پاکستان کی سیاست میں ''معجزے‘‘بہت کم ہوتے ہیں۔ ملکی سیاست وہی بے ڈھنگی چال چل رہی ہے لیکن گزشتہ اتوار کو کراچی میں عمران خان نے ایک ساتھ دو ''معجزے‘‘ کر دکھائے۔ اول‘ انہوں نے 39روزہ دھرنے کا سب سے بڑا ''میچ‘‘کراچی میں کھیلا اور بہت بڑا جلسہ کر دکھایا۔ دوسرہ‘ معجزہ یہ ہوا کہ وہ چپکے چپکے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ''مہمان‘‘بن کر آئے اور فاتحانہ انداز میں واپس اسلام آباد چلے گئے۔ الطاف حسین نے عمران خان کیلئے جس کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا‘ کراچی کی تاریخ میں اس کی مثال مِلنا مشکل ہے۔
کراچی کا دل بہت بڑا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا مزار قائد پر کامیاب جلسہ دیکھ کر ثابت بھی ہوگیا کہ کیسا شہر ہے یہ؟ ہر سیاسی جماعت کا بانہیں پھیلا کر استقبال کرتا ہے۔ ایم کیو ایم تو جلسے کرتی ہی رہتی ہے لیکن پرویز مشرف ہوں یا مولانا فضل الرحمن‘ اسی شہر میں کامیاب جلسے کرچکے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی دل کھول کر داد دیتا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے نہ صرف عمران خان کو خوش آمدید کہنا بلکہ جلسے کی پیشگی مبارکباد دینا‘ عکاس ہے اس بات کا کہ الطاف حسین عوام کا موڈ رات کو ہی دیکھ چکے تھے۔ کراچی میں عام طور پر خواتین تفریح گاہوں اور بازاروں میں تو نظر آتی ہیں لیکن سیاسی جلسوں میں ان کی شرکت کم ہی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے جلسے میں کئی لوگ خاندانوں سمیت آئے تھے‘ جن میں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے‘ لیکن خواتین کی تعداد بہت زیادہ تھی اور کئی لوگ اسے خواتین کا جلسہ بھی قرار دے رہے تھے۔
کراچی میں یہ تاثر بھی پایا جارہا ہے کہ یہ جلسہ عمران خان کی ہی نہیں الطا ف حسین کی بھی کامیابی ہے‘ جنہوں نے اس نازک موڑ پر جب دونوں جماعتیں ''آمنے سامنے‘‘ تھیں‘ ایک ایسا بیان دیا جس نے پوری فضا بدل دی اور پھرگرجنے اور برسنے والے وزیراطلاعات و نشریا ت پرویز رشیدکاایک''منمناتابیان‘‘آیا کہ ''تحریک انصاف اور ایم کیو ایم میں مُک مکاہوچکا تھا‘‘۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پرویز رشید کی رندھی ہوئی آوازسن کر لگتا ہے کہ حکومت آخری سانسیں لے رہی ہے۔ پہلے تو عمران خان کو اکسایا گیا کہ وہ صرف اسلام آباد میں 40روز سے براجمان ہیں‘ کہیں اور نہیں جاتے۔ جب کپتان نے اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی کا رخ کیا تو انہوں نے ''مُک مکا‘‘ کا الزام لگادیا۔ اب جب عمران خان لاہور جائیں گے تو پرویز رشید کیا الزام لگائیں گے؟ لاہور تو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ کیا پھر یہ کہا جائیگا کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں ''مُک مکا‘‘ہوگیا ہے؟
عمران خان کی شعلہ بیانی سے کسی کو انکار نہیں لیکن سیاست میں سولوفلائٹ مشکل سے اُڑتی ہے۔ عمران خان بڑے لیڈر ہیں۔ بڑے لیڈر کا دل بھی بڑا ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان‘ الطاف حسین کا شکریہ واشگاف الفاظ میں ادا کرتے۔ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ دونوں لیڈر ایک دوسرے کے قریب آسکتے تھے۔ ایم کیو ایم کو بھی چاہیے تھا کہ عمران خان کے استقبال کیلئے وفد ایئرپورٹ بھیج دیتے۔ کرکٹ کی زبان میں یہ مضبوط پارٹنرشپ بن جاتی۔ مسلم لیگ ن کے پاس ایسے ''بالرز‘‘ہی نہیںجو اسے توڑ پاتے۔ عمران خان کیلئے ایم کیو ایم کو قریب لانے کیلئے جو موقع ملا تھا وہ اب بھی ضائع نہیں ہوا۔ عمران خان لاہور کے جلسہ عام میں ایم کیو ایم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ملکی سیاست کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ کراچی میںکامیاب جلسہ پورے ملک میں ایک ''تحریک‘‘ کو جنم دیتاہے۔ عمران خان کو بھی کراچی کے جلسے نے آکسیجن فراہم کردی۔
اسلام آباد کے دھرنوں اور کراچی کے جلسے کے وزیر اعظم پر اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں‘ جس کا ثبوت پیر کے روز‘ وفاقی کابینہ کا اجلاس ہے‘ جس میں سرکاری ملازمتوں پرسے فوری طور پرپابندی اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ بے روزگاری کے خاتمے کی ''قسمیں‘‘ کھائی جاسکیں۔ عمران خان کی جانب سے بجلی کا بل جلائے جانے کے بعداس شعبے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے اورگزشتہ ماہ کے بجلی کے اضافی بلوں پر وزیراعظم کے مشیر کو ہدایات دے دی گئی ہیںکہ اضافی بلوں کو آئندہ ماہ ایڈجسٹ کیا جائے اور 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کا اگر بل زیادہ ہے تو اس سال زائد رقم واپس کردی جائے گی۔ ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر مزدور کی کم از کم 12 ہزار روپے تنخواہ کو بھی قانونی تحفظ دینے کا فیصلہ کیا گیااورخلاف ورزی کرنے والوں سے قانون کے مطابق نمٹنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا۔
عمران خان کے جلسے کا پیپلز پارٹی پر بھی اثر ہوا۔ سندھ حکومت کے ترجمان اوروزیر اطلاعات سندھ نے بھی آئو دیکھا نہ تائو‘ جھاڑواٹھائی اور سڑک پر نکل آئے۔ کراچی کے علاقے ٹاور میں خود جھاڑو دے کر صفائی مہم کا آغاز کیا۔ انہیں تجاوزات کے ساتھ گھوسٹ ملازمین سے نجات کیلئے اقدامات بھی یاد آگئے ۔
الیکشن کمیشن بھی نیند سے جاگ گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری شیرافگن کی سربراہی میں 16 رکنی کمیٹی کی دسمبر 2013ء میں مکمل ہونے والی رپورٹ 9 ماہ بعد خاموشی سے جاری کردی گئی۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ہر ریٹرننگ افسر اپنے طریقے سے 62 اور 63 کا اطلاق کرتا رہا۔ امیدواروں کی جانچ پڑتال کا عمل بھی غیر تسلی بخش قرار دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو بہت کم وقت ملا اورکئی انتخابی امیدوارں کو مناسب جانچ پڑتال کے بغیر کلیئر کر دیا گیا۔ سٹیٹ بینک‘ ایف بی آر‘ نادرا اور نیب نے مکمل تعاون نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن میں بنایا گیا سکروٹنی سیل بھی صحیح طریقے سے کام نہ کر سکا۔ یو این ڈی پی کی مدد سے تیار کردہ'' رزلٹ مینجمنٹ سسٹم ‘‘بھی ناکام رہا۔ چھپائی میں تاخیر کے باعث بعض حلقوں میں بیلٹ پیپرز دیر سے پہنچے۔ ریٹرننگ افسران کی بڑی تعداد نے نتائج ہاتھ سے بنا کر الیکشن کمیشن بھیجے۔ فارم 16 میں نقائص کے باعث ریٹرننگ افسران مذکورہ فارم خود بناتے رہے۔الیکشن کمیشن کی یہ رپورٹ بھی نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی حکومت کیلئے ''خطرناک‘‘ قرار دی جارہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ 9ماہ بعد رپورٹ کی خاموشی سے ''پیدائش‘‘کس کی غلطی ہے۔ ہم تو افغانستان سے بھی پیچھے رہ گئے جہاں دو صدارتی امیدواروں کا تنازع چند ماہ میں ہی حل کرلیا گیا لیکن پاکستان میں سواسال گزرنے کے بعد بھی دھاندلی کا جھگڑا جوں کا توں ہے اور یہ بھی متفقہ فیصلہ نہ ہوسکا کہ دھاندلی ہوئی بھی تھی یا نہیں!!