"IGC" (space) message & send to 7575

بھارت میں تامل سیاست دو راہے پر

بھارت کے خفیہ اداروں کی فہرست میں جموں و کشمیر کو حساس ترین خطہ کا درجہ حاصل ہے جبکہ جنوبی ریاست تامل ناڈو دوسرے نمبر پر ہے۔ دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ ان کی داخلی سیاست میں بیرونی عوامل کار فرما رہتے ہیں اور ان میں دہلی سے بیزاری اور علیحدگی پسندی کے رجحانات بھی نمایاں ہیں۔ اس لئے تامل ناڈوکی وزیر اعلیٰ جے جیہ للتا کی موت نہ صرف صوبہ بلکہ بھارت کی قومی سیاست پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اس صوبے کی سیاست کا سری لنکا کے تامل مسئلہ سے بھی براہ راست تعلق ہے۔ سری لنکا کی تامل اقلیت دراصل تامل ناڈو سے ہی ترک سکونت کرکے وہاں آباد ہوئی تھی۔ 
کانگریس پارٹی کے عہدیدار نے راقم کو بتایا تھا کہ 1984ء میں اگر وزیر اعظم اندرا گاندھی کو سکھ باڈی گارڈ ہلاک نہ کرتے تو بنگلہ دیش کی طرز پر سری لنکا کے شمالی علاقہ جافنا پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت وجود میں آگئی ہوتی۔ ان کے مطابق مسزگاندھی نے سری لنکا کو1971ء کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کرنے پر کبھی معاف نہیں کیا۔ سر ی لنکا نے پاکستانی فضائیہ اور ڈھاکہ جانے والے سویلین جہازوں کے لئے کولمبو میں ایندھن بھرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوراً بعد آنجہانی مسزگاندھی اور ان کے رفقا نے تامل علیحدگی تحریک کا رخ سری لنکا کی طرف موڑتے ہوئے تامل ناڈوکو مستقر بنا کر تامل انتہا پسندوںکوگوریلا جنگ کے لئے تیارکرنا شروع کردیا تھا۔ اسی صوبے میں 1925ء میں سب سے پہلے برہمن ازم کے خلاف ای وی راما سوامی المعروف پیر یار نے مہم شروع کی تھی۔ دراصل تامل اکثریت دراوڑ نسل سے تعلق رکھتی ہے اور یہ اپنے آپ کو جنوبی ایشیا کے اصل قدیم باشندے تصور کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وسطی ایشیا اور دیگر علاقوں سے آنے والے آریہ نسل اور دیگر قوموں کے لوگوں نے ان کو دھکیل کر جنوبی بھارت میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ اس لئے دراوڑوں کا ہندو ازم بالخصوص اعلیٰ ذاتوں (برہمن وغیرہ)کے ساتھ معاندانہ رشتہ رہا ہے۔ برہمن اپنے آپ کو فخریہ آریوں کا وارث جتاتے ہیں۔ اس صوبے کی دو بڑی سیاسی جماعتیں دراوڑ منترا کھازگھم (ڈی ایم کے) اور آل انڈیا انا دراوڑ منترا کھازگھم (اے آئی اے ڈی ایم کے) اسی برہمن مخالف مہم کی پیداوار ہیں۔ صوبے میں برہمنوں کے دو فرقے ایر اور آئینگر ہیں۔ پریار کے مطابق دونوں نے دراوڑں کا استحصال کیا۔ 1965ء میں اس صوبے میں ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے خلاف فسادات شروع ہوئے جو اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی اس یقین دہانی کے بعد قابو میں آئے کہ انگریزی ہی رابطہ کی زبان برقرار رہے گی اور ہندی کو غیر ہندی صوبوں پر تھوپا نہیں جائے گا۔ آج بھی صوبائی دارالحکومت چینئی میں افسروںکو ہدایت ہے کہ مرکز سے اگر کوئی سرکلر یا حکم نامہ ہندی میں آئے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے یا اس کا جواب صرف تامل میںدیا جائے۔ اس ہندی مخالف ایجی ٹیشن نے ریاست سے واحد قومی پارٹی کانگریس کا بستر گول کردیا اور تب سے ہی وہاں ڈی ایم کے یا اے آئی اے ڈی ایم کے باری باری اقتدار کے مزے لوٹتی ہیں۔ 
اقتصادی لحاظ سے تامل ناڈو بھارت کے ترقی یافتہ صوبوں میں شامل ہے اور سیاسی لحاظ سے بھی اس لئے اہم ہے کہ وہاں سے لوک سبھا کی 39 نشستیں ہیں، جو مرکز میں مخلوط حکومتوں کی وجہ سے خاصی اہم ہو جاتی ہیں۔ من موہن سنگھ کی سابق کانگریسی حکومت ڈی ایم کے کی بیساکھیوں پر ٹکی تھی، اسی وجہ سے ان کو تامل پارٹیوں کے وزیروں کی بد عنوانیوں اور سکینڈلوںکو نظر اندازکرنا پڑا تھا۔ اس وقت جیہ جے للتا کی پارٹی اے آئی انا ڈی ایم کے، لوک سبھا کی37 نشستوں پر قابض ہے۔ اس طرح یہ بی جے پی اور کانگریس کے بعد پارلیمنٹ میں تیسری بڑی پارٹی ہے۔ ایوان بالا میں جہاں وزیر اعظم مودی کی حکومت اقلیت میں ہے، کو آئے دن قانون سازی کے لئے ان کی مدد درکار رہتی ہے۔ 
جیہ للتا نے اپنا کیریئر اپنے مرشد ایم جی راما چندرن کی طرح فلموں سے شروع کیا۔ راما چندرن نے فلموں سے رجوع کرکے سیاست میں قسمت آزمائی کرنے کے لئے ڈی ایم کے جوائن کی تھی ، مگر بعد میں اس سے الگ ہوکر اے آئی انا ڈی ایم کے کی بنیاد ڈالی۔ 1987ء میں ان کے انتقال کے بعد جیہ للتا نے ان کی اہلیہ جانکی راماچندرن کو خاصی طویل اور پیچیدہ جد وجہد کے بعد شکست دے کر ایم جی آر کی میراث پر قبضہ کرکے پارٹی پر کنٹرول حاصل کیا۔ 68 سالہ جیہ للتا ایک پر اسرار شخصیت تھی۔ ان تک رسائی حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ وہ اپنی پارٹی کے لیڈروں سے بھی ایک طرح کی دوری بنائے رکھتی تھی، مگر ان کی کارکردگی پر ہمیشہ ان کی نظریں رہتیں۔ کئی بار پارلیمان کی کارروائی کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ اے آئی ڈی ایم کے سے وابستہ اراکین کسی ایشو کو زور شور سے اٹھاتے یا سوالات کے وقفہ کے دوران ضمنی سوالات کی بوچھاڑ شروع کردیتے، تو جیہ للتا چنئی میں ٹی وی پر کارروائی دیکھ کر وہیں سے اپنے ارکان کے لئے ہدایات جاری کرتی رہتی۔ ان کو ایک سخت گیر، مضبوط مگر متکبر لیڈر کے طور پر یاد رکھاجائے گا۔ وہ وفاداری کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی تھیں۔ اگرچہ وہ بہت کم انٹریوز دیتی تھیں تاہم ایک بار میرے ایک سینئر ایڈیٹر نے جو خود بھی تامل تھے،ان کا انٹریو لیا جس میں انہوں نے فوجداری قانون میں ترمیم کرکے زنا کے مجرموں کے پوشیدہ اعضا کاٹنے یا ان کوخصی بنانے کی تجویز دی تھی۔ اگلے روز انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ جملہ نہ صرف ان کے انٹرویو سے حذف کر دیا جائے بلکہ ٹیپ کی اصل بھی ان کو بھیجی جائے تاکہ وہ انٹرویوکو غور سے سن کر اور متنازعہ جملے حذف کر کے اس کی منظوری دیں۔ پہلے تو ادارے نے انکار کیا مگر ان کا اصرار اس قدر بڑھا کہ ٹیپ کی اوریجنل کاپی ان کو بھیجنی پڑی۔ چنانچہ انٹرویو میں ان کے پسندیدہ اور غیر متنازعہ حصے ہی شائع ہو سکے۔ 
اگرچہ جیہ للتا ایک دراوڑ یعنی برہمن مخالف پارٹی کی سربراہ تھی، مگر وہ خود برہمن تھی۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ جب برہمن کسی تحریک کو دبا نہیں پاتا تو عمر بھر اس کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کو اپناکر اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔ اس تھیوری کے ماننے والے ان تامل پارٹیوں کے اندر کرپشن، اقربا پروری اور بے انتہا دولت کے حصول کی تگ و دو کو اسی حکمت عملی کا حصہ بتاتے ہیں۔ 321 قبل مسیح میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے چندر گپت موریہ نے جب اقتدار سنبھالا تو پہلے تو برہمنوں نے اس کی مخالفت کی، مگر بعد میں ایسا اثر و رسوخ حاصل کیا کہ عملاً حکومت ایک برہمن کوٹلیہ یا چانکیہ کے سپرد ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جیہ للتا نے جو اپنے پیشرووں کے برعکس ذاتی طور پر مذہبی خاتون تھی، ہمیشہ ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ دوری بنائے رکھی۔ بسا اوقات مرکز میں بی جے پی کے ساتھ سیاسی رشتوں کے باوجود اس نے صوبے میں ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو پنپنے نہیں دیا۔ 
جیہ للتا پر بے انتہا دولت جمع کرنے اور کرپشن کے کئی الزامات تھے۔ ایک کیس میں ان کو سزا بھی ہوئی تھی۔ بعد میں ہائی کورٹ نے ان کو بری کردیا۔ ان کی موت پر پوری ریاست میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ ان کے موت کے غم میں اب تک 70 افراد خود سوزی کر چکے ہیں۔ ستمبر 2014ء میں جب بنگلور کورٹ نے ان کو جیل بھیجا تھا تو 244 افراد نے خود کشی کی تھی۔ یہ پاگل پن ہے یا اپنے لیڈر سے گہری وابستگی! لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکردہ شخصیات سے جذباتی تعلق اور حد درجہ محبت پورے جنوبی بھارت کے مزاج کی خصوصیت ہے۔ شمالی بھارت میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔غم و اندوہ کی یہ کیفیت بتا رہی ہے کہ وفات پانے ولی شخصیت وہاں کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتی تھی۔ یہ شخصیت ان کے تن من کا پورا خیال بھی رکھتی تھی۔ ریاست کے زیادہ تر لوگ اسے غریب اور کمزور طبقے کی دوست کے طور پر جانتے تھے۔ جیہ للتا نے ریاست کے غریبوں کے لئے اماں کینٹین، اماں پانی، اماں نمک اور اماں دوائی جیسے کئی مقبول منصوبے شروع کئے جن سے انہیں بہت فائدہ پہنچا، کم سے کم بلکہ تقریباً مفت ان کو ضروری
اور بنیادی سہولتیں حاصل ہوئیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندو دلتوں کو مندروں میں گھسنے نہیں دیتے تھے، تو جیہ للتا نے ان کے لئے پارٹی خزانے سے الگ مندر بنوائے۔ لوگوںکی آہ و فغاں اور غم واندوہ کا ایک منظر 2009ء میں پڑوسی صوبہ آندھرا پردیش میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی خراب موسم کی وجہ سے نلا مالا کے جنگلوں میں ہیلی کاپٹر حادثہ میں ہوئی موت کے وقت لوگوں نے دیکھا تھا۔ شیکھر ریڈی آندھرا پردیش کے مقبول لیڈر تسلیم کئے جاتے تھے۔ ان کی موت کے بعد پوری ریاست میں لوگ آہ وفغاں کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
تجزیہ کار عمر کوٹی کے مطابق دنیا شاید اس جذباتیت کو مضحکہ خیز یا حیرت انگیز محسوس کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ جنوبی بھارت میں سیاست دانوں اورغریب و کمزور طبقہ کے درمیان رشتہ دوستی کا ہوتا ہے نہ کہ شمالی بھارت کی طرح مفاد پرستی اور استحصال کا۔ شمالی بھارت میں لوگوں کے دلوں میں سیاست دانوں کے خلاف ناپسندیدگی بلکہ بسا اوقات نفرت کے جذبات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ 
قصہ مختصر تامل ناڈو کی سیاست اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے۔ جیہ للتا کی موت کے بعد اے آئی انا ڈی ایم کے میں ان کی جگہ پر کرنا مشکل تو ہے ہی، حریف دراوڑ پارٹی ڈی ایم کے پارٹی کے سربراہ ایم کرو ناندھی بھی بستر علالت پر ہیں، ان کے جانشین اور صاحبزادے ایم کے اسٹالن جنہوں نے فی الحال پارٹی کا کارو بار سنبھالا ہوا ہے، بھی کسی موذی مرض کا شکا ر ہیں۔ صوبہ کے ایک اور اہم سیاسی لیڈر وجے کانت بھی علیل ہیں۔ اس صورت حال میں اندیشہ ہے کہ ان کی پارٹیاں بکھر سکتی ہیں اور دوبارہ کانگریس اور بی جے پی کے لئے جگہ بن سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ 60 کی دہائی کے بعد جس طرح دراوڑ پارٹیوں نے تامل قوم پرستی کو ایڈریس کرتے ہوئے حکومت سازی کرکے علیحدگی پسند رجحانات پر لگام لگا کر رکھ دی تھی، قومی پارٹیوں کے آنے سے یہ رجحانات دوبارہ پنپ سکتے ہیں۔ اس کی واضح مثال جموں و کشمیر ہے۔ چاہے1987ء ہو یا 2008ء یا پھر 2010ء اور اب 2016ء بھارت کی قومی پارٹیوں کی مداخلت سے دبی ہوئی چنگاریاں آگ میں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں