کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ایک بار پھر عروج پر ہے۔۔۔لاشیں گرنے کا نہ تھمنے والا سلسلہ پھر شروع ہوچکا ہے ۔ ایم کیو ایم سمیت دوسری سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو چُن چُن کرقتل کیا جارہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔ حکومت کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ کراچی آپریشن 16ماہ سے جاری ہے لیکن ٹارگٹ کلنگ کی رفتار خاص کم نہیں ہوئی۔ ایک ایک پولیس مقابلے میں درجن ‘ درجن دہشت گرد مارے جارہے ہیں لیکن اس سے دُگنی رفتار سے پیدا بھی ہورہے ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ سندھ حکومت کی امن وامان پر گرفت کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل کے خلاف وزیر اعلیٰ ہائوس کے باہر دھرنے کے شرکا کوسندھ حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی بھی نہ کرائی جاسکی کہ قاتلوں کوگرفتارکرلیا جائے گا۔
سندھ حکومت کر کیا رہی ہے ؟ یہ سوال زبان ِزدِعام ہے اوراس کا جواب کراچی کے شہری اداروں کی اہم پوسٹوں کی ''خریدو فروخت‘‘ دیکھ کر مل جاتا ہے۔ زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے ''حکومت مصروف ہے‘‘۔۔۔! کراچی کے اہم شہری اداروں کا اگر جائزہ لیا جائے اور وہاں پائی جانے والی کرپشن کے بارے میں لکھنا شروع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بآسانی تیار ہوسکتی ہے۔ کراچی کے اہم شہری اداروں میں بلدیہ عظمیٰ کراچی‘ ڈسٹرکٹ میونسل کارپوریشنز‘ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ‘ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ‘ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی شامل ہیں۔ کئی اداروں کے سربراہان کے عہدے ''برائے فروخت‘‘ کے زبانی اشتہار کے ذریعے ''سیل‘‘ لگاکر بیچے جاتے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی کی پوسٹ کی قیمت مبینہ طور پر 15سے 20کروڑ روپے مقرر ہے ۔ سننے میں آیا ہے کہ اسی ادارے کے دیگر عہدے 3سے 5کروڑروپے میں بآسانی دستیاب ہیں۔ کئی عہدوں کی تو باقاعدہ نیلامی ہوتی ہے جن میں ریونیو ، اشتہارات وسائن بورڈ کا محکمہ ، واٹر ہائیڈرنٹس اور چنگی وصولی شامل ہیں۔ ملیر ٹائون کی ایک یونین کونسل درسانوچھنوکا یومیہ ٹول ٹیکس ایک محتاط اندازے کے مطابق 35 لاکھ روپے ہے۔ ''پرکشش‘‘ عہدوں کی خاص بات یہ تھی کہ کسی الیکٹرانک آئٹم کی طرح پہلے چھ ماہ کی وارنٹی یا گارنٹی ملتی تھی لیکن اب یہ سہولت کم کرکے تین ماہ کردی گئی ہے جس کی وجہ سے افسران ایسی ''سرمایہ کاری ‘‘سے ڈرتے ہیں کہ کہیں فائدے کے بجائے ''ٹوٹل لاس ‘‘ نہ ہوجائے۔ کئی افسران تو یہاں تک کہتے ہیں کہ صورت حال یہی رہی تو مستقبل میں ایک یا دودن کی ''چیکنگ وارنٹی‘‘ ہی ملے گی یعنی آپ کرسی کو ایک دو روزتک گھما کر چیک کرسکیں گے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو اس وقت سونے کی چڑیا کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہاں کے عہدے سب سے زیادہ قیمتی بلکہ نایاب ہیں۔۔۔۔ایک افسر کرسی پر تو چار باہر لائن میں کھڑے رہتے ہیں ۔ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی(ایم ڈی اے)کو توحکومت کی ترقی کا ادارہ کہا جارہا ہے۔۔۔۔1988ء میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق 4 لاکھ 25 ہزار 529 ایکڑ میں سے تقریبا 4 لاکھ ایکڑ کسی نہ کسی طرح سرکاری ملکیت ہے، حکومت سندھ کے پاس ایک لاکھ 37 ہزار 687 ایکڑ اورکے ڈی اے کے پاس ایک لاکھ 24 ہزار 676 ایکڑزمین تھی، 1990ء کی دہائی میں کے ڈی اے کی غیر تعمیرشدہ زمین ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) اور لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو منتقل کردی گئی جس کے بعد ایم ڈی اے کو ریتی‘ بجری کی صورت میں کروڑوں روپے کا ''خزانہ‘‘مل گیا تو ایل ڈی اے کے مقدر میںکراچی کا قیمتی ساحل آ گیا ۔ شنید ہے، ایم ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی پوسٹ 10کروڑ روپے سے کم میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے جبکہ ساحل کی وجہ سے ایل ڈی اے کے ڈی جی کی کرسی 12سے15کروڑ روپے میںمل سکتی ہے۔
