سندھ میں جمہوریت بال کھولے دیوانہ وارناچ رہی ہے۔۔۔۔ کرپشن کی حالت ایسی ہے کہ بعض ناقدین نے مشورہ دیا کہ اسے اٹھارویں ترمیم کی طرح ایک ''کرپشن ترمیم‘‘ کے ذریعے قانونی حق قرار دے دیا جائے۔ سندھ میں سب سے پہلے علم کو ''کوٹہ سسٹم ‘‘ کی چھری سے ذبح کر کے تعلیم کو تباہ کیا گیا۔۔۔۔پھر صحت کا حشر نشر کیا گیا۔ تھرپارکر میں قحط کے ذمہ داران تاحال اپنے کالر کھڑے کرکے سیکڑوں تابوتوں کے سرہانے ''جشن‘‘ منارہے ہیں۔۔۔۔امن وامان کاوہ حال کیا گیا کہ سندھ دھرتی کئی سال سے وزیر داخلہ سے ہی محروم ہے‘ کسی کو پتا ہی نہیں کہ یہ منصب کس کے پاس ہے۔۔۔۔ ظالموں کو قرارنہ آیا تو ضمیر کی فروخت اور ارکان اسمبلی کی خریداری کا ''ہارس ٹریڈنگ کلچر‘‘ متعارف کرایا گیا۔۔۔۔ سندھ کے ایک سابق رکن صوبائی اسمبلی نے آن ریکارڈ کہا تھا کہ سندھ اسمبلی بکرا منڈی بن گئی ہے جس کے بعد پیر پگاڑا نے کہا کہ ''یہ اسمبلیاں نہیں ‘ قومی بلدیاتی ادارے ہیں‘‘۔ سندھ کے بلدیاتی اداروں میں رشوت کا بازار اس قدر گرم ہوتا ہے کہ خاکروب کو بھی تنخواہ وصول کرنے کے لیے ''نذرانہ‘‘ دینا پڑتا ہے جس کا نام ''دستوری‘‘ رکھا گیا ہے۔۔۔۔ رشوت لینے والاپکڑا جائے تو وہ چھوٹتا بھی رشوت دے کر ہی ہے....کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
لے کے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
سندھ عجیب و غریب صوبہ ہے،کرپشن اور قانون شکنی میں دن بدن ریکارڈ توڑ ترقی کررہا ہے۔ سندھ میں جمہوریت کو جرائم کی ماں کہا جاتا ہے۔ اخبار کا نیو زایڈیٹراب کرپشن کی خبر لانے والے رپورٹر کو ''شاباش‘‘ نہیں دیتا بلکہ اس کا جملہ ہوتا ہے : ''کوئی دلچسپ خبر لائو، چھوڑو کرپشن کو، یہ تو معمول ہے‘‘۔
ہمارے ملک کو تو دیکھیے! یہاں قانون بنا دیا گیا ہے کہ جرائم
اورکرپشن میں ملوث ارکان اسمبلی خواہ سابق ہوں یا ''آن ڈیوٹی‘‘ اینٹی کرپشن کے ادارے اسے گرفتار نہیں کرسکتے.... پہلے پارلیمانی کمیٹی سے اجازت لائو، پھر سپیکر کو راضی کرواور پھر پکڑو ! ہمارا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم نے علانیہ کہا تھا: ''ہمت ہے تو مجھے گرفتار کرکے دکھائو‘‘۔ یہ چیلنج ہر اخبار نے شائع کیا اور اس کا ترجمہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ''اگر ہمت ہے تو مجھے پکڑو، میرے تمام بھائی بند جاگیردار حکمران تم پر بھیڑیوں کی طرح جھپٹ پڑیں گے‘‘۔ پاکستان میں جمہوریت نے اس قدر پائوں پھیلا لئے ہیں کہ اینٹی کرپشن کا محکمہ‘ ایف آئی اے اوراحتساب بیوروکی تنظیم سازی کے اختیارات ان کے قدموں میں پڑے ہیں۔ جب کوئی یہ پوچھتا ہے کہ یہ سب کیا ہے توکہا جاتا ہے کہ ہمیں عوام نے پانچ سال تک ''سب کچھ‘‘ کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے ظاہر ہے جس ملک میں چیئرمین نیب قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی باہمی رضامندی سے تعینات کیا جائے کس کی شامت آئی ہے کہ اس سے ''اختلاف‘‘کرے۔
اٹھارویں ترمیم نے سب سے زیادہ سندھ پولیس کو متاثر کیا ہے‘ جو انتہائی تیزی سے تباہ کی جارہی ہے۔ سندھ پولیس کے'' تماشے‘‘ کو وزیراعظم بھی نہیں روک پارہے.... اس ''میوزیکل چیئر‘‘ کو صوبائی خود مختاری کا نام دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی امتیاز احمد شیخ کاکہناہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ کو ہٹایا جانا سراسر بد نیتی پر مبنی ہے۔ امتیاز شیخ نے وزیراعلیٰ سے سوال کیا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی بنا پر 3ماہ کے اندر دوسرا آئی جی سندھ تبدیل کیا جارہا ہے؟ ان کایہ بھی کہنا تھا کہ وفاق نے سندھ حکومت کی ڈیمانڈ پر اقبال محمود کی آئی جی سندھ کی حیثیت سے تقرر ی کی تھی۔ امتیاز شیخ کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ جس طرح سندھ میں ہر 3ماہ بعد آئی جی تبدیل کرنے سے کراچی آپریشن بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ اس کا فائدہ دہشت گردوں کو پہنچے گا۔ ان کے مطا بق پولیس کے لئے 8ارب روپے مالیت کی بلٹ پروف گاڑیوں اور سکیورٹی سے متعلق دیگرآلات کی خریداری ایک معمہ بن چکا ہے‘ جس کا تیسرا شکار موجودہ آئی جی سندھ اقبال محمود کو بنایا جارہاہے۔ اس سے قبل سابق چیف سیکرٹری اعجاز چوہدری اورایڈیشنل سیکرٹری محکمہ داخلہ سید ممتاز شاہ بھی اس کا ''نشانہ ‘‘بن چکے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت سندھ کے بددیانتی پر مبنی اس غیرقانونی مسودے میں کوئی بھی افسر اپنی گردن پھنسانے کیلئے تیار نہیں۔ آلات کی خریداری کے لئے بین الاقوامی ٹینڈر جاری کرنے کی خاطر سندھ اسمبلی کے ارکان کی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں اپوزیشن کے ارکان بھی ہوں۔ یہ ایک اہم سرکاری اہلکار کی رائے تھی۔ اب دوسری طرف یہ دیکھتے ہیں کہ سندھ میں ''جمہوریت کیا کرتب‘‘ دکھاتی ہے ؟
کبھی یہ ہوتا تھا کہ حکومت کرپشن کی روک تھام اور بڑے گھپلے کرنے والوں کو بے نقاب کرتی تھی۔۔۔۔ افسران کو انعامات سے بھی نوازاجاتا تھا، لیکن دنیا بدل گئی ہے۔ اب گھپلوں اور کرپشن میں رکاوٹ بننے والے کو سزا دی جاتی ہے۔ اس کی تازہ مثال سامنے آچکی ہے، جب پاک فضائیہ کے ریٹائرڈ اسکواڈرن لیڈر اور کراچی میں طویل عرصے سے ایس ایس پی‘ ڈی آئی جی‘ ایڈیشنل آئی جی اور بالآخر آئی جی سندھ کی ''کرسی‘‘ پر بیٹھنے والے اقبال محمود نے کرپٹ ممالک کی فہرست میں ٹاپ ٹین کی پوزیشن پر فائز پاکستان میں ایک کرپشن روکنے کی کوشش کی تو سندھ کی ایک طاقت ورشخصیت کے فرنٹ مین ایسے ''جوش‘‘میں آئے کہ آئی جی سمیت کئی افسران کی ''کرسیاں‘‘ اپنے ''ہوش‘‘ کھو بیٹھیں۔ سندھ حکومت آئی جی کو ہمیشہ اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ حکمرانوں کے ''معاملات‘‘ خراب نہ ہوں۔ 18ویں ترمیم سندھ حکومت کیلئے ''حلوہ‘‘ ثابت ہوئی، عوام کو بھی اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ صوبائی خود مختاری کا مطلب سمجھ آگیا۔ شاہد ندیم بلوچ جب آئی جی سندھ تھے تو اختلافات نے سراٹھایا۔ اس وقت بھی فیاض لغاری کو آئی جی بنانے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی مقدر بننے سے کچھ فاصلے پر کھڑی سندھ حکومت کا مذاق اڑاتی رہی۔ اقبال محمود جب انسپکٹر جنرل آف سندھ پولیس کی کرسی پر بیٹھے تو انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کی کرسی کے چاروں پائے ڈوریوں سے بندھے ہوئے ہیںاور انہیں ہلانے والے ''جمہوری چیمپئن‘‘ اورسیاسی بازی گر ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ زر، زن، زمین دنیا میںفساد کی جڑ ہیں۔ اقبال محمود کے معاملے میں ناراضگی کا سبب زربنی۔ محکمہ پولیس کے لئے بکتر بند گاڑیوں اور دیگر ساز و سامان کی خریداری کے لئے رکھے گئے ساڑھے5ارب روپے پرطاقتور شخصیت کی نظر پڑ گئی۔۔۔۔ پھر کیا۔۔۔۔ اس کے فرنٹ مین نے 3مختلف کمپنیوں کی معرفت سندھ پولیس کو وہ بکتر بند گاڑیاں خریدنے کے لئے دبائو ڈالا جو سربیا کی ہیں۔ ان گاڑیوں کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں استعمال کی گئی ان گاڑیوں کو ری ڈیزائن کرکے سندھ پولیس پر تھوپنے کی کوشش کی گئی۔ اقبال محمود نے جب اعتراض کیا تو ان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ کمیٹی بنا کر یہ خریداری کریں۔ اقبال محمود صاحب نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، انسپکشن ٹیم تو بنائی لیکن اپنی طرف سے سینئر ڈی آئی جی بشیر میمن کو بھی اس کا ممبر بنادیا۔ بشیر میمن کے بارے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ وہی ڈی آئی جی ہیں‘ جب ٹھٹھہ کے شیرازی گروپ کے خلاف118 مقدمات قائم کئے گئے تو سندھ ہائی کورٹ نے تفتیش جن کے سپرد کی تھی اور بشیر میمن صاحب نے تمام مقدمات جعلی قرار دیتے ہوئے صرف5مقدمات پر میرٹ کی مہر لگائی تھی۔ اس ایمانداری کے صلے میں بشیر میمن کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ کی مہربانی تھی کہ دوبارہ کرسی نصیب ہوئی۔ بھارت بھی کرپٹ ممالک میں شامل ہے، وہاں بھی کرپشن ہوتی ہے لیکن ان کے اور پاکستانی فارمولے میں ایک فرق ہے۔۔۔۔ بھارتی سیاستدان سب سے پہلے اشیاء کی خریداری کرتے ہیں اور پھراپنا کمیشن مانگتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان سب سے پہلے کمیشن طے کرتے ہیں، باقی ماندہ رقم میں بکتر بند کی جگہ سائیکل جتنے پیسے بھی بچ جائیں تو وہ یہ تک نہیں پوچھتے ''اس کا میڈ اورماڈل کیا ہے ؟‘‘ ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے میں امریکی بکتر بند گاڑی بآسانی دستیاب ہے لیکن روسی بکتر بندگاڑی 15 سے 20کروڑ روپے میں خرید کر پاکستانی عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر ایک اور ڈاکہ مارنے کی تیاری اب بھی جاری ہے۔
اقبال محمو دکے اختلافات پولیس یونیفارم کی خریداری سے شروع ہوئے۔ 52 کروڑ روپے مالیت کی وردی، جوتے، بنیان، موزے، شرٹس اور دیگر اشیاء کے بارے میں جب ''مال بنانے‘‘ کی اطلاعات اقبال محمود کو ملیں تو انہوں نے تفتیش سینئر ڈی آئی جی بشیر میمن کے حوالے کی۔۔۔۔ پھر کیا تھا محکمہ پولیس میں کھلبلی مچ گئی۔۔۔۔ کمیشن کھانے والے افسران نے اقبال محمود پر سیاسی دبائو ڈالنے کی کوشش کی، بکتر بند گاڑیوں کی خریداری اختلافات عروج پر پہنچنے کی وجہ بنی اورآئی جی کے عہدے کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھونکی گئی جب انہیں یہ ''آرڈر‘‘دیاگیا کہ پولیس میں نئی بھرتیوں کی فہرست وزیراعلیٰ ہائوس سے آئے گی جس پر انہوں نے ایک بار پھر ''اسٹینڈ‘‘لے لیا اور سینہ ٹھونک کر کہا:'' بھرتیاں میرٹ پر ہوں گی‘‘ جس پرانہیں جبری رخصت پر بھیجنے کی کوشش کی گئی اور7جولائی کو''نومور‘‘کاایک نوٹیفکیشن جاری کردیاگیا کہ اقبال محمودکی ذمہ داری وفاق کے حوالے کردی گئی ہیں۔ اقبال محمود، ملک نوید نہیں بننا چاہتے تھے۔ سابق آئی جی خیبرپختونخواہ ملک نوید بھی اسلحہ کی خریداری میں خوردبرد پرتاحال نیب کی تحویل میں ہیں لیکن ایمانداری کاایسا صلہ شاید ہی کہیں ملے۔ جاپان میں تو ایک وزیر کرپشن کا الزام لگنے پربھری پریس کانفرنس میں زاروقطار رونے لگا تھا۔ اس سے صرف ایک سوال پوچھا گیا کہ''آپ نے تین ملین ین کی رقم کا غلط استعمال کیوں کیا؟‘‘ ہمارے یہاں ایسا سوال کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا کیونکہ سامنے والا کوئی ایماندار جاپانی وزیر نہیں ہوتابلکہ جاگیردارنماحکمران ایسے سوالات قہقہے میں اڑانے کے ''عادی مجرم‘‘ہوچکے ہیں۔ ہماری اور جاپان کی ترقی کے درمیان صرف یہی فرق ہے۔
پاک فوج اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن''ضرب عضب‘‘ میں دہشت گردوں سے لڑائی میں مصروف ہے۔کراچی میں بھی ایک آپریشن جاری ہے۔۔۔۔ وزیراعلیٰ سندھ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ایک لاکھ متاثرین کراچی پہنچ چکے ہیں لیکن سندھ حکومت کی آئی جی کے عہدے کے لئے ایسی ''رسہ کشی‘‘جاری ہے کہ لگتا ہے عہدہ آئی جی کا نہیںسندھ کے وزیر اعلیٰ کا ہے۔ذاتی مفادات، ملکی مفادات پر کس طرح حاوی ہوتے ہیں، اس کا اندازہ صرف سندھ حکومت کی جمہوریت اور خود مختاری کو دیکھ کر ہی لگایاجاسکتا ہے ۔
٭اب ایک اور ''بریکنگ نیوز‘‘۔۔۔۔ سندھ میں تو اس ''سینہ گزٹ‘‘ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ سندھ کے ایک وزیر‘ جواب وزیرنہیں بلکہ اس سے بھی اونچی پوسٹ پرموجود ہیں،آج کل اپنے دوستوں کی محفل میں شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ''میرے گھر میں لگنے والی آگ میں تین ارب روپے کے نوٹ جل گئے‘‘۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جلنے والے نوٹوں کی تعدادتو بتارہے ہیں لیکن آگ سے بچ جانے والے نوٹوں کی تعداد نہیں بتلارہے۔۔۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ نوٹوں کی اصل تعداد وہ خود بتاتے ہیں یا طاہر القادری کے انقلاب سے ملتے جلتے کسی اور انقلاب کے بعد سرکاری پریس نوٹ میں اصل نوٹوںکی تعداد پتہ چلے گی۔