آخر کار کراچی کا اصل مرض پکڑ لیاگیااور اِس کے علاج کے لیے ''اپیکس کمیٹی‘‘ کو ''اینٹی بائیوٹک‘‘ کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔آخری ہچکیاں لینے والے اِس بیمار شہر پر''آپریشن تھیٹر‘‘ میں کئی تجربات کیے گئے کہ شاید کوئی ''دوائی‘‘ کام کرجائے،لیکن جب تشخیص ہی غلط ہو تو علاج کیسے صحیح ہوگا؟کراچی آپریشن شروع کرنے سے پہلے سندھ پولیس میں آپریشن ضروری تھا لیکن ایسا نہ ہوا اور کراچی آپریشن کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔سندھ پولیس کے کانسٹیبل سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک تمام ملازمین کسی نہ کسی طرح کرپشن کی بیماری کا شکار ہیں۔کانسٹیبل پچاس‘ سو روپے لیتا ہے تو اعلیٰ افسر 5کروڑ کی بکتر بند 17کروڑ روپے میں خریدنے کا سودا کرتے ہیں، اسی لیے تو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار نے موجودہ آئی جی سندھ (جو مبینہ طور پر ایک یا دو روز میں تبدیل ہونے والے ہیں )کو بھی نیب کا سامنا کرنے کے لیے الرٹ رہنے کا کہہ دیا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین خواجہ سہیل منصور نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ 5 کروڑ کی بکتر بند گاڑیاں 17 کروڑ میں کیوں خریدیں؟ انہوں نے وارننگ بھی دی کہ آئی جی سندھ یا تو مستعفی ہو جائیں یا نیب کوبھگتنے کو تیار رہیں۔ خواجہ سہیل نے سندھ کے آئی جی اور ہوم سیکرٹری کی عدم موجودگی پر برہمی کااظہارکیا اورکہاکہ بکتر بند گاڑیوں کے معاملے پرایک آئی جی سندھ تو عہدہ چھوڑگئے ہیںاب کیا دوسرے کی باری ہے؟ کمیٹی ارکان نے پوچھا، بکتر بند گاڑیوں کی تیاری کے لیے دنیا بھرمیں صرف سربیا کا چنائو ہی کیوں کیا گیا؟ کیاصرف سربیا کی یہی کمپنی سب سے کم وقت اورکم قیمت میں گاڑیاں مہیا کر سکتی تھی؟ قائمہ کمیٹی کے اس اجلاس میں ایڈیشنل ہوم سیکرٹری نے اپنا ملبہ ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا پر ڈالا کہ بکتر بندگاڑیوں کے معاملے میں ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کے ساتھ اچھا تجربہ نہیں رہا۔۔۔۔اِن سے 17 گاڑیاں خریدیں جو ناقص ثابت ہوئیں اِس لیے مجبوراًسربیا سے معاہدہ کیا، جس پر چیئر مین ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا لیفٹیننٹ (ر) جنرل واجد حسین سید برہم ہوگئے کہ سندھ پولیس نے گاڑیاں درآمد کرنے سے پہلے نہیں پوچھا،ہم ہر قسم کی بکتر بندگاڑیاں تیار کرسکتے ہیں۔اس معاملے پر سیکرٹری دفاعی پیداوار اور ایڈیشنل ہوم سیکرٹری سندھ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ ایڈیشنل آئی جی سندھ نے کہا کہ اب معاہدے سے پیچھے ہٹے توملک کونقصان ہوگا، جس پرچیئرمین کمیٹی بھی غصے میں آئے اورکہاکہ اُس وقت سندھ اور مرکز میں ایک ہی حکومت تھی اور سارا کھیل مل ملا کرکھیلا گیا۔
روزنامہ ''دنیا‘‘نے بکتر بند گاڑیوں کا معاملہ تواتر کے ساتھ اُٹھایااور جب بہت بدنامی ہوئی تو اُس وقت کے آئی جی سندھ نے کرسی سے اترنے میں عافیت جانی،لیکن وہ پیپلز پارٹی ہی کیا جو بیوروکریسی کو اپنے ''قابو‘‘ میں نہ رکھے۔چند روز ہی گزرے تھے کہ نیا'' من پسند‘‘ آئی جی مل گیااور بکتر بند گاڑیوں کا معاملہ ہاتھ سے نکلتے نکلتے رہ گیا۔
سندھ پولیس، پیپلز پارٹی حکومت میںریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔۔۔۔تقرریاں‘تبادلے‘ ترقیاں اور تنزلیاں، یہ سب وہ ''لاٹھیاں‘‘ہیں جن کے ذریعے سندھ پولیس کو بھیڑ‘ بکریوں کی طرح ہانکا جاتا ہے۔ جو ایس ایچ او''بات ‘‘ نہ مانے، ڈی پی او ''من مانی‘‘ کرے، ڈی آئی جی ''جوش و ولولہ‘‘ دکھائے یا آئی جی ''دستخط‘‘ کرنے سے انکار کرے، پیپلز پارٹی کے ''منشور‘‘کے مطابق اس کی سزا صوبہ بدری ہے۔ آج بھی سلطان خواجہ اور بشیر میمن جیسے ایماندارافسران وفاق کے ''ریگستانوں‘‘ میں '' تلاشِ آب‘‘ میں مصروف ہیں۔
سندھ کا ''سیاسی پولیس کلچر‘‘ پنجاب سے زیادہ مختلف نہیں بلکہ کئی علاقوں میں تو وہاں سے بھی چار ہاتھ آگے ہے۔کراچی میں تعینات کئی غیر مقامی پولیس افسران تو ایسے ہیں جو مبینہ طور پر آئی جی سندھ کے بجائے آصف زرداری کو جوابدہ ہیں۔ ایک ایس ایس پی تو ایسے ہیں کہ آئی جی سندھ بھی اُس ضلع کے ایس ایچ اوزکو ہٹا نہیں سکتے۔ ''کمائی‘‘ کے اعتبار سے بھی سندھ پولیس کا کو ئی ثانی نہیں۔۔۔۔ایک ایس ایچ او کی کرسی 5 لاکھ سے 10لاکھ روپے میں ''نیلام ِعام ‘‘کے ذریعے فروخت ہوتی ہے جس کی ''گارنٹی‘‘ایک دن کی بھی نہیںہوتی۔ اسی طرح ڈی ایس پیز ‘ایس ایس پیزاور دیگر عہدوں کے لیے بھی ''برائے فروخت‘‘کے بورڈ لگاکر بیچے جاتے ہیں۔کراچی کے صحافی‘دانشوراورتاجر برادری نے چیخ چیخ کر اپنے گلے خشک کرلیے لیکن مجال ہے کہ آواز ''زرداری ہائوس‘‘ تک پہنچ جائے۔کراچی آپریشن ڈیڑھ سال سے ''سیاسی پولیس‘‘ کے ساتھ جاری رہا، اصلی سے زیادہ نقلی مجرم پکڑے گئے ، فوج کو پکارا جاتا رہا لیکن نتیجہ وہی'' ڈھاک کے تین پاٹ‘‘ ۔
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد ہونے کے بعد پی پی حکومت کو'' وٹامن بی کمپلیکس‘‘ مل گیا تھا اوراس اتحاد کو سندھ میں کرپشن بڑھنے کا ''فارمولا‘‘قرار دیا جارہا تھا کہ اچانک آرمی چیف اور وزیراعظم نے کراچی پر ''چھاپہ‘‘ مارااور طویل عرصے سے بیمار شہر کا نہ صرف حال دریافت کیا بلکہ اس کا موثر علاج بھی شروع کر دیا۔ اپیکس کمیٹی اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے اور اب کراچی کے شہریوں اور تاجروں کو امید کی ایک کرن ضرور دکھائی دے رہی ہے کہ اپیکس کمیٹی کے دھماکے دار فیصلے ہی بتائیں گے کہ کمیٹی کتنی جاندار ہے۔نقاد کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی سے پولیس ''چھن‘‘ گئی تو اُس کی ''کمائی‘‘ اور ''رعب و دبدبہ‘‘ ختم ہوجائے گا۔ چند ''بڑے ‘‘ایماندار افسران آ گئے تو چھوٹے تو خود ہی تسبیح ہاتھوں میں پکڑلیں گے۔ ایجنسیوں کی ''این او سی‘‘کی اہمیت کا اندازہ اب ہوگا کہ واقعی اصل ''نو آبجکشن‘‘ کسے کہتے ہیں؟
اپیکس کمیٹی کے قیام کے لیے جو اجلاس گورنر ہائوس اور فائیو کورمیں ہوئے ان میں وزیر اعظم ‘آرمی چیف ‘ڈی جی آئی ایس آئی سمیت اعلیٰ شخصیات شریک تھیں۔باخبر حلقے کہتے ہیں کہ اجلاس میں آئینی حیثیت نہ ہونے کے باوجود ''کمزور‘‘وزیر اعلیٰ کی جگہ ''طاقتور‘‘ شریک چیئرمین آصف زرداری کو طلب کرنا ماضی کے تجربات کی روشنی کی بنیاد پر تھا۔ سیاسی مداخلت ختم کرنے کی ''گارنٹی‘‘ بھی مانگی گئی کیونکہ کراچی آپریشن کے آغاز سے قبل بھی ایک ایکشن کمیٹی بنی تھی۔ یہ بھی طے ہوا تھا کہ پولیس کے تبادلے و تقرریاں حساس اداروں کے ساتھ رینجرز انٹیلی جنس (فیلڈ سکیورٹی ونگ) کی جانب سے این او سی کے اجرا پر کئے جائیں گے، لیکن پھر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے طے شدہ معاہدے سے انحراف کیا اور سیاسی بنیادوں پر پولیس اور دیگر انتظامی افسران کی تقرریاں اور تبادلے اسی طرح ہوئے جیسے ماضی میں ہوتے آرہے ہیں۔
سندھ پولیس کے غلط استعمال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چیف منسٹر ہائوس سے اعلان ہوا کہ ایک ڈی ایس پی سمیت 46 پولیس اہلکار ذوالفقار مرزا کے فارم ہائوس سے ہٹالیے گئے اور کراچی میں ان کی رہائش گاہ کے باہر پہرہ دینے والے پولیس کے لشکر کو بھی واپس بلالیاگیا۔ زرداری صاحب کے خلاف ذوالفقار مرزا کی ''بیانیہ گولہ باری‘‘سے سندھ کی سیاست میں کوئی ہلچل مچی ہو یا نہیں، ایک راز منصۂ شہود پر آگیاکہ سندھ پولیس کو کس بے دردی سے استعمال کیا جارہا ہے اور پولیس کی طاقت اور لشکر کو اپنے دوستوں‘ساتھیوں اور پارٹی رہنمائوں کے ''بھرم‘‘ دکھانے کے لیے ڈیوٹی پر تعینات کیا جاتا ہے۔ شہر میں موبائل چھینے جارہے ہیں، بینک لوٹے جارہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، ڈاکٹر اور علماء قتل کئے جارہے ہیں، زمینوں پرقبضے دھڑلے سے جاری ہیں لیکن پولیس ''غیر حاضر‘‘ رہتی ہے۔ اب پتا چلا کہ پولیس تو وی آئی پی ڈیوٹی پر تھی۔ سندھ پولیس کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ عوام کی محافظ ہے یا سیاستدانوں کی نوکر؟