کراچی میں آپ کو سڑکوں پر پانی ضرور ملے گا لیکن نلکوںمیں پانی کا تصور بھی محال ہوتا جارہا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈکا وجود اب شہر کے لئے خطرہ بنتا جارہا ہے۔۔۔۔سیوریج کا پانی جاتا نہیں اور پینے کا پانی آتا نہیں ۔۔۔۔اس صورت حال میں شہری جائیں
تو جائیں کہاں ۔۔۔؟ کراچی کے شہری تو کے فور منصوبے کا سن سن کر تنگ آچکے ہیں ، جتنا عرصہ کے فور کی کاغذی کارروائی میں صرف ہورہا ہے اتنے عرصے میں تو جیمزبانڈ کی نئی فلم ریلیز ہوجاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں پانی کی قلت ہے۔۔۔آبادی بڑھ گئی ہے پانی کم ہوگیا ہے۔ اس بات کو درست تسلیم کرلیا جائے تو واٹر ہائیڈرنٹ مافیا ماہانہ دس کروڑ روپے واٹر بورڈ کو بطور رشوت کیوں دے رہی ہے؟ جب پانی کی قلت ہے تو واٹر ہائیڈرنٹ مافیا کو پانی کہاں سے مل رہا ہے؟ایم ڈی واٹر بورڈ کا عہدہ 17کروڑ روپے ماہانہ میںکیوں دیا گیا ہے؟اتنی بڑی رقم کہاں سے جمع ہوتی ہے؟
سیوریج کے پانی میں ڈوبا عالم اسلام کا سب سے بڑاشہر یہ سوال کرتا ہے کہ کراچی کے بعض ڈی ایم سی کے افسران کے پاس شہری ڈومیسائل تک نہیں، 70 سے 90 لاکھ روپے خرچ کرکے اہم عہدے حاصل کرنے والے یہ افسران اپنی انویسٹمنٹ وِد پرافٹ نکالیں گے یا شہریوں کے پانی اور سیوریج کے مسائل حل کریں گے؟اِن افسران میں سے بیشتر کو تو کراچی کے گلی ‘کوچوں تک کا علم نہیں ،انہیں انڈرگرائونڈ لائنوں کا کیا پتا ہوگا ؟ کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کے بارے میں ایک واقعہ بھلا ئے نہیں بھولتا۔۔۔۔ کہتے ہیں، ایک اعلیٰ افسر اپنی پوسٹنگ کے لئے ڈھائی کروڑ روپے دینے کے باوجود پوسٹنگ نہ ہونے کے غم میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔۔۔۔شدید صدمے میں دل کا
دورہ جان لیوا ثابت ہوا ۔ اس سے آپ محکمے میں کرپشن کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔ غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کراچی کے 24 تھانوں میں 226 ایف آئی آرز درج ہیں لیکن کارروائی صرف 62 کے خلاف کی گئی ۔ کراچی کے شہریوں کا پانی چوری کرکے انہی کو فروخت کیا جارہا ہے۔۔۔۔ایک ہائیڈرنٹ سے تقریباًپانچ سو ٹینکر بھرے جاتے ہیں اوراِن ٹینکروں کوپانی کی قلت کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔
مذکورہ بالا کرپشن کے واقعات کے لئے کوئی خاص تحقیق نہیں کی گئی ، یہ عام صورت حال ہے جو ان محکموں سے وابستہ تمام لوگ اور اس بیٹ پر کام کرنے والے تمام رپورٹرز بخوبی جانتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کرپشن کا ماسٹر مائنڈ کونسا صوبائی وزیر ہے ؛ البتہ سندھ کے محکمہ اینٹی کرپشن کے بارے میں یہ تحقیق انتہائی ضروری ہے کہ اس کے علم میں یہ واقعات ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں تو کارروائی نہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اور اگر نہیں تو کم ازکم اس محکمے کا نام اینٹی کرپشن سے تبدیل کرکے ''پرو کرپشن‘‘ رکھ دیا جائے تاکہ اس کا کام تو نام کے مطابق ہوجائے اور اس کی مثال ایسی نہ بنے کہ کسی نے پوچھا : ''فلسفی کسے کہتے ہیں؟ ‘‘ جواب ملا : ''جو کسی مسئلے کا حل ایسا نکالے جسے دیکھ کر آپ یہ کہیں اس سے تومسئلہ بہترتھا‘‘۔ ہمارے ملک میں بھی فلسفیوں کی کمی نہیںاور مسائل کا فلسفیانہ حل بھی ہر جگہ دستیاب ہے۔ سندھ کے باشندوں کی قسمت بھی مرزاغالب کے اس شعر کی طرح ہے :
حیف ! اُس چارہ گر کپڑے کی قسمت ‘غالب!
جس کی قسمت میں ہو‘عاشق کا گریباں ہونا