متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کراچی کے مسئلے کو مقامی پولیس سے مشروط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''چور اور سپاہی دونوں باہرکے ہیں‘‘۔ میں نے اپنے ابتدائی کالم میں اسی مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی کہ... ''اجنبی‘‘ پولیس جرائم کی جڑ سے ''آشنا‘‘نہیں ہوسکتی۔
پوری دنیاکا مسلمہ اصول ہے کہ پولیس مقامی ہوتی ہے۔ انگریزوں نے غلام ہندوستانیوں پر ظلم کرنے کے لئے ''اجنبی‘‘پولیس بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ چونکہ گورے انگریز جاتے جاتے ''کالے انگریز‘‘چھوڑگئے ، اس لئے ''اجنبی پولیس‘‘ کی روایت بھی برقرار ہے اور باہر کی پولیس اندرکے لوگوں کے ساتھ ''دو دو ہاتھ‘‘کررہی ہے۔۔۔۔یہ ''ظالمانہ اسٹائل‘‘ مقامی لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لئے ''کارگر‘‘سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے صوبوں میں جیسے بھی ہو سکا مقامی پولیس تعینات کروالی گئی لیکن کراچی اب تک مقامی پولیس کی آئینی سہولیات حاصل نہیں کرسکا ۔آئین یہ تحفظ دیتا ہے کہ گریڈ 16تک کے ملازم اسی ڈویژن کے ہوںگے لیکن ہمارے حکمران آئین کی صرف انہی شقوںکو نافذکرتے ہیں جس میں ان کا سیاسی فائدہ ہو اور عوام پر قابض ہونے کے بھرپور مواقع ضائع نہ ہوسکیں۔
اہلیانِ کراچی کو تو وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو کسی غیر ملکی حکومت نے اپنے محکوموں کو دے رکھے ہیں۔ ہم ہمیشہ محکوموں کے لئے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن کراچی کے عوام تو اس لفظ کا مفہوم معلوم کرنے کا ارادہ بھی نہیں کرسکتے۔ حکمران کہتے ہیں کہ اقتدار میں حصے کا نام بھی نہ لو اور لوگ ان دھمکیوں پر چپ سادھے ‘دم دبائے خاموش ہوجاتے ہیں۔ عمران خان بھی آزادی کی تحریک اپنے پسندیدہ علاقوںمیں چلا رہے ہیں جبکہ انہیں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے اس مطالبے کی حمایت کرنی چاہیے۔ 15سے20سال قبل سندھی ہاری اور عوام جاگیرداروں کے غلام تھے، اب یہ جاگیردارجمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر کراچی کو '' فتح‘‘ کررہے ہیں۔ اسی کام کے لئے ''اجنبی پولیس‘‘ تعینات کرنے کا عمل زوروشور سے جاری ہے جس کاسب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ غیر مقامی پولیس چونکہ ''اجنبی‘‘ہوتی ہے اس لئے وہ راستوں ‘ علاقوں ‘ گلیوں ‘ چوراہوںاورشاہراہوںسے ناواقف اور جڑوںسے محروم ہوتی ہے۔
کلچر کا ٹکرائو بھی اسی عمل کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے جرائم پیشہ افراد گلیوں اور بستیوں میں گم ہو جاتے ہیں اور ٹیکس ادا کرنے والے قانون پسند شہری ''غیر محفوظ‘‘رہتے ہیں ۔2 سال قبل لیاری میں چوہدری اسلم نے جب آپریشن کیا تو پولیس ''چیل چوک‘‘ سے آگے نہیں جاسکی جس کے بعد اعلانیہ کہا گیا کہ ''ہمیں اندر جانے کے راستے اور گلیوںکا علم نہیں‘‘اس لئے وہ آپریشن دو چوراہوں تک محدود رہا اور پولیس کو مطلوب افراد اپنے ''راستوں‘‘ سے بآسانی فرار ہوگئے۔ آج بھی اس آپریشن کی مثال ناکام ترین آپریشن کے طور پر دی جاتی ہے۔کراچی میں آج بھی پولیس ڈھائی سو سے زیادہ آبادیوں میں داخل نہیں ہوسکتی اور وہ علاقے ان کے لئے نو گو ایریاز بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان کا سب سے زیادہ پڑھالکھا شہرکراچی دن رات قومی خزانے کو بھرنے میں مصروف ہے ، لیکن وفاق اسے ترقیاتی فنڈ دیتا ہے نہ خوبصورت پارک و جدید تفریح گاہیں۔ یہ شہر تو اللہ کی دی ہوئی ایک تفریح گاہ سمندر پرگزارا کرکے اللہ اللہ کر رہا ہے۔ کراچی کو اردو کالج کے لئے رقم بھی نہیں ملتی اور نہ ہی موٹروے اور سرکلر ریلوے کی قسمت جاگتی ہے۔انتہا یہ ہے کہ پورے ملک کی ''خدمت ‘‘میں مصروف اس شہرکو اپنی خدمت کے لئے اپنی پولیس بھی نہیں دی جارہی۔ ایک باغبان بھی یہ سمجھتا ہے کہ پھل دینے والے درخت کو کھاد نہ ڈالو تو ایک دن سب لوگ اس درخت کی نعمت سے محروم ہوسکتے ہیں جبکہ کراچی توکھاد بھی نہیں مانگ رہا، وہ تو کہتا ہے صرف مٹی ڈال دوپانی چھوڑ دو۔
آج کل کراچی میں ایک ایس ایم ایس انتہائی مقبول ہے کہ '' لاہورکے لئے میٹرو بس اور میٹرو ٹرین اورکراچی کے لئے میٹرو اگربتی اور میٹرو چھالیہ ؟ واہ حکمران تیری دغا بازیاں! ‘‘ یہ ایس ایم ایس طنز نہیں بلکہ اس میں ایک نوحہ چھپا ہے جو دکھ کی نہ ختم ہونے والی داستان چیخ چیخ کرسنا رہا ہے۔کراچی کے ساتھ ایسا سلوک سخت تکلیف دہ ہے لیکن اپنے ہی غافل ہوجائیں تو فریاد کس سے کی جائے اور التجا کا مرکز کون ہو؟ یہ تو وہ شہر ہے جس کو یہ بھی معلوم نہیںکہ اپنی درخواست میں مخاطب کوکس نام سے لکھے اور پکارے؟دودھ دینے والی گائے کو دھتکارنے اور لتاڑنے کا عمل جاری رہا تو اس کے دودھ کے حق دارکا دعویٰ کب تک کیا جاتا رہے گا؟ اس طرح کی ناانصافیاں علیحدگی کی تحریکوں کو جنم دیتی ہیں۔ خود پاکستان کی ابتدائی تاریخ اور تخلیق
پاکستان کے اسرار ورموز سے پردہ اٹھایا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ ملک مذہب اور معیشت کی بنیاد پر بنا۔ ہمیں ملک کو مستحکم کرنے کے لئے نہ صرف تاریخ ِ پاکستان کے اسباب کو پڑھنا چاہیے بلکہ خالد مقبول صدیقی کے بیان کے اس حصے پرکئی بار غورکرنا چاہیے کہ ''کراچی میں چور اور سپاہی دونوں باہرکے ہیں‘‘۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک بار اپنے تجزیے میں بتایا تھا کہ کراچی میں ہونے والے تمام قتل غیرمقامیوںکے آپس کے تنازعات کی وجہ سے ہوتے ہیں جبکہ پوری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ کراچی میں درندے رہتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کا جائزہ لیا جائے تو فرقہ واریت کے سوا کہیں بھی قتل ہونے والوں کا کوئی تعلق کراچی سے نہیں بنتا۔
سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم نے کراچی کے مسائل کوحل کرنے کے لئے مسعودالرحمن کمیشن بنایا تو اس نے اپنی رپورٹ میں لکھاکہ کراچی میں پولیس مقامی ہونی چاہیے جس کے بعد اس رپورٹ پر عمل ہوناتو دور کی بات‘ وہ رپورٹ ہی سرکاری لائبریری سے ''غائب‘‘ کردی گئی اور یہ سوچ لیا گیا کہ شاید مسعود الرحمن کمیشن رپورٹ کی طرح یہ بات بھی دب جائے گی لیکن اب مقامی پولیس کا مطالبہ پھر شروع ہوچکا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب اس مطالبے میں شدت آجائے اور ارباب اختیارکراچی کو اس کی اپنی پولیس دینے پر مجبور ہوجائیں۔