کتنے آدمی تھے...؟؟یہ جملہ مشہور زمانہ فلم ''شعلے ‘‘کا ہے جسے دو بڑے رائٹرز سلیم خان اور جاوید اختر نے مل کر لکھا تھا۔ اس جملے کی گونج آج کراچی کی ہرگلی‘ محلے‘ چوراہے کے قہوہ خانوں سے نائی کی دکانوں تک سنائی دے رہی ہے۔ کراچی کے ہر دوسرے شہری کی زبان پر یہی جملہ ہے...لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ''طاہر القادری کے انقلاب میں کتنے لوگ تھے؟ ...عمران خان کی آزادی کا کتنے افراد نے ساتھ دیا؟کس کا دھرنا بڑا تھا ؟کس کی تقریر اچھی تھی؟کسی نے کہا ''عمران خان تو اسٹیج پر سوگئے‘‘ تو کسی نے کہا‘ طاہر القادری کی گاڑی کو حکومت نے جام کردیا اور وہ پیدل جلسہ گاہ آتے ہیں۔ ایک اسلام آباد میں دو مارچ نے سب کی توجہ تقسیم ضرور کردی اور بالکل ایسا ہی ہوا کہ جیسے ''ایک ہی وقت میں دو فلمیں چل رہی ہوں‘‘۔ ایک کا اسکرپٹ جاندار تو دوسرے کی ہدایت کاری ... ایک کاگانا شاندار تو دوسرے کا کھانا مزیدار... ایک کی تقریر دھواں دار تو دوسرے کے نعرے لگاتار...مطلب آپ کے ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ ہو تو اس کے بٹن بھی'' دھرنو ں‘‘ کی نذر ہوسکتے ہیں۔ کراچی کے بیشتر شہریوں کا کہنا ہے کہ عوام کی پریشانی بجا ہے‘ وہ کس کو سنیں اور کتنا سنیں۔
کسی زمانے میں براہ راست (LIVE)کی اتنی اہمیت تھی کہ کرکٹ میچ کو بیشتر لوگ صرف اس لئے دیکھتے تھے کہ اسٹیڈیم میں جاری میچ ٹی وی پر کیسا نظر آتا ہے۔ اسی طرح بریکنگ نیوزایک ایسی خبر کو کہا جاتا ہے جو کسی شیڈول پروگرام کے دوران آجائے اور اس خبر کیلئے اس پروگرام کو درمیان سے توڑا (بریک)جائے تاکہ ناظرین تک تازہ ترین خبر پہنچنے میں کوئی دشواری نہ ہو‘ ایسی خبر کا اردو میں ترجمہ کیا جائے تو وہ ''توڑخبر‘‘ہونا چاہیے لیکن پہلی بار ایسا ہونے جارہا ہے کہ تمام ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز کے ٹینک جیسے ''ہتھیار‘‘کو بارباراستعمال کرکے اس کی اہمیت ایک ''خنجر‘‘جیسی کردی ہے۔ اب تو لوگ ''بریکنگ نیوز‘‘ پر چونکنا تو درکنار سُنی ان سُنی کردیتے ہیں۔ خبر کے ساتھ تبصرے‘ تجزیے‘ اندازے‘ دعوے‘ پیش گوئیاںایسے کی جارہی ہیں جیسے اسٹوڈیو میں بیٹھا شخص ''ڈرون کیمرے‘‘کے ذریعے اتنا باخبر ہو جتنا جائے وقوعہ پر موجود رپورٹراپنی ''گناہ گارآنکھوں‘‘ کے ذریعے بھی نہیں۔
کراچی میں تبصروں کی صورتحال بھی موسم کی طرح تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ کوئی کہتا ہے ''نوازشریف کے دن پورے ہوگئے‘‘ تو کوئی شہباز شریف کو قربانی کا بکرا قرار دیتا ہے۔ کوئی عمران خان کے ''اسٹیمنا‘‘پر حیران ہوتا ہے تو کوئی طاہر القادری کے پیچھے اتنے عوام دیکھ کر پریشان۔
پاکستان کی آبادی 18کروڑ ہے لیکن ہر سیاستدان دعویٰ کرتا ہے کہ یہ 18کروڑ عوام اس کے ساتھ ہیں۔ جب الیکشن ہوتے ہیں تو اس کا ٹرن آئوٹ50فیصد تک بھی نہیں پہنچتا۔ اس کا مطلب یہ ہے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی نابالغ ہے یا ''خاموش‘‘؟۔ الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کہتے ہیں کہ عام انتخابات میں تقریباًساڑھے چار کروڑووٹ ڈالے گئے یعنی کل آبادی کا ایک چوتھائی۔ اب یہ دیکھا جائے کہ کس نے کتنے ووٹ لئے توپتہ چلتا ہے کہ ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ چوہترہزارایک سو ایک (14874104) ووٹ مسلم لیگ ن کو ملے تو پاکستان تحریک انصاف چھہتر لاکھ اناسی ہزارنوسو چون (7679954) ووٹوں کے ساتھ ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی کو ایک بار ''بھرپور‘‘اقتدار کے بعدانہترلاکھ گیارہ ہزار دوسواٹھارہ (6911218) ووٹوں کا ''انعام‘‘ ملا۔ انسٹھ لاکھ کے لگ بھگ ووٹ تو آزاد امیدوار لے اڑے اور ملک کی چوتھی بڑی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ چوبیس لاکھ چھپن ہزارایک سو ترپن (2456153) ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچی۔ جے یو آئی (ف)چودہ لاکھ‘ق لیگ بھی لگ بھگ چودہ لاکھ‘ فنکشنل لیگ پونے گیارہ لاکھ‘جماعت اسلامی پونے دس لاکھ اور اے این پی ساڑھے چار لاکھ ووٹروں سے اپنے انتخابی نشانات پر مہر لگوانے میں کامیاب رہیں۔ سیاستدانوں کے دعوئوں کے مطابق پوری قوم ان کے ساتھ ہے تو یہ اعدادوشمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پوری قوم کبھی کسی ایک جماعت کی حامی نہیں رہی۔ یہ اعدادوشمار اس الیکشن کمیشن کے ہیں جن کو عمران خان نہیں مانتے اور مسلم لیگ ن کے ووٹوں کو ''دھاندلی‘‘کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
عمران خان اور طاہر القادری کی تقریریں اتنی بڑی تعداد میں اس سے پہلے شاید ہی کسی نے سنی ہوں۔ دوپہر کے بعد ایک کے بعد ایک کرکے جو ''تقریری ریس‘‘شروع ہوتی ہے تو رات گئے تک پورا ملک ان سے ''فیض یاب‘‘ہوتا ہے... ڈرہے کہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے نمائندے بھی کہیں ''چھپ‘‘کر یہ تقاریر نہ سن رہے ہوں اور کچھ عرصے بعد یہ ریکارڈ بھی پاکستان کے ''نصیب‘‘ میں آجائے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ہر تقریر سابقہ تقریر سے زیادہ ''دھماکہ خیز‘‘ ہوتی ہے۔ اہلیانِ کراچی کو طاہر القادری کی ایک تقریر ضرور پسند آئی جس میں انہوں نے کراچی میںاغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا ذکر بھی کیا اور کراچی کی لاوارثی کا رونا بھی روتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کراچی میں ایسے واقعات ہوتے ہیں اورذمہ داری کوئی قبو ل نہیں کرتا‘ کوئی سدباب نہیں ہوتا‘ جب قانون کی حکمرانی نہیں تو ایسی جمہوریت کس کام کی؟
آخری اطلاعات کے مطابق عمران خان نے اپنا''استعفیٰ کارڈ‘‘بھی کھیل لیا ہے۔ قومی اسمبلی‘ پنجاب اور سندھ اسمبلی سے تحریک انصاف کے اراکین مستعفی ہوجائیں گے۔ اس کے بعد کیا صورتحال بنے گی‘ یہ تو وقت بتائے گا لیکن ''نمبرگیم‘‘ یہ کہتا ہے کہ قومی اسمبلی سے 34‘ خیبرپختونخوااسمبلی سے 46‘ پنجاب سے 29‘ سندھ سے 3نشستیں خالی ہوجائیں گی۔ اس طرح کُل 112نشستیں خالی ہوجائیں گی۔
ہمارے ملک کے دانشورکہتے ہیں جس معاملے کو تاخیر کا شکار کرنا ہو اس پر کمیٹی اور جس کا کوئی نتیجہ نہ نکالنا ہو اس پر کمیشن بنا دیا جاتا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری سے مذاکرات کیلئے کمیٹیاں بنادی گئی ہیں‘ جو ان سطور کے لکھے جانے تک اپنی ''منزل مقصود‘‘تک نہ پہنچ سکیں۔ شاید وہ بھی لانگ مارچ کرتی ہوئی 38سے 40گھنٹے میں پہنچیں۔ لیکن پھر نتیجہ کیا ہوگا ؟وہ ہمارے دانشور پہلے بتا چکے ہیں۔
اہلیانِ کراچی اندرونی طور پر خوش ہیں کہ ہنگاموں‘ جلائوگھیرائو اورہڑتالوںکی جو مزیدار''بریانی‘‘ہم روز کھاتے ہیں‘ اب اس سے ملک کا وہ حصہ بھی'' فیض یاب‘‘ ہو رہا ہے جو اس کے ذائقے سے بھی ناآشنا تھا۔ کراچی سے جب وفاقی دارالحکومت'' کھینچ‘‘کر اسلام آباد لے جایا گیا تو یہ کہا گیا کہ ہم شورشرابے اور ہنگامے سے دور جارہے ہیں اور کم آبادی والے شہرمیں حکمران سکون سے ''کاروبارِحکومت‘‘ چلا سکیں گے۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ ''ایجیٹیٹرز‘‘ بھی اسلام آبادپہنچ گئے ہیں اور ''کمیشن ایجنٹ‘‘ بھی‘ اور جب ''منڈی‘‘ کُھلتی ہے‘ شوروغل تو ہوتا ہے‘ چاہے وہ موسیقی کی مدھرآواز ہو یا کان کے پردے پھاڑدینے والی چیخ پکار‘ پسندیدہ نعرے ہوں یا ناپسندیدہ تقاریر۔ اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط لیکن سچ یہ ہے کہ ''جمہوریت گھرِ ی ہوئی ہے تماش بینوں میں‘‘۔
ایوب خان ایک ڈکٹیٹر تھا۔ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا‘ لیکن ہر دو روز بعد ایک نئے کارخانے کا افتتاح بھی ہوتا تھا۔ وہ بھاری صنعتیں اس تیزی سے لگارہا تھا جیسے کوئی لوئر مڈل کلاس کا شخص چنگ چی رکشہ خرید رہا ہو۔ ایوب خان نے صنعتوں کا جال بچھا کر روزگار پھیلایا۔ ہمارے حکمران بھی آج یہی کررہے ہیں لیکن فرق اتنا ہے کہ وہ ایک دن میں تین کارخانے بندکررہے ہیں۔ وہ صرف روزگار ہی نہیں بلکہ منہ سے نوالا اور بچوں کے دودھ کا پیالہ بھی چھین رہے ہیں اور غالب کی طرح ''قرض کی مے پیتے ہیں‘‘ اور فخر سے سینہ پھلاکر کہتے ہیں۔ رنگ لائے گی ہماری ''فاقہ بستی‘‘ ایک دن۔ ہماری اس فاقہ بستی نے تو بستی کی بستی ہی اجاڑدی۔ اب لانگ مارچ سے کسی کو خطرہ ہو یا نہ ہو لیکن خوشحال اور دولتمند لوگ جس طرح پاکستان سے بھاگ رہے ہیں‘ اِس ''شارٹ مارچ‘‘نے ہماری لنگڑی لولی معیشت کو خطرے میں ضرور ڈال دیا ہے۔
صرف 6ماہ میں دبئی کے اندر پراپرٹی کے شوقین پاکستانی سرمایہ کاروں نے 4ارب 50کروڑ درہم(121ارب پاکستانی روپے)کی جائیدادیں خریدیں۔ پاکستان کے معاشی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ ایک ارب روپے کے کاروبار سے چھ ہزار افراد کو مستقل روزگار ملتا ہے۔ اس طرح 7لاکھ 26ہزار لوگوں کا روزگار ''چُپ چاپ ‘‘ پاکستان سے دبئی منتقل ہو کر منجمدہوگیا۔ سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی کی یہ خبر دبئی حکومت کے لینڈ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے جاری کی گئی ہے۔ اس میں وہ اعداد و شمار شامل نہیں ہیں جو اُن افراد نے وہاں پر رہائش ‘گھر کی سجاوٹ‘ تعلیمی اداروں کی فیسوں‘ صحت اور نوکروں چاکروں پر خرچ کئے۔ اس میں وہ اعدادوشمار بھی شامل نہیں جو دبئی کے علاوہ شارجہ‘ ابوظہبی‘ العین‘ الفجیرہ‘ عجمان‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ کویت‘ لندن‘ تھائی لینڈ‘ چین اور ہماری معیشت کو ''وہیل مچھلی‘‘ کی قوت سے ہڑپ کرنے والے ملک ملائیشیاکے بارے میں ہیں۔
ہمارا ملک اقتصادی طور پر تباہ ہورہا ہے۔ اس کا خون نچوڑا جارہا ہے لیکن ملک میں کرسی کا ''گندا دھندہ‘‘ آب وتاب کے ساتھ جاری وساری ہے۔ جب ملک میں دولت مند ہی نہیں بچے گا تو دولت کہاں سے آئے گی؟اور جب دولت ہی نہیں ہوگی تو پورا ملک بلوچستان کی ''فوٹوکاپی‘‘ بن جائے گا۔ کراچی والے یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں اور اللہ سے رحم کی دعائیں کررہے ہیں لیکن اسلام آباد میں تماشہ لگا ہوا ہے ...اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے۔