"IGC" (space) message & send to 7575

کشمیر: پاکستانی حکومت اور انگلش میڈیا کے نام

کشمیر میں احتجاجی مظاہروں، شہری ہلاکتوں، کرفیو اور بندشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق آئندہ ہفتے بھارتی حکومت شورش سے نمٹنے کے سلسلے میں کئی اہم فیصلے کر سکتی ہے۔ افواہیں گرم ہیں کہ حکومت 15 اگست یعنی بھارت کے یوم آزادی اور 18 اگست کو امر ناتھ یاترا گزرنے کا انتظار کر رہی ہے۔ تب تک وہ کسی نئی الجھن میں گرفتار نہیں ہونا چاہتی۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت اس وقت دو حکمت عملیوں پر غور کر رہی ہے۔ 18 اگست تک حالات اگر اسی نہج پر رہتے ہیں تو فوج کو بیرکوں سے نکال کر دوبارہ سڑکوں پر لایا جائے گا۔ فی الحال سرینگر میں مقیم15ویں کور کے کمانڈر ایس کے دووا کشمیر کو فوج کے حوالے کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ایک تو ان کی مدتِ کار سرینگر میں ختم ہو رہی ہے اور وہ آرمی چیف بننے کی دوڑ میں بھی شامل ہیں، اس لئے فیلڈ پوسٹنگ کے آخری پڑائو میں وہ کوئی داغ لے کر ہیڈ کوارٹر نہیں جانا چاہتے، جو ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکے۔ ذرائع کے مطابق پچھلے دنوں ایک میٹنگ میں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ فلیگ مارچ یا بیرکوں کے باہر نظم و نسق کی بحالی کے لئے اگر فوج اتاری جاتی ہے تو حکومت کو اس کے سیاسی اور سفارتی نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا ہوگا، کیونکہ فوج پر پتھروں یا دیگر ذرائع سے حملوں کا جواب صرف گولی ہے، اس لیے فوج کو حالات سے نمٹنے میں پوری چھوٹ ملنی چاہیے یعنی بعد میں کوئی احتساب نہ ہو۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ سرینگر کو چھوڑ کر محدود علاقے۔۔۔۔یعنی شمالی کشمیر میں کپواڑہ اور جنوبی کشمیر کے چند علاقے فوج کے حوالے کر دیے جائیں۔ 
دوسری طرف وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صوبائی حکومت دہلی کی مرکزی حکومت اور بی جے پی کے لیڈروں کو باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ فی الوقت حریت لیڈروں سے بندشیں ہٹا کر ان کو عوام اور احتجاجی مظاہرین کے رو برو کرنے کا موقع دیا جائے۔ ا ن کا کہنا ہے کہ اگر ان لیڈروں کو محدود جلسے جلوس کی اجازت دی جاتی ہے تو کم سے کم انارکی جیسی صورت حال قابو میں آ سکتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں نظام زندگی بحال کرنے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ مگر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت دونوں حکمت عملیوں کے سلسلے میں مخمصے کا شکار ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں فوجی آپریشن، سڑکوں پر ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی تصویریں اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی وجہ سے مودی کا پچھلے دوسال میں سفارتی سطح پر تیار کیا گیا تاثر زمین بوس ہو جائے گا۔ دوسری صورت میں جس ''حریت‘‘ کی وجہ سے بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات مسترد کردیے، اب اسی سے مدد مانگنا اس کی طاقت اور حیثیت کو بے نقاب کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس ایشو کو لے کر اپوزیشن پارٹیاں خصوصاً کانگریس تو مودی کا جینا دوبھر کردیں گی اور آنے والے اہم صوبائی انتخابات میں اس کا بھر پور استعمال کریں گی۔
کشمیر میں حالات کس حد تک خراب ہوچکے ہیں، شاید ہی باہر کسی کو اس کا صحیح ادراک ہو۔ 2008ء اور 2010 ء کے برعکس موجودہ شورش نے دیہی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایسی ایسی جگہوں سے مظاہروں اور جھڑپوں کی اطلاعات آرہی ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے فوجی حصار میں تھیں۔ بتایا جاتا تھا کہ ان علاقوں میں فوج اور عوام کے درمیان تعاون مثالی ہے۔ چند روز قبل ایک صحافی دوست پرویز مجید جو کپواڑہ میں پھنسے ہوئے تھے، بڑی مشکل سے رات کو سفر کرتے ہوئے ٹیکسی لے کر سرینگر پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر علاقوں میں تھانوں سے پولیس بھاگ چکی ہے۔ کئی علاقوں میں پولیس سے ہتھیار رکھوائے جارہے ہیں۔ کپواڑہ ، سرینگر، بارہمولہ شاہراہ جو ایک طر ح سے فوج کی نقل و حمل کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے، پوری طرح نوعمر مظاہرین کے قبضے میں ہے۔ ان کے مطابق صرف سوپور کے پاس واڈورہ گائوں کے پاس پیرا ملٹری فورس سی آر ایف نے ان کی گاڑی کو روک کر تلاشی لی، باقی کئی جگہوں پر نوعمر نوجوان گاڑیوںکو روک کر سواریوں کے کارڈ چیک کرکے آگے جانے کی اجازت دے رہے تھے۔ جنوبی کشمیر کے مقابلے شمالی کشمیر میں ہلاکتیں کم ہوئی ہیں۔ پیرا ملٹری کے برعکس یہاں بیشتر علاقوں میں فوج اور بی ایس ایف تعینات ہے جس نے قدرے تحمل سے کام لیا اورکئی جگہوں پر حکمت عملی سے کام لے کر عوامی مظاہروں کو درہم برہم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ نئے نئے علاقے تشدد کی زد میں آ رہے ہیں اور اس کی لپٹیں جموں کے مسلم علاقوں تک بھی پہنچنا شروع ہوگئی ہیں۔ 
سرینگر کے ہسپتالوں میں حالات تشویش ناک ہیں۔ ترہگام، کپوارہ کا رہائشی اور تین کمسن بیٹیوں کا باپ سینکڑوں چھرے لگنے کے باعث موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ 36 سالہ غلام حسن کمہارکے جسم کے ہر حصے بشمول پیٹ، بازو، سینے پر سینکڑوں چھرے لگے ہیں۔ لگتا ہے، کسی آدم خور درندے نے اس پر حملہ کیا ہے۔ کرناگ کے فیاض احمد کے 14 سالہ بیٹے شاہد احمد ماگرے کے پیٹ میں گولی پیوست ہو کر گردے کو چھلنی کرتی ہوئی کمر سے نکل گئی۔ فیاض کے مطابق وہ گھرکے باہر اپنے چھوٹے بھائی کو تلاش کر رہا تھا کہ اس کو فورسز نے گولی کا نشانہ بنایا۔ جب اس کو ایمبولینس میں سرینگر منتقل کیا جا رہا تھا تو سی آر پی ایف کے اہلکاروں نے اننت ناگ کے پاس گاڑی سے اْتارکر اہل خانہ کو شدید زد وکوب کیا۔ اہلکاروں نے اس کے زخمی بیٹے کو بھی نہیں بخشا اور اْسے بھی شدید زدوکوب کیا، حتی کہ اسے سڑک پر گھسیٹا۔ ماگرے کے مطابق اسی دوران اہلکاروں پر پتھرائو ہوا اور وہ بھاگ گئے۔ اسی طرح ہڈیوں کے ہسپتال میں 30 کے قریب ایسے مریض ہیں جن کے جبڑے توڑ ڈالے گئے ہیں۔ باہر سے جو ڈاکٹر وہاں وارد ہوئے ان کا کہنا ہے کہ چہرے کو اس طرح تشدد کا نشانہ بنانے کے کیس وہ پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔ ان افراد کے چہروں کو اصلی حالت میں لانا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ اس ظلم پر جہاں عوامی حلقے سکیورٹی فورسز پر حدود سے تجاوز کرتے ہوئے طاقت استعمال کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں، وہاں حکومتی اور سکیورٹی ادارے اس خونریزکارروائی کے لئے ہجومی تشدد کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی قانون نہتے عوام پر گولی اور پیلٹ گن چلانے اور جبڑے توڑ ڈالنے کو حق بجانب قرار نہیں دے سکتا۔ سرینگر میں رات دس بجے ایک اے ٹی ایم گارڈ کو ڈیوٹی سے واپس آتے ہوئے ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے کی خوفناک پہلو یہ ہے کہ اس نوجوان کو پوائنٹ بلینک رینج پر پیلٹ فائر مار کر ہلاک کیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق میت کے بدن میں اڑھائی سو سے زیادہ پیلٹ پائے گئے۔
