2008 ء کے ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث لشکر طَیبہ کے کمانڈر ذکی الرحمان لکھوی کو جب پچھلے سال اپریل میں لاہور ہائیکورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تو بھارت میں کہرام مچ گیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی یہ ایشو امریکہ کے دربار میں بھی لے گئے تاکہ پاکستان پر خاطر خواہ دبائوڈال کر ان حملوں کی پلاننگ کرنے والوںکو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ بھارت نے پچھلے سال مئی میں اقوام متحدہ کو بھی عرضداشت پیش کی، جس میں یہ شکایت کی گئی کہ لکھوی کی رہائی عالمی تنظیم کے اصولوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ مگر شاید ہی کوئی بھارتی حکومت سے بھی یہ سوال کرنے کی جسارت کرتا ہو کہ فروری2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں میں ملوث افراد کا کیس آخر کیوں طوالت کا شکار ہے؟ اس دھماکے میں 68 افراد ہلاک ہوئے، جن میں بیشتر پاکستانی تھے۔ ابھی حال ہی میں ایک تقریب میں ہریانہ کے سابق ڈائرکٹر جنرل پولیس ( لاء اینڈ آرڈر) وکاس نارائن رائے نے راقم کو بتایا کہ اس کیس کو
حتی الامکان کمزورکرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ نارائن رائے، اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کے سربراہ تھے، جس نے سمجھوتہ دھماکوںکی ابتدائی تفتیش کی تھی۔ بعد میں یہ کیس مرکزی تفتیشی بیورو اور پھر وفاقی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی ( این آئی اے) کر سپرد کیا گیا۔ رائے کے مطابق اگرچہ ابتدا میں این آئی اے نے خاصی پھرتی دکھائی مگر نریندر مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کی تفتیش سست روی کی شکار ہے۔ حال ہی میں این آئی اے نے دورکی کوڑی لاکر میڈیا کو بتایا کہ اس نے امریکی انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ انہیں لشکر طیبہ کے مبینہ فنانسر عارف کاسمانی کے متعلق معلومات فراہم کرے، جس کے سمجھوتہ بم دھماکوں میں ملو ث ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ نئی لائن یقینی طور پر ابھی تک کی تفتیش پر بھی پانی پھیرنے کی ایک کوشش ہے، جس میں ہندوانتہا پسند تنظیم ابھینو بھارت اور اس کے سرغنہ سوامی اسیمانندکو ملزم گر دانا گیا تھا۔ اگر لشکرکو پاکستانی شہریوںکو ہی مارنا تھا تواس کے لئے اس نے بھارتی سرزمیںکوکیوں منتخب کیا؟ وہ ایسی حرکت اٹاری اور لاہورکے درمیان بھی کرسکتے تھے۔ رائے کے مطابق ان کی تفتیش کے تار واضح طور پر ہندو دہشت گرد گروپوںکی دہلیز تک پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے حکومت کو واضح طور پر بتایا تھا کہ ان کی تفتیش میں بار بار ہندو قوم پرستوںکی مربی تنظیم
آرایس ایس کے ایک رکن سنیل جوشی کا نام آ رہا ہے۔ ممبئی پولیس کے سینئر افسر ہیمنت کرکرے نے بھی جو مالیگائوں اور دیگرکیسوں کی تفتیش کر رہے تھے، وزارت داخلہ کی طرف سے بلائی گئی ایک میٹنگ میں ان کی تائیدکی۔کرکرے بعد میں ممبئی حملوں میں ہلاک ہوگئے۔ رائے اس بات پر حیران تھے کہ این آئی اے کی طرف سے جب لشکر اور کالعدم تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن کا نام اچھالا گیا، توکئی بھارتی نیوزچینلز نے ان سے رابطہ کیا، مگر جب انہوں نے اس امکان کو رد کیا تو یہ حصے ان کے انٹریو سے حذف کر دیے گئے۔ یہ صحافتی بد دیانتی اور سرکارکے تابع جرنلزم کی بد ترین مثال ہے۔
اگست 2014ء میں آسیمانندکو پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ نے سمجھوتہ کیس میں ضمانت پر رہا کیا تھا اور دلیل یہ دی تھی کہ دھماکوں میں وہ براہ راست ملوث نہیں ہے۔ یہی دلیل لاہور ہائیکورٹ نے ذکی الرحمان لکھوی کی ضمانت منظورکی تھی۔ ابھی تک حکومت نے آسیمانند کی ضمانت کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیںکیا۔ آخرکیسے کرسکتی؟ ہائیکورٹ میں وکلا کے جس گروپ نے ان کی ضمانت میں کلیدی کردار ادا کیا، اس کی قیادت حکمران بی جے پی کے لیگل سیل کے سربراہ ستیہ پال جین کر رہے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ دیگر کیسوں میں ملوث ہونے کی بنا پر آسیما نند ابھی تک جیل میں ہی ہیں۔ نو سال گزرنے کے بعد بھی اس کیس کے اختتام کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ٹرائل ہی فروری 2014ء میں شروع ہوا۔کیس میں 250گواہ ہیں اورابھی تک صرف 15گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے ہیں۔ 2010ء میں آسیمانندکو گرفتار کیا گیا تھا۔ این آئی اے کی چارج شیٹ میں کئی جگہوں پر آر ایس ایس کے مقتدر لیڈر اندریش کمارکا ذکر ہے کہ وہ بھی کئی میٹنگوں میں شریک تھے، مگر ابھی تک ان سے تفتیش کرنے کی کوئی ایجنسی ہمت نہیں کر پا رہی ہے۔
اسی طرح کا ایک اورکیس 2008 ء میں مالیگائوں میں بم دھماکے کا ہے۔ اس مقدمے کے خصوصی سرکاری وکیل (Special Public Prosecutor) محترمہ روہنی سالیان نے پچھلے سال یہ سنسنی خیز انکشاف کیا تھا کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سرکاری وکیلوں پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی میں تساہل اور نرمی سے کام لیں۔ دوسری طرف سرکار، گواہوں کو منحرف کر رہی ہے تاکہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ''ہندو دہشت گرد‘‘ رہا ہوسکیں۔ ویسے اس امرکا ٹھوس اشارہ اسی وقت مل گیا تھا جب ایک سینئر وزیر نے کہا تھاکہ ''ملک میں ہندو دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔ روہنی سالیان نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر افسر نے (جو محض ایک پیغام رساں تھا) اپنے بالا افسروں کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ مقدمہ کی پیروی کے لئے پیش نہ ہوں۔ سالیان نے کہا کہ ''اس کا مقصد ( افسر کا لایا ہوا ہے پیغام) بالکل واضح ہے کہ ہم سے ہمدردانہ احکامات کی توقع نہ رکھیں‘‘۔
سالیان کے انکشافات نے کئی تشویشناک سوالات کھڑے کئے ہیں۔ اس انکشاف کے ذریعے سالیان نے''ہندو دہشت گردوں‘‘ کو بچانے کے لئے انصاف کے عمل کو سبو تاژ کرنے کے شیطانی منصوبے کو موثر طور پر اجاگر کیا۔ یہ سازش ایک ایماندار، فرض شناس اور جرأت مند افسر ہیمنت کرکرے کی وجہ سے بے نقاب ہوئی تھی، جنہیں ممبئی پر ہوئے دہشت گردی کے حملے میں راستے سے ہٹادیا گیا تھا۔ جب کرکرے نے اس سازش کو طشت ازبام کیا تو ایل کے ایڈوانی، نریندر مودی، راجناتھ سنگھ، بی جے پی کے دوسرے لیڈروں اور سنگھ پریوار نے انہیں نشانہ بناتے ہوئے ''غدار‘‘ قرار دیا تھا۔ این آئی اے کا یہ دعویٰ کہ وکیل صاحبہ ( سالیان) ٹھیک طرح سے کام نہیںکر رہی تھیں، بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کیس میں بڑی مستعدی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ شاید ان کی مستعدی سے ہی حکومت تشویش میں مبتلا ہوگئی تھی۔ یہ وہی وکیل صاحبہ ہیں جنہوں دائود گینگ کے کئی ارکان کو سزا دلانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ ابھی سالیان کے انکشافات کی باز گشت جاری تھی کہ یہ خبریں آنا شروع ہوگئیںکہ مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اجمیر درگاہ بلاسٹ کے 14گواہان منحرف ہوگئے ہیں۔ ان میں بیشتر آر ایس ایس کے لوگوں کے قریب ہیں۔ ان میںسے ایک گواہ رندھیر سنگھ نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور اسے جھاڑکھنڈ کی نئی بی جے پی حکومت میں وزیر مقررکیا گیا۔ اجمیرکیس کے سرکاری استغاثہ اشونی شرما کے مطابق 15میں سے 14گواہان اپنے ان بیانات سے منحرف ہوگئے ہیں جو انہوں نے 2010ء میں اے ٹی ایس اور میجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164کے تحت قلمبند کرائے تھے۔
گزشتہ ایک برس میں گجرات کے تقریباً وہ تمام پولیس افسر جو''انکائونٹر‘‘کے نام پر بے رحمانہ قتل کرنے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں اور بعض کو ملازمت پر بحال کردیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حکمراں جماعت کے موجودہ صدر امیت شاہ ، جن کے بارے میں سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں یہ تک لکھ دیاتھا کہ '' ریکٹ ( پیسہ اینٹھنے کا) ان سے شروع ہوتا ہے اور ان پر ختم ہوتا ہے‘‘۔ وہ بھی سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کے علاوہ دیگر انکائونٹرز میں'بری‘ کردیے گئے ہیں۔ اب سی بی آئی کا امیت شاہ کو عجیب و غریب طریقے سے بری کرنے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ بھی سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔ نامور وکیل اور سوراج ابھیان کے شریک بانی پرشانت بھوشن نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ''اس معاملے سے پتا چلتا ہے کہ این ڈی اے حکومت ہندو دہشت گردوںکو بچا رہی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی بیخ کنی کے بارے میں اس طرح کے یہ طرز عمل سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی بھارت کی بدنامی ہوگی۔ آنجہانی ہیمنت کرکرے کی تحقیقات کے نتیجے میں 11افراد گرفتار ہوئے تھے، ان میں بی جے پی لیڈر پرگیہ ٹھاکر، سوامی امرت آنند المعروف دیانند پانڈے، میجر رمیش اپادھائے اور انتہا پسند تنظیم ابھینو بھارت کے کرنل شری کانت پروہت ( جو فوج سے ہنوز تنخواہ پا رہے ہیں) شامل ہیں۔کرکرے نے جو ضخیم چارج شیٹ تیارکی تھی اس میں آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار، وشوا ہندو پریشد کے پروین توگڑیا کے علاوہ کئی اور نام شامل بتائے جاتے ہیں۔ سوامی اسیم نند نے کاروان میگزین کو دیے گئے اپنے طویل انٹرویو میں آرایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت کا بھی نام لیا تھا۔ بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کی پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کو برہمن راشٹر بنانا چاہتے ہیں اوراس میں بالا دستی اور غلبہ نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کا ہوگا، ورنہ جہاں کہیں دھماکہ ہوا فوراً کسی مسلم نام کی تنظیم کا نام اچھالا جاتا۔ میڈیا کی اس روش میںکوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت کا رویہ بھی اس معاملے میں دیانتدارانہ نہیں تھا، ورنہ سینکڑوںکی تعداد میں بے گناہ مسلمان نوجوان گرفتار نہ ہوتے، جن میں سے متعدد اپنی نوجوانی کا بیشتر حصہ جیلوں کے مصائب جھیل کرعدالتوں سے باعزت رہا ہوئے ہیں۔