ایم کیو ایم نے گزشتہ روز کراچی کے ایک بڑے جلسۂ عام میں یہ اعلان کر ڈالا کہ وہ ملک میں 20 صوبے بنانے کی ملک گیر تحریک عاشورۂ محرم کے بعد شروع کریں گے۔
پاکستان میں عوام کی زبردست قربانیوں کے باوجود جمہوریت پھل پھول نہ سکی۔ جب سیاست اور عمرانیات کے ماہرین نے اس موضوع پر تبادلہ خیال شروع کیا تو یہ بات منظر عام پر آئی کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت اس وقت تک پروان نہیں چڑھ سکتی‘ جب تک اس میں عوام کے نچلے طبقے کو شامل نہ کیا جائے۔ پاکستان کی موجودہ جمہوریت اور سابق ''مارشلائی حکومتوں‘‘ میں صرف چہروں کا فرق ہے، اب بہت سے سیاستدان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ ''آدم خور جمہوریت‘‘ کے مقابلے میں مشرف‘ ضیاء الحق اور ایوب خان کے مارشل لاء کا دور زیادہ اچھا تھا۔ خواتین کی اکثریت نہ جانے جمہوریت کے خلاف ہمیشہ کھل کر کیوں ووٹ دیتی ہے؟ اور اب تو آہستہ آہستہ جمہوریت کے خلاف بات کرنا ہر محفل کی ضرورت بن گئی ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ بتائی جاتی ہے کہ جمہوریت صنعتی معاشرے کو چلانے کا نظام ہے، ''وحشی جاگیردارانہ نظام‘‘ میں جمہوریت تو ''عذاب جاریہ‘‘ بن جاتی ہے۔ مارشلائی حکومتوں نے عوام کو بلدیاتی نظام دیا اور کہا کہ اپنی گلی کی مرمت اور گٹر و نالی کا نظام خود سنبھالو، لیکن ''جاگیردارانہ جمہوری معاشرے‘‘ میں عوام سے یہ حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ برطانیہ کے دانشور آسکر وائلڈ نے جمہوریت کا پول ان الفاظ میں کھولا ہے کہ ''جمہوریت کی سادہ تعریف یہی ہے کہ لوگوں کے ڈنڈے کو لوگوں کے لئے لوگوں کی پیٹھ پر توڑنا ہے‘‘۔
پاکستان کو ''لیبارٹری‘‘ سمجھ کر وہ تجربے بھی کئے گئے جو دنیا میں کہیں نہیں ہوئے۔ ون یونٹ وہ منصوبہ تھا‘ جسے پاکستان کی وفاقی حکومت نے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کے انضمام
کے لیے شروع کیا، جس کے تحت مملکت پاکستان کے مغربی حصے کے تمام صوبوں کو یکجا کر کے ایک اکائی کی صورت دی گئی جبکہ اس کا دوسرا حصہ مشرقی پاکستان کی صورت میں موجود تھا، اس طرح پاکستان محض دو صوبوں پر مشتمل ایک ریاست بن گیا۔ ون یونٹ منصوبے کا اعلان وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے 22 نومبر 1954ء کو کیا اور 14 اکتوبر 1955ء کو مملکت خداداد کے مغربی حصے کے تمام صوبوں کو ضم کر کے مغربی پاکستان صوبہ تشکیل دیا گیا‘ جس میں تمام صوبوں کے علاوہ ریاستیں اور قبائلی علاقہ جات بھی شامل تھے۔ یہ صوبہ 12 ڈویژنوں پر مشتمل تھا اور اس کا دارالحکومت لاہور تھا۔ دوسری جانب مشرقی بنگال کے صوبے کو مشرقی پاکستان کا نام دیا گیا جس کا دارالحکومت ڈھاکہ تھا۔
وفاقی دارالحکومت 1959ء میں کراچی سے راولپنڈی منتقل کیا گیا۔ اس وقت تک کراچی کسی صوبے کا حصہ نہیں تھا بلکہ وفاق کے زیر انتظام شہر تھا‘ جہاں فوج کے صدر دفاتر تھے۔ دارالحکومت نئے شہر اسلام آباد کی تکمیل تک یہیں موجود رہا جبکہ وفاقی مجلس قانون ساز ڈھاکہ منتقل کی گئی۔ اس پالیسی کا مقصد بظاہر انتظامی بہتری لانا تھا لیکن کئی لحاظ سے یہ بہت تباہ کن اقدام ثابت ہوا۔ مغربی پاکستان میں موجود بہت ساری ریاستوں نے اس یقین دہانی پر تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی کہ ان کی خود مختاری قائم رکھی جائے گی لیکن ون یونٹ بنا دینے کے فیصلے سے تمام مقامی ریاستوں کا خاتمہ ہو گیا، اس میں بہاولپور‘ خیرپور اور قلات کی ریاستیں ون یونٹ کا حصہ بن گئیں۔ اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ صاحب بھی اس ''آزاد ریاست‘‘ خیر پور سے تعلق رکھتے ہیں جو ون یونٹ
کے خاتمے کے بعد ''حادثاتی‘‘ طور پر سندھ میں شامل ہو گئی تھی۔
1958ء میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور صدر نے مغربی پاکستان کے اختیارات اپنے پاس ہی رکھ لیے۔ مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو یکجا کرنے کا مقصد مشرقی پاکستان کی لسانی و سیاسی اکائی کا زور توڑنا تھا، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ملک ہی ٹوٹ گیا۔ بالآخر یکم جولائی 1970ء کو صدر یحییٰ خان نے ونٹ یونٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو بحال کر دیا۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ایسے ''مردم‘‘ ہی نہیں جو قاعدے کے تحت مردم شماری کرا سکیں اور نہ ایسا قانون ہے کہ حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب سے کی جا سکیں۔ بعض ارکان اسمبلی ڈیڑھ لاکھ ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں آتے ہیں تو بعض کے لئے چند ہزار ووٹر پارلیمنٹ پہنچنے کی وجہ بنتے ہیں۔ صوبوں کا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا صوبہ بھی ہے جو یورپ کے سات‘ آٹھ ممالک سے بھی بڑا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں یہ سوچ بچار شروع ہوئی تھی کہ پاکستان میں نئے صوبے بنائے جائیں۔ اس مقصد کے لئے جنرل ضیاء الحق نے انصاری کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور بالآخر طویل غور و خوض کے بعد یہ حل نکالا گیا کہ تمام ڈویژنوں کو صوبے بنا دیا جائے، لیکن نہ فوجی حکمران صوبے بنا سکے اور نہ منتخب غیر فوجی حکمران۔ ہر حکمران اس مسئلے کو ٹالتا رہا اور بعض مراحل پر عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے نئے صوبوں کے قیام کی قراردادیں منظور کر کے سارا معاملہ داخلِ دفتر کر دیا گیا۔ عوام منہ دیکھتے رہ گئے... تحریکیں دم توڑ گئیں... اور حکمران اپنی مدت پوری کر کے گھر جاتے رہے‘ اور بعد میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح نئے صوبوں کے قیام کے حق میں تقریریں کرتے رہے لیکن کیا کریں ہمارے عوام بہت بھولے بھالے ہیں، جلد بھول جاتے ہیں۔
پاکستان میں صوبوں کا مطالبہ جتنا پرانا ہے، اس کو نہ ماننے کا حربہ بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ تمام جاگیردار اور اجارہ دار سیاسی گروپ اس بات پر متفق ہیں کہ نئے صوبوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اس طرح عوام کو طاقتور بننے کا موقع مل جاتا ہے، اقتدار نچلے طبقے تک پہنچ جاتا ہے اور روایتی سیاست دانوں کی گرفت کمزور ہو جاتی ہے، حکومت میں لوگوں کی مداخلت بڑھ جاتی ہے جو ہر لحاظ سے خطرناک علامت ہے‘ اس لئے ہر جگہ کا جاگیردار اور وڈیرہ نئے صوبوں کے قیام کا مخالف ہے۔ وہ ڈرتا ہے کہ اگر صوبہ بن گیا تو ٹیکس کے ذرائع پیدا کرنے کے لئے کارخانے اور صنعتیں لگانا پڑیں گی، جس کے نتیجے میں ہاری ''خاندانی غلام‘‘ نہیں رہے گا، اس کی ڈیوٹی کے اوقات کار طے کرنا ہوں گے، ملازمت 8 گھنٹے ہو گی اور وہ اکیلا کام کرے گا۔ اس کی بیوی اور بچے ''مفت کے ملازم‘‘ نہیں ہوں گے۔ چھٹیاں دینا ہوں گی‘ تو میڈیکل کا مطالبہ بھی ماننا پڑے گا۔ اس طرح تو جاگیردارانہ سسٹم تباہ ہو جائے گا اور جاگیردار خود کو تباہ کیسے کر سکتا ہے، وہ تو غریبوں کو تباہ کرنے کے ''مشن‘‘ پر کام کر رہا ہے۔
بعض ''دانشور طوطوں‘‘ کا یہ کہنا ہے کہ صوبے بننے سے ملک ترقی نہیں کرتا۔ ان کے سامنے بھارت ایک ایسی مثال کے طور پر موجود ہے جو آسام اور خالصتان جیسی بارہ تحریکوں کا سامنا کرنے کے باوجود صوبوں کو ''جنم‘‘ دے رہا ہے۔ اِسی سال تلنگانہ صوبہ بھارت کے نقشے پر اُبھرا ہے۔ افغانستان پر پہلے روس نے بارود برسایا اور پھر امریکہ نے اپنے تمام نئے ہتھیار آزمائے لیکن اب بھی افغانستان بدخشاں سے زابل تک 34 صوبوں میں منقسم ہے اور یہ صوبے کبھی اس کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوئے۔ آج بھی امریکہ‘ برطانیہ سمیت تمام ممالک کی ترقی اور گڈ گورننس کا راز صوبوں کے قیام اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی میں پنہاں ہے۔ پاکستان کو ون یونٹ بنانے کا انجام دیکھ لیا گیا، زیادہ صوبے ون یونٹ کی ضد ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ نئے صوبے بنا کر کرپشن کی روک تھام اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا عمل شروع کیا جائے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پرویز مشرف نے ''مجسٹریسی نظام‘‘ کا خاتمہ کر کے بیورو کریسی کی حکمرانی لپیٹ دی تھی، یہ انگریزوں کا نظام تھا اور جاگیرداروں کو ''سوٹ‘‘ کرتا تھا۔ دس افسران کو احکامات دینے سے ایک ڈپٹی کمشنر کے ذریعے پورا ضلع قابو میں رکھنا وڈیروں کے لئے آسان فارمولا تھا۔ اُس وقت بھی بیوروکریسی نے بہت ہاتھ پائوں مارے... ہڑتالوں کی دھمکیاں دیں... استعفوں سے بھی ڈرایا لیکن پرویز مشرف نے ایک ''دبنگ حکمران‘‘کی طرح ڈپٹی کمشنر سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات واپس لے کر عدالت اور ضلعی ناظم کو تفویض کر دیے، لیکن پھر وہی ''ڈھاک کے تین پات‘‘... نہ ناظم رہے نہ اختیارات... سب کچھ وزیر اعلیٰ ہائوس پہنچ گیا اور وزیر اعلیٰ صاحب کام کرکے اتنے تھک جاتے ہیں کہ تھرپارکر جا کر نیند نصیب ہوتی ہے۔