"IGC" (space) message & send to 7575

تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

بھارت میں نریندر مودی حکومت نے بالآخر مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ان کی تنظیم اسلامک ریسرچ فاونڈیشن پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں معاونت اور فرقہ وارانہ منافرت کا الزام لگاکر پانچ سال تک پابندی لگا دی۔ ڈاکٹر نائک کے طریقہ کار اور ان کے چند نظریات سے لاکھ اختلافات سہی، حکومت کا یہ قدم مسلم قیادت اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے سرگرم تنظیموں کیلئے ایک انتباہ ہے ، کہ آپ کا مسلک کوئی بھی ہو، اگر آپ نئی نسل کو اسلام کی روح کے ساتھ روشناس کراتے ہیں یا غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دیتے ہیں، تو اگلا نشانہ آپ ہیں۔مگر واہ رے چند کلمہ گو حضرات نے، جن میں کچھ کلیدی اردو اخبارات کے مدیران بھی شامل ہیں، نے بس مسلکی عناد کا حساب بے باق کرنے کیلئے اس 50سالہ میڈیکل ڈاکٹر کو القاعدہ اور داعش کا حامی بتاکر ، حکومتی عتاب کا آلہ کار بن کر نہ صرف اس کو کٹہرے میںلا کھڑا کیا، بلکہ آئندہ اپنے لئے بھی ایسی ہی کاروائی کا جواز پیدا کیا۔9/11 کے واقعہ کی آڑ میں 2001ء میں جب اسی طرح سٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا (سیمی) کو نشانہ بناکر پابندی لگائی گئی تومسلم قیادت کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ مجھے بھی اندیشہ تھاکہ سیمی کے کچھ جوشیلے نوجوان ضرور انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہوں گے اور حکومت کے بیانات میں کہیں نہ کہیں کوئی صداقت تو موجود ہوگی۔مگر چند سال قبل جب میں نے مسلسل دہلی میں عدالتی ٹریبونل میں سیمی کی پابندی سے متعلق کاروائی کور کی، تو ایسے ہوشربا انکشافات ہوئے، جن کی ر و سے کوئی بھی اردو سے شد بد رکھنے والا شخص دہشت گردی کے زمرے میں آسکتا ہے۔دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی کے شالی کی صدارت والا یہ ٹریبونل سیمی پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کے جواز پر ساتویں مرتبہ سماعت کررہا تھا۔
حکومت کی طرف سے دائر کردہ ایک حلف نامے میں حتیٰ کہ مدھیہ پردیش میںنوجوانوں میں سپورٹس کو فروغ دینے کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم 'کروائی سپورٹس ویلفیئر اکیڈمی ‘ کو بھی سیمی کی محاذی تنظیم قرار دے دیا گیا تھا۔ حکومت نے سیمی پر پابندی برقرار 
رکھنے کے لئے اپنے جواز میں اس حلف نامے میں یہ بھی بتایا تھا کہ اس ممنوعہ تنظیم نے مین اسٹریم سیاسی جماعتوںاور دیگر مسلم تنظیموں میں بھی رسائی حاصل کرلی ہے تاکہ اس کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے رائے عامہ تیار کرکے حکومت پر اس کے لئے دباو ڈالا جاسکے۔ اس حلف نامے میں حکومت نے عدالتی ٹریبونل کو بتایا کہ سیمی اپنے لٹریچر اور دیگر ذرائع کے ذریعہ اسلام کے نظام خلافت کی تشہیر کررہی ہے اور اسے ملک میں نافذ کرنے کی خواہش مند ہے۔ یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ یہ تنظیم مسلم نوجوانوں کو اسلام پر مکمل عمل کرنے اور غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دینے پر بھی زور دیتی ہے۔حلف نامے میں اس سلسلے میں ایک کتاب کا بھی ذکر کیا گیا ہے، اس کتاب کا نام 'خلافت تمام مسائل کا واحد حل ‘ ہے۔ حلف نامہ کے مطابق اس کتاب کو مہاراشٹر سے اس وقت ضبط کیا گیا جب سیمی کے کارکنان اسے مسلمانوں میں تقسیم کررہے تھے۔اسلام کے نظریہ خلافت یا سیمی جس نظریہ خلافت کو پیش کرتی ہے اس سے اختلافات کی گنجائش تو موجود ہے لیکن مہاتما گاندھی نے تو غیر منقسم ہندوستان میں خود تحریک خلافت کی پیشوائی کی تھی اور اکثر اپنے خطوط میں کانگریسی راہنماوٰں کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی تقلید کا مشورہ دے چکے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ اس حلف نامے میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے فروغ کو بھی انتہاپسندی قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی۔
ایک روز تو حد ہوگئی، جب کارروائی کے دوران مہاراشٹر کے شولا پور میں وجے پور ناکہ کے انسپکٹر شیواجی تامبرے نے ایک حلف نامہ داخل کیا ،جس میںبتایا گیا کہ سیمی کے کچھ مبینہ کارکنوں کے گھروں پر جب انہوں نے چھاپے مارے ، تو وہاں سے اردو میں لال روشنائی سے تحریر کردہ ایک ڈاکومنٹ ملی جس پرایک شعر درج تھا۔موج خون سر سے گذر ہی کیوں نہ جائے۔آستا ن یا ر سے اٹھ جائیں کیا‘‘۔ غالب کے اس شعر کا انسپکٹر تامبرے نے مراٹھی ترجمہ کچھ یو ں کیا تھا''رکتچی لات دوکیا پسن کا جینا‘ متراچیہ امبراتھیاپسون اتھن کا جینا‘ اس مراٹھی ترجمے میں تامبرے کیا کہنا چاہتے ہیں یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن انسپکٹر تامبرے نے گواہی دیتے ہوئے کہا، کہ یہ شعر ہندوئوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کردیتا ہے۔ بہر حال بات غالب کے اسی شعر تک ہی محدود نہیں تھی۔ مہاراشٹر پولیس نے کم و بیش ایسے دس حلف نامے جمع کرائے تھے جن میںیہ الزام لگایا گیا تھا کہ سیمی مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کررہی ہے۔ مہاراشٹر اور مراٹھی قوم پرستی کا ٹھیکہ تو اب تک صرف شیو سینا اور مہاراشٹر نو نرمان سینا نے ہی لیا ہوا تھا لیکن پولیس کے انکشافات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیمی ان دونوں سے بھی آگے جاکر مہاراشٹر کو ایک الگ ملک ہی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ان حلف ناموں پرایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی ایسا لگتا تھا کہ کسی نے اوپر سے تمام تھانوں کو ایک مسودہ بناکر بھیج دیا ہے جسے وہ شواہد کے فقدان میں اپنے حلف نامے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز حیدرآبادکے سعیدآباد تھانے کے انسپکٹر پی دیویندر کا حلف نامہ تھا ۔ جن کا اصرار ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سیمی کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔ دیویندر کا کہنا ہے کہ سیمی اتنی خطرناک تنظیم ہے کہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیںبھی اسی کے تحت کام کرتی ہیں ۔ جب عدالت میں وکیل دفاع نے ان سے پوچھا کہ آئی ایس آئی سے ان کی کیا مرادہے تو انہوں نے سینہ ٹھونک کر کہا کہ'' میں اپنے اس بیان پر قائم ہوں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دراصل سیمی کے اشاروں پر ہی کام کرتی ہے۔‘‘سیمی کے خلاف پابندی کو برقراررکھنے کے حق میں پولیس نے جو حلف نامے داخل کئے ہیں ان میں سے چند ایک آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ 
1۔ گھاٹ کوپر تھانہ ممبئی کے اس وقت کے تفتیشی افسر ادے سنگھ راٹھورنے اپنے حلف نامے میں لکھا کہ سیمی کے مبینہ کارکن شبیر احمد مسیح اللہ (مالیگاوں) اورنفیس احمد انصاری (ممبئی) واضح طور مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش میں ملوث پائے گئے ہیں۔جو ملک کی سالمیت کے لئے خطرناک ہے۔وہ ملک کے خلاف منافرت پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انسپکٹر راٹھور کے مطابق ان لوگوں کی یہ تمام سرگرمیاں غیر قانونی سرگرمیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔حالانکہ ان افراد کے پاس سے نہ تو کوئی ہتھیار اور نہ ہی کوئی بم یا دھماکہ خیز مادہ برآمد ہوا تھا ۔ انسپکٹر کے مطابق ان لوگوں کے پاس سے جو قابل اعتراض مواد برآمد ہوا تھا وہ سرورق کے بغیر اردو کا ایک رسالہ ہے۔آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ یہ رسالہ سیمی کا ترجمان''اسلامک موومنٹ‘‘ یا کسی دوسرے انتہاپسند تنظیم کا رسالہ نہیں ہے بلکہ دہلی کی سرکاری اردو اکادمی کا'' ماہنامہ امنگ‘‘ ہے ۔ جسے اکادمی بچوں کے لئے شائع کرتی ہے۔جب راٹھور سے جرح کی گئی تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اس رسالہ میں بچوں کے لئے مضامین اور کہانیاں ہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ ایسے ہی رسائل کے ذریعہ انتہاپسند اپنے خیالات ‘ افکار و نظریات دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ بناتے ہیں۔2۔ ناگپور کے انسپکٹر پرکاش ہنگ میرے ‘جنہوں نے 2006ء میں سیمی کے خلاف چھ معاملات کی تفتیش کی‘ فرماتے ہیں کہ یہ تنظیم مہاراشٹر کو بھارت سے الگ کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔انہوں نے ٹریبونل کے سامنے یہ دلیل بھی دی کہ 
پابندی کے باوجود سیمی ملک دشمن کارروائیوں میں مصروف ہے۔3۔اسی طرح ایک اور حلف نامے میں کھنڈالہ پولیس ٹریننگ اسکول کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ وشنو بابو راو جگ تاپ‘ کہتے ہیںکہ جب وہ شولا پور کے صدر بازار تھانے میں انسپکٹر تھے تو انہوں نے عبدالرحمان علی کلیانی کے معاملے کی تفتیش کی تھی ۔ وہ کہتے ہیں '' میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ مذکورہ ملزم کی سرگرمیاں مہاراشٹر کوملک سے الگ کرنے کی سازش تھی‘‘۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سیمی کا حتمی مقصد ملک میں اسلامی تعلیم کو پھیلانا ہے۔ جس کے لئے وہ نفاق ‘ سریہ اور جہاد کا سہار ا لے رہے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ' سریہ‘ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا کیا مطلب ہے تو جگ تاپ نے کہا کہ سریہ اردو یا فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب لوگوں سے غیر قانونی طور پر پیسے اینٹھنا ہے۔ ماہرین اردو اور دیگر اداروں کو اردو میں ایک نئے لفظ کے اضافہ کے لئے ڈی ایس پی جگتا پ کی عزت افزائی کرنے پر سنجیدگی سے غور یا اپنی کم علمی پر ماتم کرنا چاہئے۔سیمی پر پابندی جاری رکھنے کے حق میں پولیس جو دلائل دیتی رہی ہے اس میں قابل اعتراض مواد کے طور پر سیمی کے خبر نامے اور اس کے میگزین کا ذکر نمایاں نظر آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند کے سہ روزہ اخبار'' دعوت ‘‘کے بعض تراشوں کو بھی سیمی کے خلاف پابندی کے حق میں دلائل کے طور پر پیش کیا گیا ۔ قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور معروف بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ نے راقم کو بتایا کہ ان کے علم میں یہ بات ہے کہ کم از کم 53 مسلم نوجوانوں سے زبردستی اقبال جرم کرایا گیا اور وہ ایسے ہی الزامات میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہیں۔سیمی پر عائد پابندی ، حکومتی دلائل اور اب ڈاکٹر ذاکر نائک کو عتاب کا نشانہ بنانا، مسلم قائدین کی آنکھیں اور ذہن کے دریچے کھولنے کیلئے کافی ہونا چاہئے، ورنہ وہ دن دور نہیں ، جب یہ عتاب ان کے دریچے پر پہنچے گا اور ان کو بچانے اور ان کی حمایت میں کھڑا ہونے کیلئے تب تک کوئی نہیں بچا ہوگا۔ سنبھل جا، تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں