"ISC" (space) message & send to 7575

وہ۔۔۔۔ جس نے پانی میں آگ لگادی!!

لندن میں الطاف حسین پر آنے والی مصیبت نے ایک بار پھر انہیں سیاسی ابھارکاحصہ بنا دیا جس کا مخالفین کوگمان تک نہ تھا۔ جب الطاف حسین پولیس کی حراست میں گئے تو یہ پروپیگنڈہ عروج پر پہنچ گیا تھا کہ ''ایم کیو ایم اب آخری ہچکیاں لینے والی ہے‘‘ کسی نے کہا کہ ''ایم کیو ایم اب دو تین گروپوں میں بٹ جائے گی‘‘ کسی نے کہا ''اب ایم کیو ایم اپنی مقبولیت کھو بیٹھے گی‘‘... غرض جتنے منہ اس سے زیادہ باتیں‘ لیکن ہر''نیشنل بحران‘‘ سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کے ماہر الطاف حسین اس ''انٹرنیشنل بحران‘‘ سے بھی سرخرو ہو کر نکل آئے‘ نہ مقبولیت کم ہوئی‘ نہ وہ کمزورہوتے نظر آئے ۔
الطاف حسین کون ہیں ؟یہ جانے بغیرآپ کو یہ مضمون یکطرفہ سا لگے گا۔ 28سال قبل سندھ کی شہری سیاست میں طوفان کی طرح آنے والے الطاف حسین کی مقبولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اس وقت کے ایک نقاد نے کہا تھا کہ ''الطاف حسین نے پانی میں آگ لگادی ہے‘‘۔ ان کی سیاست جوں جوں طاقتور ہوتی گئی جواباًاسی طرح انہیں تنقیدوں‘ فتوئوں اور الزامات کے نشانے پر لیا گیا اور وہ طبقات جو رضائے الہٰی کیلئے جینے کو اپنی زندگی کا مقصد بیان کرتے تھے‘ انہوں نے بھی ایسے الزامات کی ''گولہ باری‘‘ کی جنہیں پڑھ کر الطاف حسین بھی حیران ہوجاتے تھے۔ الطاف حسین کی ایک کامیابی یہ بھی تھی کہ انہوں نے 28سال سے کراچی اور حیدرآباد کی سیاست میں جمی جمائی ''سیاسی و مذہبی دکانداری‘‘ کو نہ صرف ختم کردیابلکہ ان ''دکانداروں‘‘کو اپنے ہی شہر میں ''یتیم‘‘ بھی کردیا۔ ابتداء میں کہا جاتا تھا کہ الطاف حسین کی ''جادوگری‘‘چند ماہ کی مہمان ہے‘ پھر ہم واپس لوٹ کر آ جائیں گے‘ لیکن کئی ماہ برسوں اور دہائیوں میں بیت گئے‘ کراچی اور حیدرآباد میں مذہبی وسیاسی جماعتوں کی طاقت کم ہوتی چلی گئی اوراب 28سال ہوگئے لیکن ابھی تک کوئی بھی پارٹی الطاف حسین کے اس طوفان کو نہیں روک سکی جو بی فارمیسی کی تعلیم ادھوری چھوڑنے والے ایک طالبعلم کے سینے سے کراچی اور حیدرآباد کی گلیوں‘چوراہوںاورمحلوںتک پھیل چکا تھا۔
الطاف حسین جب لندن میں گرفتار ہوئے تو ایک بار پھر ''پرانے بازیگر‘‘ اچھے دنوں کویاد کرتے ہوئے میدان میں آگئے لیکن 28سال میں دنیا بہت بدل گئی تھی۔ اتنے عرصے میں تو ایک ننھا پودا تناور درخت بن جاتا ہے۔ کسی کو کہاں ''چانس‘‘ ملتا۔ کراچی کے میدان سے ''کلین بولڈ‘‘ ہونے والی سیاسی جماعتیں اتنے طویل عرصے میںنئے اور نوجوان کارکنوں کی ٹیم تک نہ بناسکیں، ''میچ‘‘کیسے کھیلتیں؟۔ نہ سیاسی چال چلنے کا کوئی بڑا موقع ملا‘ نہ مقابلے کیلئے کوئی یکطرفہ میدان۔ اکثر مخالفین توکسی''غیبی امداد‘‘ کے منتظر رہے‘ لیکن پھر ''ڈراپ سین‘‘ہوگیا اورچند دن بعد ہی الطا ف حسین ضمانت پر رہا ہوگئے۔
الطاف حسین کی رہائی کا زبردست جشن منایا گیا۔ ملک کی تمام اہم شخصیات نے الطاف حسین کو مبارکباد دی۔ سیاسی جوڑ توڑ کیلئے رابطے بھی شروع ہوگئے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے مخالفین بھی خود کو آرگنائز کرنے کیلئے رابطے کررہے ہیں۔ کراچی کے دو تین اخبارات نے الطاف حسین کی رہائی کو جولائی تک کیلئے کی شہ سرخی لگا کر خود کو تسلی دی اور علامہ اقبال کے اس شعر کا سہارا بھی لیا ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
کئی مخالفین نے یہ بھی کہاکہ جشن اور آتش بازی کرنے والے کارکنوں کی تقریب میں بعض اہم رہنما ئوں کے چہرے فکر مند تھے۔ وہ مستقبل کا سوچ کر پریشان تھے کہ کل کیا ہوگا؟۔ یہ سوال دھیمے لہجے میں مختلف محفلوں میں بھی کیا جارہا ہے۔ بیشتر مخالفین کی آرزو ہے کہ الطاف حسین سے شہری سندھ کی قیادت چھین لی جائے اور وہ ایسا کر بھی سکتے ہیں لیکن مسئلہ صرف ایک ہی ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام ان کاساتھ نہیں دے رہے۔ مطلب قاضی تو راضی ہے میاں بیوی نہیں مان رہے۔ اب وہ ''امید پردنیا قائم ہے ‘‘کے مصداق آس لگائے بیٹھے ہیں کہ لندن پولیس یا عدالت الطاف حسین کو ہمارے راستے سے ہٹا دے اور ہم اچھلتے ‘ کودتے کراچی و حیدرآباد کی سیاست پر قبضہ کرلیں ۔ 
الطاف حسین کے بارے میں مختصراً یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ سال بہ سال ان کی سیاسی اور پارلیمانی طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وہ پورے بلوچستان کی پارلیمانی قوت سے زیادہ 
اکیلے طاقت رکھنے والے لیڈر ہیں لیکن پاکستان کی قومی سیاست میں انہیں جان بوجھ کر وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو ان کا حق بنتا ہے۔ الطاف حسین کی سیاست کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ''الطاف حسین آج بھی نوازشریف کا ساتھ دے ر ہے ہیں لیکن نوازشریف الطاف حسین کا ساتھ نہیں دے پارہے ‘‘۔ میاں نوازشریف اگر الطاف حسین کو ساتھ لے کر چلتے تو آج سندھ کی سیاست کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ وفاقی حکومت مولانا فضل الرحمن کو تو گلے لگالیتی ہے لیکن مولانا فضل الرحمن سے زیادہ سیاسی طاقت رکھنے والے الطاف حسین کو موقع ہی نہیں دیا جاتا کہ وہ قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں ۔ 
ملکی اقتدار کے اعلیٰ ایوان ہوں یا ادنیٰ ادارے‘ سب کو اس بات سے زیادہ دلچسپی ہے کہ الطاف حسین کی بساط کب الٹے گی؟ ایم کیو ایم کب ٹوٹے گی؟ الطاف حسین کی پارٹی پر گرفت کب کمزور ہوگی؟۔ الطاف حسین کی حراست کے دوران بھی یہ سوالات اٹھائے گئے کہ پارٹی کا جانشین کون ہوگا؟ اگر الطاف حسین کو کچھ ہوا تو اس وراثت کا مالک کون ہوگا؟ لیکن یہی سوال نواز شریف‘عمران خان‘ مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری سے نہیں کئے جاتے۔ زرداری صاحب کا ''ڈکلیئر ڈ‘‘جانشین بلاول بھٹو زرداری ہے‘ لیکن ابھی وہ پارلیمانی سیاست کیلئے نو عمر ہیں۔ 35سال کی عمر میں وزیراعظم بننے کیلئے ابھی انہیں 8 سال تک انتظار کرنا ہے۔ نواز شریف صاحب کی جانشینی شاید اس لئے 
بھی مسئلہ نہیں کہ ان کے بھائی ‘بیٹے‘بھتیجے پارٹی کو ''ڈولنے‘‘ نہیں دینگے۔ مولانافضل الرحمن کے جانشین سے بھی شاید کسی کو دلچسپی نہیں اور شایدعمران خان صاحب کو بھی اس معاملے پر ''استثنیٰ‘‘ حاصل ہے۔ سیانے کہتے ہیں اس قسم کی بحث سے کچھ حاصل نہیں ہوتا سوائے قومی سیاست میں دوریوں کے !!!۔۔۔۔۔۔دوسری طرف الطاف حسین کے بارے میںبھی یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ انہوں نے ایم کیو ایم کی مزید تنظیم نو کا فیصلہ کیا ہے‘ رہائی کے فوراً بعد الطاف حسین نے ناراض کارکنوں کو معاف کرنے کا ایک بڑا اعلان کردیا‘ جس میں سلیم شہزاد اور انیس ایڈوکیٹ کی واپسی بھی شامل ہے۔ الطاف حسین نے اپنے چھوٹے بھائی اسرار حسین کو بھی امریکہ سے بلوالیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان کی جانشین کی حیثیت سے تربیت کی جائے۔ الطا ف حسین نے ایک شفیق باپ کی طرح اپنی صاحبزادی افضاء الطاف کیلئے جس محبت کا اظہار کیا‘ اس کا پارٹی میں زبردست خیرمقدم ہوا۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں میں افضاء الطاف کیلئے بہت محبت پائی جاتی ہے‘ اسی لئے ان کانام بھی والد کے نائب کی حیثیت سے لیا جانے لگا‘ لیکن اب یہ فیصلہ تو الطاف حسین کو کرنا ہے کہ ان کا جانشین کون ہوگا؟۔۔۔۔۔۔یا کون ہوسکتا ہے؟ رابطہ کمیٹی ان کے چھوٹے بھائی اسرار حسین یا پھرافضاء الطاف؟۔۔۔۔۔۔بہر حال ایک بات بہت اہم ہے کہ ایم کیو ایم کے دکھ کے چار پانچ دنوں میں سے ان کی پارٹی میں کئی انقلابات نے جنم لیا اور پارٹی میں ''نیچرل جانشین ‘‘یا ''ذمہ داران‘‘ کی تخلیق کا عمل اور تجربہ دونوں شروع ہوگئے۔ لگتا ہے کہ الطاف حسین اب پارٹی پرکنٹرول رکھنے اورتنظیم سازی سمیت اس موضوع پر بھی تو جہ دیں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں