بھارت کی ایک خصوصی عدالت نے کرپشن کے 18 سال پرانے مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ اور سیاسی جماعت آل انڈیا این ڈی ایم کی سربراہ جے للیتا کو4سال قید اور ایک ارب روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔ 18 سال قبل ان کے خلاف آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کا مقدمہ دائر کیا گیاتھا۔ اب اُن کی ریاستی اسمبلی کی رکنیت ختم ہوگئی ہے اور وہ سیاست کیلئے نااہل بھی ہوگئی ہیں۔ جیارام جے للیتا بھارت کے ان مشہور مگر متنازع سیاستدانوں میں سے ہیں جن کی سیاسی زندگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔100سے زائد فلموں میں کام کرنے والی ماضی کی ہیروئن جے للیتا کوبے ایمانی سے 66 کروڑ بھارتی روپے سے زیادہ کے اثاثے اور املاک بنانے کا قصور وار پایا گیا۔ انڈونیشیا کے سابق صدر سوسیلو یودہویان کوریاست کے منصوبوں اور منی لانڈرنگ سے متعلق رشوت لینے کے الزام میںآٹھ سال قید اور تیس کروڑ روپے جرمانے کی سزا ہوئی۔ فرانس کے سابق صدرنکولس سرکوزی کو بدعنوانی کے علاوہ کئی دیگر عدالتی تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔ صدارت سے علیحدگی کے بعد سرکوزی سیاسی طور پر زیادہ سرگرم نہیں رہے اور ان کے خلاف دورِ صدارت میں کیے گئے اقدامات پر تحقیقات بھی جاری ہے۔ سابق فرانسیسی صدر پر ان ججوں پر دبائو ڈالنے کا الزام ہے جو ان کے معاملات کی تحقیقات کر رہے تھے۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن رہنما بیگم خالدہ ضیا کے خلاف ساڑھے چھ لاکھ ڈالر کی خورد برد کے دوکرپشن کیسوں کی سماعت جاری ہے۔ سابق وزیراعظم نے مرحوم شوہر ضیاء الرحمان کے نام پر قائم خیراتی ادارے کے کھاتوں میں چار لاکھ ڈالرکی خوردبرد کی۔ وکلائے استغاثہ کے مطابق جرم ثابت ہو جانے پر خالدہ ضیاء کو عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ سینیگال کے سابق صدر کے بیٹے پرکرپشن کا مقدمہ ہے‘ جس میں ان پر بدعنوانی کے ذریعے 24کروڑ ڈالرز کمانے کا الزام بھی ہے‘ جس کے حصول کیلئے انہوں نے مختلف کاروبار کیے۔ تمام پیسہ مناکو اور سنگاپور میں بنایا گیا۔
مذکورہ بالا تمام واقعات دنیا کے مختلف ممالک میں رونما ہوئے‘ کہیں سزا‘ کہیں جرمانہ‘ کہیں تحقیقات‘ لیکن پاکستان میں کرپشن کا یہ حال ہے کہ بعض حکمرانوں کیخلاف قتل اور اقدام قتل کے علاوہ دہشت گردی کے 3مقدمات سمیت نیب میں 143 مقدمات ہیں لیکن استعفیٰ مانگنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ غیر آئینی مطالبہ کررہے ہیں یعنی جس پر جتنے زیادہ مقدمات وہ اتنا ہی بڑا لیڈر۔ قومی احتساب بیورو نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن کیس بند کرنے کے بارے میں اطلاعات کوغلط اوربے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج تک وزیراعظم نواز شریف اوران کے خاندان کے کسی فرد کے خلاف ایک کیس بھی بند نہیں کیاگیا۔
سندھ میں بھی کرپشن ''جوبن‘‘ پر ہے۔ لیاری ایکسپریس وے پروجیکٹ میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کی کرپشن بارے ایف آئی اے کی تحقیقات جاری ہے۔ اس سلسلے میں ڈائریکٹر پروجیکٹ سمیت چھ سابق سربراہان‘ عملے اورڈیڑھ سو افراد کیخلاف کارروائی ہورہی ہے‘ جبکہ ایف آئی اے کو یہ بھی بتایا گیا کہ پروجیکٹ میں ڈائریکٹر کے تنازع پر ہونے والی چپقلش کے نتیجے میں 30ہزار متاثرین دربدر ہو گئے اور 27افراد کے عملے کو بھی اچانک تبدیل کر دیا گیا‘ جنہیں نئی تقرری بھی نہیں دی گئی اوران کی جگہ نئے لوگوں کو مختلف محکموں سے تبادلہ کر کے لایا جا رہا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ہزاروں متاثرین کی الاٹ شدہ فائلوں کا ریکارڈ غائب کر کے نئے سرے سے الاٹمنٹ کی جائے۔
سندھ میں کرپشن کا ایک تازہ کیس بینظیر بھٹو شہید کے نام پر سامنے آیا ہے‘ جسے منظر عام پر لانے میں پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی اور مرکزی رہنما شیر محمد بلوچ کا اہم کردار ہے؛ جبکہ پیپلز پارٹی ضلع ملیر کے ایک رہنما اصل جان مروت نے بلاول بھٹو زرداری‘ آصف علی زرداری اور وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے نام کھلا خط لکھ کر اس کرپشن کا بھانڈا بھی پھوڑدیا۔۔۔۔۔۔خط کے مندرجات کے مطابق شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نام سے نیشنل ہائی وے رزاق آباد کے قریب عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس تعمیر ہونے سے قبل ہی کرپشن کی نذر ہوگیا۔ مذکورہ میڈیکل کمپلیکس کا ٹھیکہ میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے منظور نظر ٹھیکیدار کو دیا گیا۔ اس میں ورک اینڈ سروسز کے بعض اہلکاروں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایس پی پی آر اے 2010رولز 14کے مطابق انتظامی منظوری کے بعد ٹینڈر دیا جاتا ہے لیکن مذکورہ افسران نے اپنے من پسند ٹھیکیدار کو ٹینڈر کے بغیر اور وقت سے پہلے 10جنوری 2013ء کو ہی ٹھیکہ دے دیا جو کہ ایک سنگین بے قاعدگی ہے۔ رولز10کے مطابق ٹھیکہ الاٹ ہونے کی پیشکشوں کی جائزہ رپورٹ اور کنٹریکٹ کا معاہدہ اتھارٹی کی ویب سائٹ اور ادارے کی ویب سائٹ پر شائع ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ قواعد کے مطابق بولی کے طریقے کار کا دورانیہ 90دن ہے جس کے بعد ٹینڈر منسوخ ہو جاتا اور پھر دوبارہ جاری کیاجاتا ہے لیکن مذکورہ پروجیکٹ میں5 ماہ 10دن گزرنے کے باوجود حکام کی بھرپور دلچسپی کے باعث ٹینڈر21مئی2013ء کو راتوں رات منظور کراکے22مئی کو ورک آرڈر بھی جاری کردیاگیا؛ جبکہ 23مئی کوڈھائی کروڑ روپے اور 26مئی کو ساڑھے 7کروڑ روپے کی ایڈوانس ادائیگی بھی ٹھیکیدارکو کردی گئی۔ 5جون 2013ء کو اہلکاروں نے محکمہ صحت کی معرفت پی اینڈ ڈی میںجھوٹی پروگریس رپورٹ جمع کرائی۔ جس میںمذکورہ بالا 10کروڑ میں سے پانچ کروڑ روپے میڈیکل کمپلیکس کی سائٹ پر اخراجات ظاہر کئے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سپرنٹنڈنٹ انجینئر اور ایگزیکٹو انجینئر کو نہ تو پروجیکٹ کی لوکیش کا علم تھا اور نہ ہی محکمہ ریونیو سے اراضی کا قبضہ حاصل کیا گیاتھا۔ مالیاتی سال 2013-14ء میں ٹھیکیدار کو مزید ساڑھے 13کروڑ روپے ادا کئے گئے جبکہ آج تک مذکورہ سائٹ پر قابل ذکر تعمیراتی کام نہیں ہوا۔ فنڈریلیز اور مختیار کار کی رپورٹ میںتصدیق کی گئی ہے کہ مذکورہ میڈیکل کمپلیکس کی اراضی خالی پڑی ہے اورکوئی تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام پرعوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اتنے بڑے فراڈ پر پیپلزپارٹی ضلع ملیر کے متعدد رہنما اور کارکنان کے ساتھ ساتھ شہری بھی سکتے میں ہیں۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ پروجیکٹ کو غیرقانونی طورپر اہم لوکیشن سے تبدیل کرکے گڈاپ کے ویرانوں میںمنتقل کرادیاگیا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلع ملیر اور ٹھٹھہ سمیت اطراف کے محنت کشوں اور غریبوں کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے مذکورہ میڈیکل کمپلیکس نیشنل ہائی وے نزد رزاق آباد تعمیر کرنا تھا؛ تاہم با اثر لینڈ مافیا گروہ محترمہ بے نظیر بھٹوکے خواب کی تعبیر میںرکاوٹ بن گیا۔ نیشنل ہائی وے کی قیمتی زمین کو ''قابل فروخت‘‘ بنانے والا بدنام زمانہ لینڈ مافیا گروہ ضلع ملیر‘ بن قاسم ٹائون‘ نیشنل ہائی وے اور سپرہائی وے سمیت دیگر علاقوں میںکھربوں روپے مالیت کی سرکاری اراضی پرقبضہ کرکے فروخت کرچکا ہے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے لیکن اس پر کسی نے کارروائی کی زحمت نہیں کی۔۔۔۔۔۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس پروجیکٹ کی منظوری تو دی لیکن ان کے بارے میں قائد ایم کیو ایم الطاف حسین کا اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ قائم علی شاہ ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے تک جاتے ہیں تو انہیں پتہ نہیں ہوتا کہاں جارہے ہیں۔