سندھ میں اقتدار کی لڑائی نے مغل شہزادوں کی یادتازہ کردی ، جب وہ صبح و شام دربار میں اعلیٰ مناصب ایک دوسرے سے چھینتے اور بانٹتے تھے۔ سندھ میں جاری ''سیاسی کشمکش‘‘ پر پورا ملک ہنس رہا ہے۔ اکیاسی سالہ قائم علی شاہ اور چھبیس سالہ بلاول کے درمیان جاری چپقلش سیاسی ہے یا ذاتی ، اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟اس کا فائدہ کسے ہوگا؟یہ سوالات اس وقت سندھ کے دانشور حضرات کے اذہان میںجنم لے چکے ہیں اور عین ممکن ہے آئندہ چند روز میں زبان تک کا سفر طے کرتے ہوئے ٹی وی چینلز کی ''بریکنگ نیوز‘‘بن جائیں۔
بلاول بھٹو زرداری خبر بنوانا خوب جانتے ہیں، انہیں الیکٹرانک میڈیا پر'' حکمرانی‘‘ کا ماہرسمجھا جانے لگا ہے۔ اُن کی ٹویٹ کی مثال اس شاعر جیسی ہے جو اپنے اشعار سے پانی میں آگ لگانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بلاول کی ذاتی حملوں پر مبنی پہلی تقریر پر الطاف حسین نے جواباً کہا تھا ''ابھی چھوٹے ہو، ابو کو بلائو‘‘۔ دوسری تقریر پر کراچی میں ایک روزہ ہڑتال کے بعد معافی تلافی کرنا پڑی اور تیسری تقریر پر لندن میں جوتوں کی کمپنیاں اپنی پروڈکٹس کی تشہیر کا دعویٰ کرتی نظر آئیں۔
بلاول نے کسی کو'' ٹارگٹ ‘‘کیا تو اس سے ہلچل ضرور مچی اور اِس بار اُن کے نشانے پرقائم علی شاہ ہیں۔ خیرپور ضلعی کونسل کے چیئر مین منتخب ہونے کے بعد 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے قائم علی شاہ نے 1970ء کے انتخابات میں خیرپور میں غوث علی شاہ کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی جس پر ذوالفقار علی بھٹو نے انہیںاپنی کابینہ میں شامل کیاتھا۔ وزیراعلیٰ سندھ بننے کی ''ہیٹ ٹرک‘‘ کرنے والے قائم علی شاہ سے لڑائی میںبلاول نے سامنے نہ آنے کا فیصلہ کیا اور یہ خبریں چلوائی گئیں کہ ''سندھ کا وزیر اعلیٰ تبدیل کیا جارہا ہے ‘‘۔ ابھی یہ خبر ''جوانی‘‘ کی دہلیز پر پہنچی ہی نہ تھی کہ وضاحتیں جاری کی گئیں کہ ''سندھ کا وزیر اعلیٰ تبدیل نہیں ہورہا‘‘۔ ان خبروں کی نشرواشاعت کے نتیجے میں تجزیہ نگاروں کی باہر نکلی زبانیں اندر بھی نہیں ہوئی تھیں کہ ایک اورخبر آگئی''نوجوان چیئرمین نے بوڑھے وزیر اعلیٰ کو شوکازنوٹس جاری کردیا‘‘جس پر یہ گانا گنگنایا جانے لگا : ''میں چھوٹا سا ایک بچہ ہوں پرکام کروں گا بڑے بڑے‘‘۔ سندھ کی'' بھونچال زدہ سیاست ‘‘کی سرگوشیوں کو چپکے سے سننے والوں کا کہنا ہے کہ ''شوکاز نوٹس ٹی وی ٹِکراور اخباری خبرکے سوا کچھ نہ تھا‘‘ اور جب اس خبر پر ردعمل کی کھچڑی پک رہی تھی اور پیپلز پارٹی میں بزرگوں کی تعظیم و احترام پر لیکچرشروع ہونے والے تھے کہ اس کی واپسی کا ٹِکربھی جاری ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ بھی حیران ہیں کہ یہ کیسا شوکاز نوٹس ہے جوملے بغیرواپس ہوگیا، لیکن سندھ کے اخبارات اور تجزیہ نگاروں کو شاباش ہے کہ وہ اِسے''بچگانہ صورت حال‘‘ بھی قرار نہیں دے سکتے۔ سندھ کی یہی سیاست رہی تو پیپلز پارٹی کو 2013ء جیسا نتیجہ بھی شاید ہی مل سکے ، لیکن قوم یہ ضرور کہے گی'' آصف زرداری بہت ذہین ہیں اس لئے طیارہ تیارکھڑارکھا ہے‘‘۔
سندھ کی کرسی کے لئے اس لڑائی کا خطرناک نتیجہ لاڑکانہ میں اگلے ہفتے ہونے والا عمران خان کا ''دھرنا نما جلسہ عام‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ عمران خان کا جلسہ کیسا ہوگا؟اس کے بارے میں کوئی بھی قیاس نہیں کرسکتا ۔ یہ جلسہ عام عمران دوستی میں کامیاب ہوگا یا کسی کے بغض میں! لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب کے ناراض عناصر عمران خان کے جلسہ عام میں اپنا ''وزن‘‘ ڈالیں گے ، لوگ خود آئیں گے یا بھیجے جائیں گے ؟ عمران خان نے جلسہ عام کے لئے لاڑکانہ کا انتخاب کیوں کیا ؟اور دیگر شہروں کی طرح ''جھٹ پٹ جلسہ عام‘‘کا راستہ کیوں نہیں چنا گیا بلکہ تیاریوں کے لئے زیادہ وقت کیوں لیا گیا؟ لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی سے ناراض عناصر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں یاخود کو حالات کے رحم و کرم پرچھوڑدیتے ہیں ؟ کھوڑو خاندان بھی پیپلز پارٹی سے ناراض ہے اور جب بھی وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملتا ہے کھوڑو خاندان کی اہم شخصیت کا نام لسٹ سے خارج ہوجاتا ہے ۔ قائم علی شاہ کے بعد اب تو متوقع وزیر اعلیٰ کے ناموں کی فہرست سے بھی نثار کھوڑو کا نام نکال دیا گیا ہے ، وہ جہاں ہیں وہیںرہیں گے کیونکہ پیپلز پارٹی کسی بھی صورت میں ماضی کے حریف کھوڑو خاندان کو سندھ کے اقتدار کی چابی دینے کے لئے آمادہ نہیں۔ شاہ محمود قریشی کے مرید اور خیرپورکے ناراض عناصر بھی ''پکنک‘‘منانے لاڑکانہ کے جلسہ عام کا رخ کرسکتے ہیں، شکارپور سے بھی اچھی اوربُری خبریں آرہی ہیں۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کے اقتدار کے قلعے پر حملہ ہورہا ہے تو دوسری جانب پارٹی میں گروپ باز ایک دوسرے کو گرانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
سندھ کے اقتدار کی ہلتی ہوئی کرسی ایک بار پھر ''محفوظ‘‘ نظر آرہی ہے لیکن ''سندھی سیاست کے انٹلیکچوئل ‘‘کہتے ہیں کہ قائم علی شاہ کو بہر حال جانا ہے ، وہ قائم نہیں رہ سکیں گے کیونکہ بلاول بھٹو جن لوگوں کے نرغے میں ہیں وہ قائم علی شاہ کو اب مزید برداشت کرنے کے لئے تیار نہیںہیں۔ مرادعلی شاہ کو میدان میں اتارنے کے بعدپارٹی میں دبائو اتنا بڑھ گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو نہ صرف تردید کرنا پڑی بلکہ اپنے حامیوں اور مخالفین کو یقین دلانے کے لئے ایوان صدر کے سابق ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کو تردیدی بیان دینا پڑا۔ اس تردید کو بلاول کی ناکامی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ قائم علی شاہ کو ہٹانے کی خبریں بلاول بھٹو کے نام سے نہیں لگیں، لیکن واقفانِ حال یہ جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ اِن خبروں کا منبع کون ہیں ؟ بلاول ابتدا میں تو اپنا نام اور چہرہ چھپاتے رہے لیکن جب وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کوشوکاز نوٹس جاری کرنے کا مرحلہ آیا تو پروٹوکول کے لحاظ سے بلاول بھٹو کے علاوہ کوئی بھی یہ کام نہیں کرسکتا تھا اس لئے مجبوراً بلاول کو آگے آنا پڑا۔ غیرجانبداری دکھانے کے لئے منظور وسان کو بھی شوکاز نوٹس دیا گیا اور سندھ میں طوفان کھڑا ہوگیا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ خیرپور کی مخالف لابی نے ایک سال پُرانی رپورٹ کی آڑ میں وزیر اعلیٰ سندھ کو شوکاز نوٹس کا ڈرامہ رچا دیا لیکن جیسے ہی سینہ گزٹ سے یہ خبر عام ہوئی کی
وزیر اعلیٰ سندھ کو تبدیل کرنے کے لئے سندھ سید ایسوسی ایشن راضی نہیں ہے تو سب کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور فون کھڑکنے لگے کہ ''رُک جائو! بغاوت ہوگئی ہے۔۔۔۔۔کہیں متوازی حکومت نہ بن جائے‘‘۔ پیرپگاڑا کی فنکشنل لیگ کے گیارہ اور ایم کیو ایم کے اکیاون اراکین سندھ اسمبلی کی گنتی کا شمار ہونے لگا ، یہ بھی کہا گیا کہ اگر سید ایسوسی ایشن قائم علی شاہ کے ساتھ ہاتھ ملا کر کھڑی ہوگئی تو سندھ حکومت کی پوری بساط الٹ جائے گی۔
قائم علی شاہ نے اپنے ہٹا ئے جانے کی خبروں اور شوکاز نوٹس پرکسی ناراضگی یا ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اُن کے بارے میں اعلیٰ حلقوں میں کہا گیا کہ سائیں جلد ہار ماننے والا نہیںہے ، یہ آخر وقت تک لڑے گا ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قائم علی شاہ کا پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ جس کے ساتھ چل رہا ہے واقعی اس کے ساتھ ہے یا نہیں! قائم علی شاہ کے ایک مخالف نے کہا کہ جب شاہ صاحب غصے میں آتے ہیں تو پتا نہیں ہوتا کہ کب خنجر گھونپ دیں۔ دوسری طرف زرداری صاحب نے قائم علی شاہ کے معاملے پر ابھی تک ایک لفظ نہیں بولا، وہ چپ ہیں، خاموش ہیں۔ پارٹی کے بعض سینئر رہنمائوں نے ان سے شکوہ کیا تو جواباً وہ دھیمے لہجے میں بولے : ''یہ ہمارے بڑوں کی نشانی ہیں اسی‘ پچاسی سال کے بزرگ ہیں‘‘۔
قائم علی شاہ کو اقتدار سے ''دیس نکالا‘‘ دینے کی کوشش کے بارے میں ایم کیو ایم نے بھی چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے، کسی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں آرہا ۔ لوگ یہ بھی نہیں سمجھ پارہے کہ ایم کیوایم اس موضوع پر غیر جانبدار ہے یا مصلحتاًخاموش! لگتا ہے وہ پیپلز پارٹی کے اس جھگڑے کو انجوائے کرنے کا پروگرام رکھتی ہے اور اگلی ''بغاوت‘‘کا انتظار کررہی ہے۔