"ISC" (space) message & send to 7575

میں کراچی ہوں…!!!

میری عمر 300 سال سے زیادہ ہے... 1795ء میں خان آف قلات کا حصہ تھا... اسی سال سندھ کے حکمرانوں اور خان آف قلات کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور مجھ پر تالپوروں نے کچھ عرصہ پہلے قبضہ کر لیا... اور بمبئی کا حصہ اور پارسیوں اور ہندوئوں کا شہر بن گیا... میرا پہلا نام کولاچی جوگوٹھ تھا جبکہ دیبل کی بندرگاہ بھی میرے وجود کا حصہ تھی‘ جہاں سے محمد بن قاسم 712ء میں سندھ میں داخل ہوئے جسے آج پورٹ قاسم کے نام سے جانا جاتا ہے... 1772ء میں مجھے مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کے لیے منتخب کیا گیا... اور میں گائوں سے تجارتی مرکز بن گیا... میری حفاظت کے لئے فصیل بنائی گئی جس پر مسقط سے توپیں درآمد کرکے نصب کی گئیں... اس کے 2 دروازے تھے... ایک کا رخ سمندر کی طرف تھا اس لئے اسے کھارادر... دوسرے دروازے کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اس لئے اسے میٹھادر کہا جاتا تھا... کھارادر اور میٹھادر آج بھی ہیں... لیکن اب فصیل ہے نہ دروازے... بلکہ دونوں اطراف صرف لیاری ہے... مجھے منی پاکستان کہا جاتا ہے... یعنی ہر نسل‘ قوم‘ رنگ‘ مذہب سے تعلق رکھنے والا مجھ میں پناہ لے سکتا ہے... اور ایسا ہوا بھی... سب نے پناہ لی اور آج میں پناہ مانگ رہا ہوں... آج مجھ پر سب کا قبضہ ہے... جس نے جہاں چاہا اپنا جھنڈا گاڑ دیا... تاریخ کی ابتدا وہیں ہوتی ہے جہاں انسانی یادداشت ختم ہوتی ہے... میری تاریخ بھی انسانی یادداشت ختم ہونے کے ساتھ ہی بنتی جا رہی ہے... 1947ء میں میری آبادی 4 لاکھ تھی جو آج 2 کروڑ تک پہنچ گئی ہے... میرے مسائل کے اعدادوشمار بھی کچھ ایسے ہی ہیں... میری مثال ایسے ہی ہے جیسے ماں باپ تو 15 بچوں کو پال سکتے ہیں لیکن 15 بچے مل کر بھی ماں باپ کو نہیں پال سکتے... میں پورے ملک کو 65 فیصد سے زائد ریونیو دے کر پال رہا ہوں لیکن تمام صوبے مل کر بھی یہاں موجود دہشت گردی... ٹارگٹ کلنگ اور لوٹ مار کو ختم نہیں کر سکے... ایک وقت تھا‘ جب میں ملک کا دارالحکومت تھا... ہر طرف خوشحالی تھی... پھر ایک ''سازش‘‘ ہوئی... دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا... پھر آہستہ آہستہ سرمایہ بھی منتقل ہونا شروع ہوا... فیکٹریاں‘ انڈسٹریاں... بڑے کاروباری ادارے بھی منتقل ہوئے... اور ایک وقت آیا جب کاروبار میں کمی اور دہشت گردی میں اضافہ ہونے لگا... انگریزوں نے 3 فروری 1839ء کو مجھ پر حملہ کیا اور 3 سال بعد برطانوی ہندوستان کے ساتھ ملحق کرکے ضلع کی حیثیت دے دی... بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی تو میں ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا تھا... مجھ پر کئی حملے اور قبضے ہوئے ...اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے‘ کبھی فرقہ واریت... کبھی لسانیت... کبھی ٹارگٹ کلنگ... کبھی بم دھماکے... ہر کوئی اپنے ''بھیانک فارمولے‘‘ کے تحت مجھ پر پے در پے حملے کرتا رہا... فرق صرف اتنا تھا کہ انگریزوں کے قبضے کے بعد میں نے ترقی حاصل کی جبکہ دیگر گروپوں کے قبضے نے مجھے معاشی زوال سے دوچار کیا... بقول ابن انشاء
اس جگ میں سب کچھ رب کا ہے 
جو رب کا ہے وہ سب کا ہے
ہر قوم اور گروپ نے دعویٰ کیا کہ میں اس کا ہوں... لیکن عملی طور پر کوئی ثابت نہ کر سکا... میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مجھے پیرس بنا دو... لیکن جسے موقع ملا اس نے یہ نعرہ ضرور لگایا... مجھے پیرس بنانا تو درکنار‘ میری شناخت ''روشنیوں کا شہر‘‘ بھی ختم کر دی گئی... جس میں جتنا ہاتھ جرائم پیشہ عناصر کا ہے‘ اتنا ہی حکومت کا بھی ہے... بم دھماکے ہوں یا ٹارگٹ کلنگ... ڈکیتیاں ہوں یا لوڈشیڈنگ... مجھے اندھیروں میں دھکیلنے میں سب نے اپنا حصہ ڈالا... میں کبھی ترقی یافتہ شہر تھا اور اب ترقی پذیر ہوں... میں بھی پہلے نمبر پر آتا ہوں مگر... خطرناک ترین شہروں میں... دوبارہ ترقی دلوانے میں پہلے نعمت اللہ خان اور پھر مصطفیٰ کمال جیسے لوگوں کا کردار کبھی بھلا نہیں سکتا‘ جن کی کاوشوں سے میرا چہرہ تھوڑا نظر آیا... ورنہ تو ہر کوئی مجھے تباہ کرنے کا جیسے ''ٹھیکہ‘‘ لئے بیٹھا ہو... دنیا بھر میں ہر شہر اور صوبے کا اپنا تشخص ہوتا ہے... بھارتی انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد کے آنجہانی سربراہ بال ٹھاکرے نے کہا تھا کہ ممبئی میں پہلی نوکری ہندو کو دی جائے... دوسری کے لیے اگر ہندو میسر نہ ہو 
تو مسلمان کو دے دی جائے لیکن ممبئی اور مہاراشٹر سے باہر کے کسی شخص کو یہ استحقاق نہیں کہ اسے نوکری دی جائے... اور وہ اس شہر اور صوبے کے تشخص میں ''ملاوٹ‘‘ کر سکے... حتیٰ کہ بال ٹھاکرے نے مہاراشٹر پولیس کو بھی یہ کہا تھا کہ مہاراشٹر سے باہر کے ڈرائیوروں کے چالان کرکے انہیں ان کے اپنے صوبوں میں واپس جانے کی تمنا ابھارتے رہو... میرے ساتھ ایسا ہی ہوا... جو آیا... اس نے کھایا... کمایا... اور بعد میں مجھے ہی آنکھیں دکھائیں... میرا اپنا کوئی تشخص نہیں رہا اور مجھے ''منی پاکستان‘‘ کا لقب دے کر ''خوش‘‘ کر دیا گیا... پتہ نہیں میں پورا پاکستان کب بنوں گا... یعنی دنیا بھر سے کوئی بھی آئے‘ چاہے وہ افغانی ہو یا ازبک‘ تاجک ہو یا ایرانی‘ انگریز ہو یا فرانسیسی‘ امریکی ہو یا روس ہر کوئی مجھے اپنے باپ کی ملکیت سمجھتا ہے... مجھ میں سب سے زیادہ چائے کے ہوٹل کس کے ہیں؟ ریستوران کے مالک کون ہیں؟ قالین فروخت کرنے والے کون ہیں؟ بسیں چلانے والے کون ہیں؟ فرنچ فرائس بیچنے والے کون ہیں؟ ہوٹلوں میں جسم فروشی کرنے والے کون ہیں؟ ان سب کے جوابات میں آپ کو کوئی میرا شہری نہیں ملے گا... اس صورتِ حال میں میرا اپنا تشخص کیا رہا؟ بس میں ''منی پاکستان‘‘ ہوں‘ پاکستان کے نام کے ساتھ منی کا لفظ لگانے سے اگر سب کے لئے دروازے کھل جاتے ہیں تو لاہور‘ اسلام آباد‘ فیصل آباد‘ پشاور اور دیگر شہروں کے 
لئے بھی کوئی ایسا لفظ لگا کر تجربہ کیا جائے کہ کیا یہ سب کچھ وہاں بھی ممکن ہے؟ جس طرح کوئٹہ کے شہری کوئٹہ وال... لاہور والے لاہوری... پشاور کے باشندے پشاوری کہلاتے ہیں... میرے پاس ایسا کچھ نہیں... میرے سائے میں پلنے والے اپنی ذات پات نہیں بھولتے... یہاں رہتے ہوئے بھی کوئی مہاجر ہے تو کوئی سندھی... کوئی پٹھان ہے تو کوئی بلوچ... کوئی پنجابی ہے تو کوئی ہزارے وال... نہیں ہے تو کوئی کراچی والا نہیں... کراچی کا باسی نہیں... آج میں بہت دکھی ہوں... میرا جسم کرچی کرچی ہے... روح لرزیدہ ہے... دل اداس ہے... تمام ٹی وی چینلز کی ہیڈلائنز‘ بریکنگ نیوز پر بھی میں ہی چھایا ہوا ہوں... روزانہ 15 سے 20 نعشیں گرنا... 40 سے 50 ڈکیتی کی وارداتیں... روزانہ کی بنیاد پر بھتہ کی پرچیاں... سرمایہ کاروں اور تاجروں کو دھمکیاں... دھماکے اور بہت کچھ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے... لیکن اس کی وجہ بھی شاید میں ہی ہوں... نہ کوئی مجھ سے اتنا کمائے کہ اسے بھتہ کی پرچی ملے... نہ کوئی میری زمین پر قبضہ کرے اور مالی مفادات حاصل کرے کہ ٹارگٹ کلنگ کی نوبت آئے... نہ کوئی مجھ سے کمائے گئے پیسے‘ زیورات‘ قیمتی موبائل فون جیب میں رکھ کر گھومے... اور بینکوں میں اتنا پیسہ ہو کہ ڈکیتی کی وارداتیں بڑھیں... اور نہ ہی غیرملکی مفادات میری ترقی کے آڑے آئیں کہ خوف کی فضا ختم ہو سکے اور سرمایہ کاری کی جا سکے... یہ سب خرابیاں مجھ میں ہیں کہ میں سب کو اپنی چھائوں میں رکھتا ہوں اور لوگ میری ہی جڑیں کاٹتے ہیں لیکن کیا کروں میرا نام ''کراچی‘‘ ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں