"IGC" (space) message & send to 7575

مقبوضہ کشمیر: حالات کی سنگینی اور بھارتی عزائم

کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے پچھلے دنوں بھارتی حکومت کے سینئروزیروں نے چنیدہ صحافیوں اور ایڈیٹروںکو بریفنگ دی۔ امید تھی کہ حکومت کسی اہم پیش رفت سے آگاہ کرے گی۔ ایک وزیر کے بقول اس میٹنگ کا مقصد ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرونک میڈیا کو کشمیر میں حالات کی حساسیت سے آگاہ کرنا تھا، مگر اس بریفنگ کے بعد یہ تاثر ملا کہ خود حکومتی ارکان حالات کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ وہ اب بھی انکارکے موڈ ہیں ہیں۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ پچھلے دوماہ میں ان کے چار دوروں اورکل جماعتی وفدکے دورۂِ سرینگرکے دوران کشمیر میں پائے جانے والے اس تاثرکو بار بار نوٹ کیا گیاکہ بھارتی میڈیا نے کشمیری عوام کے خلاف جنگ کا بگل بجا دیا ہے۔ حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی وزیر داخلہ اور مذکورہ وفدکو بتایا کہ چند نیوزچینلوں کے رویے کی وجہ سے حالات بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہوتے جا رہے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ پورا ملک کشمیریوں کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ ابتدا میں ہی میڈیا سے اپیل کی گئی تھی کہ کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور بقول ان کے عوام کو علیحدگی پسند قیادت کے کنٹرول اور پاکستان کے پروپیگنڈا سے آزاد کرانا ہے۔اس کے باوجود جس طرح کے مفروضوں پر مبنی صورتحال کی وضاحت کی گئی وہ مفاہمتی اپروچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی، اس سے کسی ڈرامائی تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہوگا۔
پوری بریفنگ کا ماحصل یہ تھا کہ حریت کانفرنس کے رہنما اپنی شناخت اور عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں۔ دوسری طرف ان پر غصہ بھی تھا کہ انہوں نے کل جماعتی وفد کے ارکان سے ملنے سے انکار کرکے پوری بھارتی پارلیمنٹ کو بے وقار کردیا، جس کا انہیں حساب دینا پڑے گا۔ اگر یہ رہنما واقعتاً بے وقعت ہوچکے ہیں تو ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ایک لمبی تمہید کے بعد ایک سینئر وزیر نے جوکشمیر پر حرف آخر سمجھے جاتے ہیں، 2010ء اور2016ء کی عوامی تحریک کا موازنہ کرتے ہوئے دلیل دی کہ 2010ء میں ایجی ٹیشن کلی طور پر سیاسی اور مقامی نوعیت کی تھی اور اس کا محور انصاف کا حصول اور فرضی انکائونٹر بندکروانا تھا 
جبکہ 2016ء کے احتجاج میں مذہبی عنصر داخل ہوگیا ہے اور وہی اس کو گائیڈ کر رہا ہے۔ وزیر موصوف کے بقول کشمیرکا روایتی اسلام خطرے میں ہے، وہاں وہابیت اور سلفیت وغیرہ نے جڑیں گاڑ لی ہیں جس کا تدارک ضروری ہے کیونکہ موجودہ تحریک کو یہی نظریہ لیڈ کر رہا ہے۔ میں نے یاد دلانے کی کوشش کی کہ کشمیر کے تحریکوں میں مذہب کا عنصر ہمیشہ اس لئے بھی رہا ہے کہ کسی سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی میں مسجدیں اور خانقاہیں ہی اظہار کا ذریعہ رہی ہیں، یہاں تک کہ شیخ محمد عبد اللہ کو بھی سیاسی ضرورت کے تحت حضرت بل کی درگاہ کو استعمال کرنا پڑا۔ مگر وزیر صاحب نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی ہوشربا تحقیق پر مبنی بریفنگ جاری رکھی۔ ان کا واحد مقصد یہی لگ رہا تھا کہ ہر محاذ پر ناکامی کے بعد بھارتی حکومت کشمیر میں وہابیت کا ہوّا کھڑا کرکے عالمی برادری کے سامنے موجودہ تحریک کو عالمی جہاد کا حصہ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کیلئے کشمیر میں داعش کا بھوت لانے کی بھی کوششیں ہو رہی ہیں تاکہ اس تحریک کو عالمی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال کر سختی سے کچل دیا جائے۔ پوچھا جائے کہ اگر وہابیت اتنی ہی خطرناک ہے تو اکتوبر 2003ء میں آخر کس نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سرینگر آنے کی ترغیب دی، آخر وہ کیسے گورنر اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے چہیتے ایس کے سنہا کے راج بھون میں مہمان بنے تھے؟ 
عرصہ دراز سے تحریک آزادی کے خلاف نظریاتی مورچہ بندی کیلئے ایجنسیاں دیوبند اور دیگر اداروں سے وابستہ علماکی کشمیر میں مہمان نوازی کرتی آئی ہیں۔ آج کل اردواخبار کے ایک مدیر نے اس کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ اس حربے کی بنیاد یہ ہے کہ جماعت اسلامی،کشمیر میں جاری تحریک کوکیڈر اور لیڈر شپ فراہم کرتی ہے، لہٰذا اس کے توڑکیلئے اس سے ملتے جلتے نظریہ کے حامل علما کو استعمال کیا جائے۔ مگر تھوڑی سی تحقیق ہی واضح کرتی ہے کہ 1990ء کے اوائل میں نیشنل کانفرنس کے لیڈروںکی نقل مکانی اور دیگر لیڈروں کی اجتماعی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی واحد ریاست گیر سیاسی جماعت میدان میں موجود تھی، جس نے خاصے لیت و لعل کے بعد سول سوسائٹی اور دیگر افراد کے اصرار پر عسکری تحریک کو کنٹرول کرنے اور ایک انٹرفیس بننے پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کا خمیازہ بعد میں ان کو 600 ارکان کے قتل کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ کشمیرکی سبھی دینی و سیاسی جماعتوں نے اس تحریک میں بھر پور شرکت کی جن میں جمعیت اہلحدیث، بریلوی مکتب کی کاروان اسلام، امت اسلامی، شیعہ تنظیمیں، مقامی فکرکی نمائندگی کرنے والی انجمن تبلیغ الاسلام، سیکولر تنظیموں جیسے لبریشن فرنٹ اور پیپلزکانفرنس سمیت سبھی نے بھر پور حصہ لیا۔ حتّی کہ جو لوگ انتخابات میںکانگریس، نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کو ووٹ دینے کیلئے قطاروں میں کھڑ ے نظر آتے ہیں، ایجی ٹیشن میں پیش پیش رہتے ہیں۔ حال ہی میں شوپیاں میں پولیس نے سنگ باری کے الزام میں جب چند نوجوانوں کو گرفتارکیا تو معلوم ہواکہ پچھلے اسمبلی انتخابات کے دورران وہ بی جے پی کے مقامی امیدوارکیلئے مہم چلا رہے تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ حریت کوئی باضابط تنظیم یاکیڈر پر مبنی نیٹ ورک نہیں بلکہ اس کے لیڈرکشمیریوں کے جذبہ آزادی کے نگران اور ترجمان ہیں۔ جس دن بھی ان میں سے کسی نے اس سے الگ ہونے کی کوشش کی اس کی لیڈری بکھر جائے گی۔ جذبہ آزادی پارٹی وفادریوں اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہے۔ 
قصہ مختصر، پوری بریفنگ کا ماحصل یہ تھا کہ حکومت کی طرف سے کوئی آئوٹ ریچ نہیں ہوگا۔ حالات کو بہتر بنانے اور ہلاکتیں روکنے کی ذمہ داری حریت اور عوام پر ڈالی گئی۔ بتایا گیاکہ سیکورٹی فورسز تو صرف شکار ہوتے ہیں اور صرف اپنے بچائو کے لئے پیلٹ یا دیگر ہتھیاراستعمال کرتے ہیں۔ بتایا گیا کہ کسی بھی ایجی ٹیشن کی تاریخ میں پہلی بار تقریباً6000 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔ وزیر صاحب نے میڈیا سے شکایت کی کہ وہ صرف کشمیری نوجوانوں کے زخم دکھاتے ہیں، ان کو مظلوم ظاہر کرتے ہیں؛کیا سکیورٹی فورسزکے افراد ہمدردی کے مستحق نہیں؟ میں نے جسارت کرتے ہوئے پوچھا کہ ان ہزاروں سکیورٹی اہلکا روںکا علاج کس اسپتال میں ہو رہا ہے؟ سرینگر کے دو بڑے اسپتالوں میں تو وہ موجود نہیں اور آرمی کے 92 بیس اسپتالوں میں اتنی گنجائش نہیں تو وزیر صاحب بغلیں جھانکنے لگے۔ ایک وزیر کو یہ شکایت تھی کہ میڈیا آخرکشمیر لفظ کے بجائے جموں وکشمیرکیوں نہیں لکھتا یا بولتا؟ ان کا کہنا تھا کہ ایجی ٹیشن توایک چھوٹے علاقے تک محدود ہے مگر میڈیا جموں اور لداخ جیسے پر امن علاقوںکو نظر انداز کرکے اس کا دائرہ پوری ریاست تک ہونے کا تاثر دیتا ہے۔ 
2008ء اور پھر 2010ء میں بھی صورت ِ حال کو لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ڈھالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مجھے یاد ہے2010ء کے احتجاج کے بعد حالات کے جائزے کے لئے آنے والے کل جماعتی وفدکے سامنے ایک پلان کے تحت ایسے افرادکو لایا گیا جنہوں نے بھانت بھانت کی بولیاں بولیں۔ ان میں لسانی گروہوں، علاقائی نظریات کی حامل تنظیموں، سخت گیر ہندو نظریات رکھنے اور ریاست کو اس بنیاد پر تقسیم کرنے کے خواہاں عناصر بھی موجود تھے۔ اس سعی کا مقصد مسئلہ کشمیر اور احتجاجی تحریک کوغلط رنگ دینا تھا تاکہ یہ باورکرایا جائے کہ آزادی پسندوںکا گروپ انتہائی چھوٹے حصہ تک محدود ہے،دیگر خطوںکے معاملات الگ ہیں۔
یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جموں میں اس کا کوئی اثر نہیں اور وہاں کی اکثریت احتجاج میں شامل نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایک مثال گزشتہ دنوں اْس وقت سامنے آئی جب بی جے پی کے سابق وزیرنے پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ جموں سے اس تحریک سے کچھ لینا دینا نہیں، لہٰذا اسے علیحدہ یاست بنا دیا جائے۔ انہوں نے جموںکا جو نقشہ کھنچا اس میں پیر پنچال، چناب خطوں سمیت جموںکی پنجاب سے ملحقہ سرحد تک کے علاقے شامل ہیں۔ تاہم اس کے بعد حال ہی میں جموں میں منعقد ہونے والے اہم اجلاس نے سب کو چونکا دیا جس میں پیر پنچال اورچناب خطوںکے سر برآوردہ افراد، ماہرین ِ قانون،مختلف جماعتوں سے وابستہ اپنی پہچان رکھنے والے سیاست دان، سابق اراکان اسمبلی، اسکالرز، علما اور سول سوسائٹی کے افراد نے گریٹر پیر پنچال کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیتے ہوئے علی الاعلان کہہ دیا کہ پیر پنچا ل اور چناب خطہ جموں کا ناقابلِ تنسیخ حصہ نہیں اور نہ ہی جموں کے نام پر انہیں سیاسی استحصال کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ ان دونوں خطوںکی اکثریت کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ دونوں خطوں کی اکثریت کشمیر کے ساتھ دینی، ثقافتی، لسانی اور جغرافیائی رشتوں میں پروئی ہوئی ہے، لہٰذا عوام کو تقسیم کرکے مسئلہ کشمیر اور جاری حالات سے توجہ ہٹا کر اسے علاقائی، جغرافیائی اور اقتصادی مسئلے کے طور پر پیش کرناخطرناک ہے۔
حالات کی سنگینی کے عدم احساس اور اس طرح کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہی کشمیر میں حالات اس حد کو جا پہنچے ہیں۔کشمیر کے اخبار کشمیر عظمی نے حال ہی میں اپنے اداریے میں تحریر کیا کہ جب تک دہلی سے سرینگر تک ارباب اقتدارکشمیرکے سیاسی و آئینی پہلوئوں سے صرف نظرکرتے رہیںگے ، تب تک یہ آتش فشاں لاوا اْگلتا رہے گا۔ دلّی کو اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ کشمیر سیاسی مسئلے کے علاوہ غصب شدہ حقوق کی بازیابی کا بھی معاملہ ہے۔ امن اور قانون کے نام پر ایجی ٹیشن کو وقتی طور پر ٹھنڈا تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے مسئلہ ختم نہیںہوسکتا اور جب بھی کوئی انہونی ہوگی تو اصل مسئلہ پھر سامنے آتا رہے گا۔ وقت نے بارہا ثابت کردیا کہ پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں کا سہارا لے کرکشمیر میں جذبہ حریت کو دبایا نہیں جا سکا۔ وقت نے نریندر مودی حکومت کوسنہری موقع فراہم کیا ہے، وہ اسے ہاتھ سے نہ جانے دے بلکہ دستیاب وسائل کو بروئے کار لاکر اس مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی سعی کرے تبھی اس کا حل ممکن ہوگا ورنہ یہ پوری آب وتاب کے ساتھ موجود رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں