدان جنگ صرف 60 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔
عراقی فوج کی پے در پے ناکامیوں اور بغداد اور شیعہ جنوبی علاقوں پر
داعش کی یلغار کے خطرے کے پیش نظر 2014ء میں آیت اللہ سیستانی نے جہاد کا فتویٰ جاری کیا تھا‘ جس کے نتیجے میں ایک سویلین رضاکار عسکری تنظیم حشدالشعبی کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدا میں اس میں صرف شیعہ نوجوانوں کو نجف اور کربلا کی حفاظت کی غرض سے بھرتی کیا گیا تھا، مگر اب یہ داعش کے خلاف ایک موثر فورس بن چکی ہے اور کئی سنی اور عیسائی قبیلوں نے بھی اس میں شمولیت کی ہے‘ مگر پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی جنگ کی طرح عراق اور شام کی جنگ بھی پُراسرار بنتی جا رہی ہے۔ کربلا میں روضہ حضرت امام حسینؓ کی بغل میں السفیر ہسپتال میں زیر علاج حشد کے ایک زخمی سپاہی عادل فوزی کا کہنا تھا کہ اس نے صلاح الدین صوبہ کے ایک فرنٹ کی نگرانی کرتے ہوئے بچشم خود امریکی جہازوں کو داعش کے علاقوں میں ہتھیار گراتے ہوئے دیکھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک جہاز پر فائر بھی کھولا۔ فوزی کی دونوں ٹانگیں ناکارہ ہو چکی ہیں‘ مگر بغداد میں حشد کے ہیڈکوارٹر میں کمانڈر کریم النوری بتا رہے ہیں کہ تقریباً 5000 امریکی اور 30 ایرانی فوجی ماہرین ان کے عسکریوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں۔ جب ہم نے ان سے فوزی کے دعویٰ کے بار ے میں استفسار کیا اور جاننا چاہا کہ کیا یہ اس طرح کا کیس نہیں ہے، جہاں امریکی ایک طرف حشد کو تربیت دے رہے ہیں، تو دوسری طرف آپ کے دشمنوں کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں، تاکہ کارزار گرم رہے؟ توکمانڈر نے خاموشی میں ہی عافیت جانی اور کہا کہ یہ سیاسی نوعیت کا سوال ہے۔ بظاہر داعش کے ساتھ جنگ میں وہی غلطیاں دہرائی جا رہی ہیں، جو جنگ افغانستان میں امریکہ اور پاکستان نے کیں۔ بجائے عراقی فوج کو مستحکم اور منظم کرنے کے افغان مجاہدین اور بعد میں طالبان کی طرز پر ایک سویلین عسکری تنظیم کو مسلح کرکے خطے میں استحکام ڈھونڈنے کے تجربے ناکام ہو چکے ہیں۔ حشد کے کئی بریگیڈ ہیں، جو مختلف سیاسی لیڈروں کے
زیراثر ہیں۔ گو کہ حشد میں کئی سنی قبائل بھی اب شامل ہیں‘ مگر بغداد کے وسط میں شیخ سید عبدالقادر گیلانی کی درگاہ کے وسیع و عریض احاطہ میں‘ جب میں نے ایک عراقی سنی آیادالسماری سے حالات کے بار ے میں پوچھا، تو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کا ملک امریکہ، روس، ایران اور سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کی برتری کی جنگ میں پس گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدام حسین نے جنوب میں شیعوں پر واقعی مظالم کئے‘ مگر چونکہ جمہوری نظام میں بندوں کو گنا جاتا ہے، عددی اعتبار سے نظام شیعوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، جس کی وجہ سے 40 فیصد سنی آبادی اپنے آپ کو بے طاقت اور بے وزن محسوس کرتی ہے۔
بغداد سے اب ہمارا قافلہ واپس کربلا آن پہنچا ہے۔ رات کی سیاہی میں آدھے چاند کی روشنی روضہ حضرت امام حسینؓ سے ٹکرا کر اور مقتل گاہ کی لال بتیاں ایک طلسمی سماں پیدا کر رہی ہیں۔ روضہ کو جانے والی گلیاں زائرین سے پُر ہیں۔ ایران، پاکستان حتی ٰ کہ کرگل کی دور دراز برف پوش بستیوں سے زائرین یہاں آ پہنچے ہیں۔ روضہ اور خیمہ گاہ کے درمیان ایک نسبتاً اونچی جگہ پر حجاب میں ملبوس خواتین نوحہ کر رہی ہیں۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں سے حضرت زینبؓ اپنے پیاروں کے سروں کو کٹتے اور ان کو نیزوں پر بلند ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ گو کہ جنگ کربلا کو 15 صدیاں بیت چکی ہیں‘ مگر امام حسینؓ کا پیغام آج بھی برمحل ہے۔ یزیدی نظام، ملوکیت، ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ، عوام کی حکومت میں حصہ داری، حکومتوں کی جوابدہی اور تنازعات کا منصفانہ حل ہی ایک مستحکم نظام اور امن کی ضمانت ہے۔ شمالی آئرلینڈ کے تصفیہ میں شامل اہم مذاکرات کار اور برطانوی گورنر لارڈ پیٹرسن نے ایک بار مجھے کہا کہ کسی بھی ملک کی محض دو فیصد آبادی بھی سلامتی اور استحکام کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے، اگر وہ اپنے آپ کو سسٹم سے باہر سمجھتی ہو‘ لہٰذا عددی جمہوریت کے بجائے انکلوسیو (inclusive) جمہوریت، جس میں ہر فرد اور ہر گروپ کی آوازاور مفادات شامل ہوں، ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے، اور نہ صرف عراق بلکہ سبھی ممالک کیلئے اکسیر اعظم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں