پاکستان میں اس وقت میڈیا کی ''جنگ پانی پت‘‘ برپا ہے عام خیال اور پلاننگ یہی نظر آتی تھی کہ گزرتا وقت اس لڑائی کو قصہ پارینہ بنا دے گا لیکن ہر نئے دن کے ساتھ لڑائی میں شدت چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ہاتھ نہ لگائو معاملہ ''گرم‘‘ہے۔ ایک طرف پیمرا میں آئی ایس آئی کی ''خاموش شکایت‘‘ اپنا اثر دکھا رہی ہے‘ دوسری طرف حکومت کی آغوش میں دبک کر ڈھول‘ تاشے اور چیختی چنگھاڑتی موسیقی کے ساتھ ایک ''پرومو‘‘ دکھایا جا رہا ہے۔ ویسے تو ٹیلی ویژن کی دنیا میں ''پرومو‘‘ اگلے پروگراموں کے ''ٹریلر‘‘ کو کہا جاتا ہے لیکن یہ پرومو‘ فلر (بھرتی) کے بجائے ایک ''شارٹ فلم‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس لڑائی کی خوبی یا خرابی یہ ہے کہ ایک ''میڈیا ہائوس‘‘ ایک ہی ''پرومو‘‘ اتنی بار نشر کر چکا ہے کہ نہ صرف اس کی افادیت ختم ہو چکی ہے بلکہ اس چینل کے بچے کھچے ویورز بھی اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف طاقت رکھنے کے باوجود آئی ایس آئی کی ''پُراسرار خاموشی‘‘ نے سب کو حیران کر رکھا ہے۔ اس قدر طاقت ہونے کے باوجود ایسا صبر؟ یقین نہیں آتا۔ آئی ایس آئی پاکستان کے سب سے بڑے محب وطن اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ مسلح افواج کے ماتھے کا جھومر ہے۔ اسے دشمنوں سے لڑنا اور دوستوں کی تعداد بڑھانا آتا ہے۔ اسے اپنی حدود اور اختیارات کا بھی علم ہے‘ اس لیے آئی ایس آئی نے ہمیشہ اس مؤقف کو اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے دہرایا کہ ''ہم صرف قانون کے مطابق کارروائی چاہتے ہیں‘‘ اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ملک کے اس باوقار ادارے کو انصاف ملنے میں رکاوٹ کون بن رہا ہے اور کون پیمرا کے ہاتھ پائوں باندھ رہا ہے‘ اس کے باوجود آئی ایس آئی نے صبروتحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ جب لاپتہ افراد کا قافلہ اسلام آباد پہنچا تو اس کے شرکاء کے جذبات بھڑکا کر انہیں آئی ایس آئی کے خلاف اکسایا جا رہا تھا‘ منظر کشی کی جا رہی تھی‘ ایسا نقشہ کھینچا گیا کہ جیسے پاکستان سے انصاف ختم ہو گیا ہے اور کھلم کھلا ایک ایجنسی کے نام کا لقمہ ان بچوںکے منہ میں ڈالا گیا جو آئی ایس آئی کو جانتے بھی نہ تھے۔ پھر وینا ملک والا واقعہ ہو گیا۔ وہ بھارت میں اپنے بدن کی نمائش اس طرح کر رہی تھی کہ بازو پر آئی ایس آئی لکھا ہوا تھا۔ اگر کسی کو اس برہنہ عورت کا نظارہ کروانا تھا تو اور بھی بہت سے راستے تھے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ یہ وہی وینا ملک ہیں جو پہلے بھارت اور پھر پاکستان کے مارننگ شو کو ایسی ''ریٹنگ‘‘ دے گئیں کہ اللہ کی پناہ! پاکستانی قوم کی امیدوں کے مرکز‘ آئی ایس آئی کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟ یہ سوچنے والی بات ہے!!
بھارت کی تقریباً سو سے زائد فلموں میں آئی ایس آئی کا مذاق اڑایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ فلموں کے ناچ گانوں کی آڑ میں پاکستانیوں کے دل میں آئی ایس آئی کی نفرت ڈال دی جائے‘ لیکن پاکستانی عوام کو سلام ہے کہ ان کے دل میں جتنی نفرت ڈالی گئی‘ وہ اتنی ہی الفت میں بدلتی گئی۔ عوام کا آئی ایس آئی کے ساتھ محبت کا نظارہ اس وقت دیکھنے کو ملا‘ جب پوری قوم طوفان کی طرح آئی ایس آئی کی حمایت میں جلوس در جلوس نکل آئی اور ''جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ کا منظر سب نے دیکھا۔ پھر وہ موقع بھی آ گیا‘ جب آئی ایس آئی کی قیادت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ایک چینل آٹھ گھنٹے ''لمبی چھلانگ‘‘ لگا بیٹھا اور ''پہلوانی‘‘ کے بجائے ''پکڑ‘‘ شروع ہو گئی۔ اب یہ بحث ہر طرف جاری ہے کہ معافی ملنی چاہیے یا سزا؟ کیا ہونا چاہیے‘ کس طرح چھوڑا جائے؟ معاملات اتنے بگڑ گئے کہ ملک کی گلیاں‘ چوبارے‘ پتھارے اور چوپالیں‘ عدالتیں بن گئیں اور ہر جگہ تبصرے شروع ہو گئے۔ بقول شاعر ؎
ہم سے جب بھی گناہ ہوتا ہے
اس کو فطرت کی بھول کہتے ہیں
عاصمہ جہانگیر ایک باوقار قانون دان ہیں۔ وہ اپنے بے لاگ تبصروں اور تجزیوں کے لیے بہت مشہور ہیں لیکن ان کے اس سوال نے سب کو چونکا دیا کہ ''کتنی بار معافی مانگی جائے؟ ''وہ‘‘ ناک سے لکیر نکلوانا چاہتے ہیں‘‘۔ اس بیان میں محترمہ معاملے کو ختم کرنے کی تلقین کر رہی تھیں لیکن شیخ رشید نے ایک نکتہ اٹھا کر عاصمہ جہانگیر کے تجزیے کو ہوا میں اڑا دیا۔ شیخ رشید نے کہا کہ ''جیو نے تو دس سال سے آئی ایس آئی کو نشانے پر لے رکھا ہے‘‘۔ کراچی کے ایک قانون دان محفوظ یار خان نے ایک نرالا نکتہ پیش کیا۔ کہتے ہیں کہ ''غلطی کے روپ میں غداری کی گئی! اب قانون‘ انصاف کی عدالت میں ہے‘‘۔ آئی ایس آئی کے موقف پر تجزیہ کرتے ہوئے ایک اخبار نے یہ لکھا کہ ''آئی ایس آئی کا موقف ہے کہ غلطی چونکہ اتفاقیہ نہیں بلکہ 8 گھنٹے تک مسلسل اور دانستہ کی جاتی رہی ہے لہٰذا وہ انصاف چاہتے ہیں اور بات چیت کے ذریعہ معاملہ رفع دفع کرنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ ان کی فورس کے اہلکاروں کے جذبات کو شدید رنج پہنچا ہے‘‘۔
حضور اکرم ؐ نے فرمایا کہ ''پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ کمزوروں پر قانون نافذ کر تیں اور طاقتوروں کو معاف کر دیتی تھیں‘‘۔ جیو نے مسئلے کو فلسفیانہ انداز میں حل کرنے کی کوشش کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ حل سے مسئلہ اچھا تھا۔ دو خواجگان نے بیانات کی ''توپیں‘‘ چلا کر معاملے کو الجھا دیا اور جو مسئلہ جرمانہ یا معافی کی صورت میں بآسانی طے ہو سکتا تھا ''جنگِ عظیم‘‘ میں تبدیل ہو گیا اور دو طاقت ور قوتیں نظر تو نہیں آتیں لیکن باہم پنجہ آزمائی میں مصروف ہیں‘ جس کا زیادہ نقصان مذکورہ چینل کو ہو سکتا ہے۔ انہیں اس مچھلی سے سبق سیکھنا چاہیے جس کے حلق میں کانٹا پھنستا ہے تو وہ زور نہیں لگاتی کیونکہ اس کانٹے کی بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے کہ جتنا زور لگائو‘ اتنا ہی پھنستے چلے جائو۔ ''چالاک مچھلیاں‘‘ چپ چاپ الٹی سیدھی قلابازیاں کھا کر وہ کانٹا نکال لیتی ہیں اور زندگی کی تلاش میں وہ جگہ انتہائی تیزی سے چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس لڑائی کو ''گرم دانشوروں کی فوج‘‘ کی ڈرامائی ڈائیلاگ بازی کے بجائے ''ٹھنڈے دماغ‘‘ کے لوگوں سے حل کرانا چاہیے‘ اس لیے کہ آگ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے جتنی ہو ا چلے گی آگ مزید بھڑکے گی۔ یہ آزادی اظہار کا مقدمہ نہیں بلکہ یہ وہی معاملہ تھا جو کائنات کی تخلیق کے وقت پیش آیا‘ جب آواز آئی جھک جائو تو سب جھک گئے جو نہیں جھکا اس پر تبصرہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں کیا ہے ؎
ہے فکر خداوند سے روشن یہ زمانہ
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
جب پیمرا کسی بھی ٹی وی چلانے والی کمپنی کو لائسنس دیتی ہے تو وہ پورا یقین رکھتی ہے کہ یہ کمپنی اور اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز ذمہ دار لوگ ہیں۔ ان کو ''کوڈ آف کنڈکٹ‘‘ کی کاپی دی جاتی ہے‘ جس پر چینل کا مالک دستخط کر کے اس بات کوتسلیم کرتا ہے کہ ان کا چینل اسلام‘ رسول اکرمؐ، اہلبیتؓ، صحابہ کرامؓ، پاکستان و نظریہ پاکستان‘ آئین‘ عدلیہ‘ مسلح افواج اور اولیائے کرام کا مذاق نہیں اڑائے گا‘ انہیں تنقید کا نشانہ نہیں بنائے گا‘ ان کے وقار کو مجروح نہیں کرے گا‘ کسی کو بلاوجہ بدنام نہیں کرے گا‘ کسی کو دہشت گردی پر نہیں اکسائے گا‘ امن و امان تباہ نہیں کرے گا‘ اس نوعیت کا کوئی بھی پروگرام نشر نہیں کرے گا جس میں لسانی‘ ثقافتی‘ مذہبی‘ شخصی‘ گروپ‘ قومیت‘ رنگ‘ نسل‘ جنس یا جنسی تبدیلی‘ عمر‘ جسمانی یا دماغی کمزوری سے متعلق کسی کی توہین کی جائے۔ یہ تمام نکات پیمرا کے آئندہ اجلاس میں بھی زیر بحث ہوں گے۔ پیمرا نے گو کہ بہت بڑی قانون سازی نہیں کی لیکن چھوٹے نکات پر مشتمل ایک حدود سازی ضرور کی گئی جس سے نکلنے کی اجازت کسی کو نہیں دی گئی۔
اگر جائزہ لیا جائے تو جیو دو معاملات پر ''پکڑ‘‘ میں آیا ہے۔ ایک آئی ایس آئی دوسرا اہل بیت ؓ کی توہین۔ ان دونوں قوانین میں صرف سزا ہے مفاہمت نہیں۔ قتل کے مقدمے میں سزا‘ مفاہمت اور قصاص ہے لیکن زنا اور ڈکیتی میں ایسی کوئی رعایت نہیں۔ تھوڑے سے تحمل کے ساتھ ان قوانین کا مطالعہ کر لیا جاتا تو ''پکڑ‘‘ کے بعد ''جکڑ‘‘ کی نوبت ہی نہ آتی۔ ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا ہے:
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
(ادارے کا اس کالم کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں)