18 اکتوبر 2007ء کو کراچی میں سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے قافلے پر حملہ ہوا۔ یہ حملہ ان کی شہادت سے دو ماہ قبل ہوا۔ اس کے نتیجے میں 139 افراد ہلاک اور 450 کے قریب زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی تھی۔ یہ حادثہ اس وقت رونما ہوا جب محترمہ بینظیر بھٹو آٹھ سال بعد خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن آئیں۔ جلاوطنی کے دوران وہ دبئی اور لندن میں مقیم رہیں۔
سات سال بعد پھر18اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اُسی روز‘ اُسی وقت‘ اُسی جگہ جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔ اعلان ہوتے ہی پوری سندھ حکومت ''پیپلزپارٹی‘‘ بن گئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پوسٹرز‘ بینرز اور ہورڈنگز پورے شہر میں لگادئیے گئے‘ جیسے کوئی نئی فلم ریلیز ہونے والی ہے‘ جس کے ہیرو بلاول بھٹو زرداری‘ سائیڈہیروآصف علی زرداری اور ولن عمران خان اور طاہر القادری ہوں گے۔ بظاہر اس فلم کی ہیروئن نواز شریف نظر آرہے ہیں‘ جن کے ساتھ سائیڈ ہیروپیار محبت کی باتیں کرتے نہیں تھکتے لیکن ہیرو چونکہ اینگری ینگ مین اور ٹوئٹرکے ذریعے آگ لگانے کے چیمپئن ہیں‘ اس لئے کوئی بعید نہیں کہ نواز شریف اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین 18اکتوبر کو ان کی ''ہٹ لسٹ‘‘پر آجائیں۔ اب تک اس فلم کے نام اور رائٹر کا علم نہیں ہو سکا۔ کچھ ''دانشوروں‘‘ کا کہنا ہے کہ اس کے مصنف آصف زرداری ہیں لیکن میرا ان کی اس بات سے متفق ہونا ضروری نہیں؛ جبکہ یہ ایک ایسی فلم ہے جس کا نام اس کے کلائمکس(جلسے کے اختتام) پر ہی سب کو معلوم ہوگا۔
سیاست میں جلسے ہوتے ہیں‘ تقریریں بھی ہوتی ہیں اور
نعرے بھی لگتے ہیں۔ لیکن جب جلسے کا مقام کراچی ہو‘ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو‘ جلسہ بھی پیپلز پارٹی کا ہو‘ تو ہرذی شعور پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس جلسے میں کس کے خلاف تقریر ہوگی۔ یہ جلسہ حکومتی ہوگا یا اپوزیشن کا؟ کہیں اس میں سندھ حکومت کے خلاف ہی نعرے بازی تو نہیںہوگی‘ یا پھر مقبول زمانہ ''گونوازگو‘‘کا نعرہ یہاں بھی کسی جیالے کی زبان سے از خودیا ''پلانٹڈ‘‘نہ نکل جائے۔۔۔۔۔۔ایک پرانے جیالے سے بات ہوئی تو انہوں نے کہاکہ '' جلسے میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی کے بارے میں آگاہی اور مستقبل کے پلان کے بارے میں اہم اعلانات ہوں گے‘‘۔ کارکردگی لفظ پر چونکنا میرا بنیادی حق تھا لہٰذا میں نے پوچھ ہی لیا ''کون سی کارکردگی؟ گزشتہ ساڑھے6سال میں ایک سڑک نہیں بنی۔ پینے کاصاف پانی تو دور کی بات گندا پانی بھی ٹینکروں کے ذریعے ملتا ہے۔ کسی کے پاس کھانے کے لیے ایک وقت کی روٹی نہیں توکسی کے پاس روٹی کھانے کو وقت نہیں۔ کوئی اپنوں کے لیے روٹی چھوڑ دیتا ہے تو کوئی روٹی کے لیے اپنوں کو چھوڑدیتا ہے۔ کوئی سرکاری سکول اس قابل نہیں کہ اس میں پڑھا جاسکے‘ تو کسی ''قابل‘‘ سرکاری سکول کے تمام اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہ لیتے ہیں۔67فیصد ریونیو دینے والے شہر کی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ملازمین کو عید سے قبل تنخواہیں تک ادا نہیں کی جاسکیں۔ آئین کہتاہے کہ ہرضلع میں ایک سول ہسپتال ہونا چاہیے لیکن کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جہاں ملیر ضلع تو بنایاگیا لیکن 5اضلاع پر مشتمل شہر
میںسول ہسپتال آج بھی ایک ہی ہے۔ قبضہ مافیا نے شہر کا وہ حال کیا ہے کہ دو تین حکومتیں پیپلز پارٹی کو اورمل گئیں تو مزار قائدپر بھی پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرا رہا ہوگا اور اس کے نیچے سنگل اور ڈبل اسٹوری بنگلے‘ دبئی کی قیمتوں پر برائے فروخت ہوں گے۔ کیا بلاول بھٹو یہ کارکردگی اور مستقبل کا پلان بتائیں گے؟ ‘‘میری باتیں سن کر پیپلز پارٹی کا وہ سینئر جیالا جیسے ''گُنگ‘‘سا ہوگیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اسے سب پتہ ہے لیکن مجبوری کا طوق اس کی گردن کو اقرار یا انکار میںہلنے تک نہیں دے رہا۔
رئوف کلاسرا صاحب نے اپنے کالم میں لکھا کہ ''زرداری صاحب کی ذہانت ملک اور عوام کے کام کیوں نہیں آئی؟ انہوں نے اپنی عقل خاندان اور دوستوں کو مال دار بنانے کے لیے استعمال کی ہے‘‘ کلاسرا صاحب! جس ملک میں چیئرمین نیب کا تقرر ایسے لوگ کریں جو خود نیب کو مطلوب ہوں‘ وہاں ایسی باتیںکسے سمجھ آئیں گی۔ وزیراعظم بھی نیب کو مطلوب ہیں تو قائدِحزبِ اختلاف کے بارے میںنیب کی جانب سے ''تلاش گمشدہ ‘‘کا اشتہار شائع ہوتے ہوتے رہ گیا۔
بلاول بھٹو زرداری کو ایک سو چالیس الفاظ کی قید(ٹویٹ)اور اپنوں کی محفل(گیٹ ٹو گیدر)سے باہر نکال کر ایک بڑے عوامی اجتماع کے سامنے لایا جارہا ہے۔ اگر تقریر وہ خود لکھیںتویہ ان کا امتحان ہوسکتا ہے۔ خورشید شاہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا جلسہ میوزیکل شو نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب بلاول کو پیج ٹو‘ تھری اور فور کے درمیان کوئی وقفہ بھی نہیں ملے گا۔ خورشید شاہ صاحب اتنا ضرور بتادیں کہ ''بِجاں تیر بِجاں‘‘گانا کس پارٹی کا ہے۔ گانوں کی روایت پیپلز پارٹی نے ہی ڈالی۔ ثمینہ کنول کو پی پی کے گانوں سے ہی شہرت ملی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب تحریک انصاف نے گانوں کے ''ٹرینڈ‘‘ کا ''کاپی رائٹ‘‘ اپنے نام کرلیا ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت اگر اس ''ٹرینڈ‘‘کو اپنائے گی تو وہ نقل کے زمرے میں آسکتا ہے۔ آصف زرداری کہتے ہیں کہ مائیک گرانے سے کوئی لیڈر نہیں بنتا۔ اب یہ بات تو طے ہے کہ بلاول کم از کم مائیک نہیں گرائیں گے‘ نہ ہی گانے بجائے جائیں گے‘ نہ مخالفانہ نعرے ہوںگے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا تو پھر یہ جلسہ کامیاب ہونے کے باوجود کوئی پیغام نہیں دے سکے گا اور نہ ہی سندھ کے عوام پر اس کا کوئی خاص اثر پڑے گا؛ جبکہ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ بلاول کے جلسۂ عام میں بے نظیر بھٹو کی تاریخی تقاریر کی جھلکیاں دکھائی جائیں گی جن میں کچھ انکشافات بھی ہیں۔
آج کل جلسوں کی ریٹنگ بھی ناپی جارہی ہے۔ ملتان میں عمران خان نے ایسا ریکارڈ توڑ جلسہ کیا کہ سانحہ ملتان کی تحقیقاتی رپورٹ نے بھی تسلیم کیا کہ جلسے کی جگہ شرکاء کی تعداد کے اعتبار سے چھوٹی تھی۔ تحریک انصاف کی انتظامیہ کو بھی یقین نہیں تھا کہ اتنے لوگ آجائیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی فیصل آباد میں کامیاب شو کیا۔ لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت کے بعد انہوں نے عمران خان کے ساتھ انتخابی اتحاد کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ جتنے بڑے جلسے ہورہے ہیں‘ روایتی سیاسی جماعتوںکی ٹانگیں کانپنا شروع ہوگئی ہیں ۔۔۔۔۔۔جس کا ثبوت یہ ہے پیپلز پارٹی نے ''ٹیسٹ کیس‘‘ کے لیے سندھ میں ہی جلسہ کرنے میںعافیت جانی۔ جب پیپلز پارٹی لاہور اور مسلم لیگ لاڑکانہ میں بڑے جلسے کریں گی تو ان کی مقبولیت کا اصل گراف سامنے آئے گا۔ بہرحال پیپلز پارٹی نے مڈٹرم الیکشن کی ''خوشبو‘‘محسوس کرتے ہوئے جلسوں کے ''پری الیکشن ٹورنامنٹ ‘‘میں حصہ لیتے ہوئے اپنے پاس موجود ''بلاول کارڈ‘‘شو کردیا ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ عوامی شعور کی بیداری اس تیزی سے جاری ہے کہ بات عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے بھی آگے نکل چکی ہے توبلاول اسے کس طرح کنٹرول کرسکتے ہیں؟
تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر مڈٹرم یا نئے انتخابات ہوئے تو پرانے چہرے ہی گھوم پھر کر آجائیں گے‘ اس لئے کہ اس بار ''میچ فکس‘‘ کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی ایسی جرأت کرے گا۔ منظم دھاندلی کا وقت اب رخصت ہورہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم اچانک الیکشن کا اعلان بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ ''مہک‘‘ آجائے کہ کچھ خفیہ قوتیں الیکشن کا ''موسم‘‘ بنارہی ہیں۔ اگر وزیر اعظم نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اسمبلی توڑ کر انتخابات کا اعلان کردیا تو کیا ماحول ہوگا ؟آگ کہاں تک بھڑکے گی؟ اور مخالف سیاستدانوں کے مطالبات کا کیا بنے گا؟