سیاحت، ہینڈی کرافٹ اور ہارٹیکلچر کشمیر کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ انہی تین وسائل سے کرنسی کی سرکولیشن رہتی ہے۔ حکومتی حلقے توقع کر رہے تھے کہ چونکہ سیاحت کا سیزن ختم ہونے کے قریب ہے اور سیب پکنے کا موسم شروع ہونے والا ہے، اس لئے حالات میں خود بخود سدھار آ جائے گا۔ سیب اتارنے کے بعد انہیں 36 گھنٹے کے اندر دہلی کی آزاد پور مارکیٹ میں پہنچانا پڑتا ہے۔ اس لئے ان کا خیال تھا کہ نقل و حمل خود بخود شروع ہو جائے گی مگر سنیچر کو فروٹ اگانے اور اس سے وابستہ کئی انجمنوں نے حریت لیڈروں سے اپیل کی کہ وہ ان کے کار و بار کی پروا کئے بغیر اپنے پروگرام میں لچک نہ لائیں۔اس صورت حال نے سبھی کو انگشت بدندان کردیا۔ 60 سے 70 لاکھ کی پوری آبادی ''آر یا پار‘‘ کے مصداق سب کچھ دائو پر لگانے کو تیار ہے۔
شاید یہ پاکستان اور حریت کے لئے بھی ایک نادر موقع ہے کہ اپنی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرکے اس کو موجودہ تقاضوں کی روشنی میں قابل عمل اور جاندار بنائیں۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران ان کے ہم منصب چودھری نثار علی خان کے موقف کی ستائش ہو رہی ہے، مگر کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ بجائے حافظ سعید اور صلاح الدین کے، سول سوسائٹی سے وابستہ افراد یعنی ارکان پارلیمنٹ اور بزنس سے وابستہ افراد کا گروپ راج ناتھ سنگھ سے ملنے کی کوشش کرتا اور ان کو باور کراتا کہ کشمیر پر سیاسی عمل شروع کروانا ناگزیر بنتا جا رہا ہے۔ یہ گروپ ان سے ہلاکتیں رکوانے کی بھی اپیل کرتا۔ حافظ سعید اور صلاح الدین کا کام سڑکوں پر اتر کر مظاہرے کرنا نہیں ہے، ان کا میدان عمل دوسرا ہے۔ ان کی اس طرح کی حرکات سے حالات اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ اگر اس طرح کے مظاہرے کا اہتمام کرنا ہی تھا توپاکستان میں موجود کشمیری ریفوجی سڑکوں پر آسکتے تھے۔ 
ایک بار پھر پاکستان کی سول سوسائٹی سے گزارش ہے کہ وہ میدان انتہا پسندوں کے لئے کھلا نہ چھوڑیں۔ جو غلطی جنگ آزادی افغانستان کے وقت وہ کر چکے ہیں اس کو نہ دہرائیں۔کشمیری قو م پر ظلم رکوانے اور سیاسی عمل کو پٹڑی پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان کی سول سوسائٹی اور اس کے میڈیا سے وابستہ مقتدر شخصیات کی بے باکی اور بہادری پر ہم یہاں ہمیشہ فخر محسوس کرتے آ ئے ہیں۔ پاکستان کی سول سوسائٹی کی خاموشی سے حالات کی لگام ایک بار پھر انہی عناصر کے ہاتھوں میں آ جائے گی جو کشمیر میں ظلم و بربریت کے لئے بھارت کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ دوسری طرف احساس ہزیمت، انتشار اور مایوسی کا دور پورے خطے کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے، جس کی لپیٹ میں ہم سب آسکتے ہیں۔ پاکستان کے انگریزی میڈیا میں چند ایک کو چھوڑ کر کئی لکھاری بھی تاریخ اور حالات سے نابلد زخموں پر نمک پاشی کا کام کر رہے ہیں۔ کشمیر کے ایک معروف معالج ڈاکٹر مفتی الطاف نے حال ہی میں ایکسپریس ٹریبیون میں عائشہ صدیقہ کے مضمون کے جواب میں سبھی لکھاریوں سے گزارش کی ہے کہ کشمیرکا مسئلہ 9/11 کی پیداوار نہیں ہے، یہ تو فلسطین سے بھی پرانا قضیہ ہے۔ کشمیریوں نے صرف جمہوری عمل کی ناکامی کی وجہ سے بحالت مجبوری بندوق اٹھائی اور اب نہتے ہاتھوں سے اپنے حقوق کی جد وجہد کر رہے ہیں۔ براہ کرم اس کو عالمی دہشت گردی سے مت جوڑیں۔ بھارت نے یہاں جرائم کے ایسے ریکارڈ قائم کئے ہیں جو منظر عام پر آنے کے لئے کسی بھی لکھاری اور مصنف کے منتظر ہیں۔ سرینگر کے ہسپتالوں میں پچھلے 30 برسوں سے ایسی فائلیں ریکارڈ میں ہیں جن کو پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ شاید کہ اتر جائے تر ے دل میں مر ی بات!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں