مارچ‘ دھرنے اور احتجاج کی سیاست کبھی نقصان دہ ہوتی ہے تو کبھی فائدہ مند۔ نقصان عوام کو پہنچتا ہے یا پھر حکومت کو اور کبھی کبھی حکومتیں بھی اپنی جگہ سے ''ہل ‘‘ جاتی ہیں اور عوام کا کچھ ''فائدہ‘‘ ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان پاکستان کی سیاست میں بھونچال لاچکے ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف کو ڈیڑھ سال بعد اچانک قوم یاد آگئی اور انہوں نے خطاب کے ذریعے اپنی مشکلات کم کرنے کی کوششیں کیں جو کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں۔
انقلاب اور آزادی مارچ اور پارلیمانی جمہوریت اور خاندانی بادشاہت کے حق اور مخالفت میں دلائل دینے والوں سے کیا کراچی یہ سوال کرسکتا ہے کہ اُس نے پاکستان کو کیا دیا اور پاکستان نے کراچی کو کیا ''عنایت‘‘ کیا؟۔۔۔۔۔ چلیں اس سوال کوبھی نظر انداز کردیتے ہیں ایک اور سوال پوچھتے ہیں کہ اہلیانِ کراچی کو کوئی یہ بتا دے کہ 60سال میں قومی آمدنی میں کراچی کا کتنا حصہ بنتا تھا؟ کتنے ہزار ارب روپے کراچی نے قومی خزانے کو دیئے اور قومی خزانے نے جواباً کیا دیا؟کس نے ''ڈنڈی‘‘ ماری؟کس نے چُھری چلائی؟کس نے ہاتھ ''صاف‘‘ کیا؟ اور کس نے چپکے سے کتنی رقم ایک اکائونٹ سے نکال کر دوسرے اکائونٹ میں ڈال لی ؟کراچی تو تھر کے قحط زدہ‘ کمزور اور نحیف اس بچے کی تصویر بنا ہوا ہے جسے وٹامن اے ‘بی‘سی سمیت ہر قسم کے ''ٹانک‘‘کی ضرورت ہے۔ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری‘ لوڈشیڈنگ اورڈکیتیوں نے اسے کُبڑا بنا دیا ہے۔ جو شہر ٹھیک سے چل پھر نہیں سکتا وہ انقلاب میں شرکت کیسے کرے گا؟
اسلام آباد اور لاہور کے حالات دیکھ کر تو لگتا ہے حکومت اب گئی کہ تب گئی لیکن کراچی کی صورت حال یہ ہے کہ یہاں اب تک صرف تاجربرادری یہ سمجھ رہی ہے کہ حکومت آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی سٹاک ایکسچینج روز بروز نیچے جارہی ہے۔ اہلیانِ کراچی بیک وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ''مالیاتی بخل‘‘ کا شکار ہوگئے ہیںنہ وفاق پیسے دیتا ہے نہ ہی صوبہ۔ کراچی نہ تو اقتدار پر قبضہ مانگتا ہے نہ ہی اقتدار کو گرانا چاہتا ہے۔ یہ تووہ بدقسمت شہر ہے جسے سب سے زیادہ قیمت چکانے کے باوجود بھی امن نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے حق خود ارادیت کا عالم یہ ہے کہ انتظامی جعلسازی نے اسے ''یرغمال‘‘بنا رکھا ہے اس لئے سید ایسوسی ایشن سندھ کا فرمان ہے کہ اس صوبے کا وزیراعلیٰ صرف دیہی علاقے سے اور سید ہوگا۔ سندھ کے وزرائے اعلیٰ کی تاریخ دیکھ لیں تو یقین بھی آجائے گا۔ پاکستان کے کسی اور شہر کے ساتھ ایسانہیں ہوتا کہ شہری علاقے کا کوئی شخص صرف اس بنیاد پر وزیر اعلیٰ نہ بن سکے کہ وہ'' شہری‘‘ہے کراچی تو ایسا شہر ہے کہ اس پر نوحہ لکھنے والا بھی کوئی نہیں اور آج کا کراچی میر انیس اور مرزا دبیرکا منتظر ہے کہ دکھ بانٹنے سے کم ہوتے ہیں۔ سیاست تو امراء اور رئوساکی ''عیاشی ‘‘اور پیٹ بھرے لوگوں کا'' کھیل‘‘ ہے۔ ہمارے ملک کے ''عقلی دولت‘‘ سے مالا مال دانشور یہ نہیں سوچتے کہ کراچی ملک کا معاشی ہب ہے لیکن لوڈشیڈنگ‘ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری اسے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کے فنڈز روک کر پوری کر رہی ہیں لیکن کراچی کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ماضی قریب کی تمام جمہوری حکومتی اپنی مدت پوری کرچکی ہیں اس کی تازہ مثال آصف زرداری ہیں جن کی حکومت نے ناصرف 5سال پورے کئے بلکہ طاہر القادر ی کی اسلام آباد میں تین دن تک''بھرپور‘‘ مہمان نوازی
کی۔ ان کے تمام مطالبات پر لبیک کہا اور جب وہ وہاں سے چلے گئے تو پھر آصف زرداری بھی بھول گئے کہ کوئی اپنے مطالبات منوانے آیا تھا‘ آخر نوازشریف کی حکومت ایسا کیا کرتی ہے کہ پہلے دو اڑھائی سال اور اب صرف سال سے ڈیڑھ سال کا عرصہ بھی حکومت کرنا انتہائی مشکل ہوجاتاہے۔ حکومت نے جو اقدامات طاہر القادری اور عمران خان کوروکنے کیلئے کیے ہیں اگر وہ نہ کئے جاتے تو معاملات بڑھنے سے روکے جاسکتے تھے۔ پنجاب حکومت نے راستے روک کر صورتحال کو گمبھیر کیا‘ پٹرول کی سپلائی معطل ہوئی۔ پنجاب سے کراچی کو خام مال کی فراہمی بند ہوئی۔ کراچی کے تاجروں کے اربو ں روپے پنجاب کے سرمایہ کاروں نے روک لئے۔ فیصل آباد کا ڈرائی پورٹ بھی بند ہوگیا‘ غرضیکہ پورا پنجاب ''جام ‘‘ ہوگیا۔۔۔۔۔لیکن یہ سب کچھ انقلاب اور آزادی مارچ کی وجہ سے نہیں ‘حکومتی اقدامات کی وجہ سے ہوا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی جانب سے تخت لاہور کے تمام امور اپنے ہاتھ میں لئے جانے کی خبریں بھی گرم ہیں۔ چوہدری نثار صاحب قومی سلامتی کانفرنس میں تو نہ آئے لیکن پنجاب پولیس اور وہاں
کی بیوروکریسی کو احکامات دینے لاہور پہنچ گئے اور ان کے برابر میں بیٹھے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف احکامات جاری ہوتے ہوئے اپنی ''گناہگار‘‘ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ۔
پورے ملک میں آگ لگی ہو۔ افراتفری کا عالم نظر آرہا ہو۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار پورے منظر نامے سے غائب ہیں لیکن خفیہ طور پر طاہر القادری کی گرفتاری کے احکامات کس نے جاری کئے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ان کے اس عمل کے بعد خفیہ اداروں کی جانب سے جس ردعمل کا خدشہ ظاہر کیا گیا تووہ احکامات ''انتہائی ادب‘‘ کے ساتھ واپس لے لئے گئے۔ عام تاثریہ ہے کہ موجودہ حکومت اتنی آسانی سے جانے والی نہیں یا تو ''فرشتے‘‘اپنا کمال دکھائیں یا پھر خفیہ ہاتھ اپنا ہاتھ دکھائے۔ عمران خان کی زبان میں یہ حکومت پارلیمانی ڈکٹیٹرشپ قائم کرچکی ہے۔ نوازشریف اور شہباز شریف ملک کے دو اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ ایک کے پاس پورا ملک ہے تو دوسرے کے پاس پورا صوبہ۔ لیکن ان کی معاملہ فہمی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دونوں بھائی بجلی کے دو تاروں کی طرح ہیں ایک گرم ہے تو دوسرا ٹھنڈا۔ اسلام آباد کے حلقوں میں یہ بات کافی عرصے سے زیر گردش ہے کہ دونوں بھائیوں میں ''اختلافات‘‘ ہیں اور سائنس کے طالبعلم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ گرم اور ٹھنڈا تار اگر آپس میں ٹکرا جائیں تو کیسا ''دھماکا‘‘ ہوتا ہے۔