لی کوان یو نے دنیا میں طویل ترین مدت کیلئے وزیر اعظم بننے کا ریکارڈ قائم کیا۔ انہیں جدید سنگاپور کا بانی ماناجاتا ہے اوریہ تیسری دنیا سے واحد مثال ہے کہ صرف ایک نسل میں ہی سنگاپورجدید دنیا کے مقابل کھڑا تھا۔ 1990ء میں ساتویں مرتبہ الیکشن جیتنے کے بعد لی نے اقتدار چھوڑا۔ یہ لی کوان یو ہی تھے‘ جنہوں نے ''سنگاپور سٹوری‘‘( سنگاپور کا کرشمہ) کو عملی شکل دی اور ملائشیا کے ساحلوں کے قریب واقع اِس چھوٹے سے جزیرہ نما ملک کوجہاں کیچڑ اور کچرے کے علاوہ جاپان کی جلاوطن طوائفیں ہی رہتی تھیں دنیا کی خوشحال ترین ریاستوں میں لاکھڑا کیا۔
لی کوان یو 1959ء میں سنگاپور کے وزیر اعظم بنے۔ اس شہری ریاست کی اپنی ایک الگ انتظامیہ تو تھی لیکن بنیادی طور پر یہ ایک برطانوی نوآبادی تھا؛ تاہم لی نے دیکھتے ہی دیکھتے سنگاپور کی اقتصادی کارکردگی کو کئی گنا بڑھا دیا اور یوں اس شہری ریاست کی خوشحالی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کاایک رازیہ بھی تھا کہ لی کوان یو نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنے ملک میں آنے تو دیا لیکن ان کی چونچ کی دھار کند کردی۔اُس کے ذہن میں ہمیشہ ملائشیا کے (اُس وقت کے)وزیراعظم مہاتیر محمدکے جملے گونجتے تھے کہ ''ملٹی نیشنل کمپنیاں چیل اور گِدھوں کی طرح ملائشیا پر حملہ آور ہوگئی ہیں اور یہاں کے وسائل کو نوچ رہی ہیں‘‘ لی نے سنگاپور کے عوام کا گوشت ملٹی نیشنل کمپنیوں کو نوچنے نہیں دیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنی شرائط پر سنگاپور میں داخلے کی اجازت دی اور سب سے اہم شرط یہ تھی کہ وہ اپنے تمام ملازمین کیلئے تنخواہ کے علاوہ اُس کا پچیس فیصد حصہ سرکاری خزانے میں جمع کرائیں گی۔ اِس رقم سے تمام سنگاپوری شہریوں کیلئے مفت گھر بنانے کا منصوبہ تھا۔ یہ دنیا کا عجیب و غریب قانون تھا لیکن سنگاپور میں آج بھی ہزاروں تیارگھر مکینوں کا انتظار کررہے ہیں۔ اب وہاں مکان کے نعرے پرکوئی ووٹ نہیں لے سکتا۔
1965ء میں سنگاپور کی فی کس آمدنی تقریباً چار سو ڈالر تھی جو 1990ء میں بڑھ کر بارہ ہزار ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ یہ وہ سال تھا جب لی کوآن یو نے وزارتِ عظمیٰ کو خیر باد کہہ دیا۔ اس عہدے سے استعفے کے دو عشرے بعد تک بھی وہ ''سینئر ‘‘ اور' 'سرپرست وزیر‘‘ کے طور پر اپنے بعد آنے والی حکومتوں کی کڑی نگرانی کرتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ لی کے سیاسی منظر سے ہَٹ جانے کے بعد بھی سنگاپور کی اقتصادی ترقی کا سفر رْکا نہیں بلکہ اور بھی تیز رفتاری سے جاری رہا۔ لی کیوان یو کے اقتدار سے علیحدگی کے بعد سنگاپور کے آئین میں ترمیم کرکے یہ شق ڈالی گئی کہ سنگاپور کی پارلیمنٹ کسی بھی قانون اور سابقہ تجارتی پالیسی میں ترمیم نہیں کرسکتی جب تک اعزازی سینئروزیر لی کیوان یو اُس کی منظوری نہ دیں۔ انہیں ''سُپر پارلیمنٹ‘‘ کا درجہ دیا گیا۔
2000ء میں ''فرام تھرڈ ورلڈ ٹو فرسٹ‘‘ (تیسری دنیا سے پہلی دنیا )کے نام سے شائع ہونے والی آپ بیتی میں لی نے لکھا ہے کہ''مجھے مشکل صورتِ حال کا سامنا تھا کہ کیسے ایک ایسی ریاست کا انتظام چلائیں جس کے پاس کوئی خام مال بھی نہیں تھا اور جس کی آبادی زیادہ تر اَن پڑھ شہریوں پر مشتمل تھی‘‘لیکن لی نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔جرمن صحافی گیورگ بلْومے کے مطابق لی کیوان یو ایک ایسا' 'آمر‘‘ ہیں جس نے 1965ء کے بعد سے اقتدار میں یا اقتدار سے باہر بھی سنگاپور پر اِس انداز سے حکومت کی کہ اپوزیشن کے لیے جگہ نہ ہونے کے برابر تھی۔
سنگاپور میں چیونگم پر سختی سے پابندی ہے۔ دیواروں پر لکھنے اور نقش و نگار بنانے والے کے لیے قید اور کوڑوں کی سزائیں ہیں۔ منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے لیے موت کی سزا ہے۔گولی چل جائے تو موت کی سزا ہے قتل کرنا تو بہت دورکی بات ہے۔ مغربی دنیا کی طرح کے آزاد پریس کے تصور سے بھی سنگاپور ابھی کوسوں دور ہے۔ پچاس لاکھ کی آبادی والی اس گنجان آباد ریاست میں چینی‘ ملائی‘ ہندوستانی اور دیگر اقلیتوں کے مابین نسلی اور مذہبی تنازعات ایسے موضوعات ہیں جن پر رپورٹ کرنا ممنوع ہے۔ لی کیوان یو کی نظر میں آزادی صحافت وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے یہ لگنے لگے کہ
ریاست کے استحکام کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے۔ سنگا پور کا نام جب بھی ذہن میں آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارے ہی ملک کا حصہ ہے۔ ہمارے یہاں بھی شکار پور ، رانی پور، خیر پور، محراب پور‘خان پور‘دیپال پور ہیں۔اس کا ''سائونڈ‘‘ ہمیں اپنائیت کا اشارہ دیتا ہے کراچی میں لوگوں کو سنگاپورسے اتنی محبت ہے کہ دودھ پتی چائے کے فیشن سے پہلے مصالحہ والی چائے کو سنگاپور ی چائے کہا جاتا تھا جبکہ شادی کے کھانوں میں سنگا پور ی بریانی بھی شامل کی جاچکی ہے۔ انڈیا نے ایک فلم کا گانا بھی سنگاپور پربنایا جس کے بول کچھ اس طرح ہیں۔
زندگی میں ایک بار آناسنگا پور
بینظیر بھٹو لی کوان یوکی کرشماتی شخصیت سے اتنی متاثر تھیں کہ انہوں نے لی کوان یو کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی اور گورنر ہائوس کراچی میں عمائدین شہر کے ہمراہ ایک عشائیہ دیا گیا۔اس میں کوئی تقریب کا پروگرام نہیں تھا صرف ایشیاء میں بیٹھ کر عالمی طاقتوں کو چیلنج کرنے والی شخصیت کا قریب سے دیدار کرانا تھا۔ کھانے کے دوران ہلکے پھلکے جملوں میں سنگا پور کے'' خاموش انقلاب ‘‘کے بانی لی کوان یو سے پوچھا گیا کہ '' پاکستان کی ترقی کے لئے کیا مشورے ہیں‘‘جواباً وہ مسکرائے اور کہا کہ '' ترقی بعد میں کرلینا پہلے دو کام تو کرلو اول گورنر ہائوس میں مجھے رات آرام کرنے کے لئے جو کمرہ دیا گیا ہے اُس کی گھڑی ڈیڑھ گھنٹہ پیچھے ہے۔ دوئم یہ کہ میں جب بھی سنگا پور کال ملاتا ہوں ایک دوبار لائن ضرور کٹ جاتی ہے یہ دو چیزیں ٹھیک کرلو باقی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے‘‘ جس پر ایک قہقہہ لگا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
جب لی کوان یونے چارج سنبھالا تو ابتدائی دنوں میںٹریفک پولیس کے 10 اعلیٰ افسران کو بلایا صبح 9 بجے چائے سے خاطر تواضع کے بعد کہا گیا ''صبح 10بجے کوئی بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرے اس کا چالان کریں اورجرمانہ وصول کریں ‘‘سب نے کہا ''اس سے کیا فرق پڑے گا ؟اس طرح ملک ترقی نہیں کرسکتا‘‘ لی کوان یو نے مسکراتے ہوئے کہا ''جب لوگ لنچ کے لئے جائیں گے تو باتیں کریں گے کہ سنگاپور میں قانون حرکت میں آگیا ہے سنبھل جائو کہ جب قانون حرکت میں آتا ہے تو لاقانونیت رُک جاتی ہے اور قوموں میں نظم وضبط پیدا ہوتا ہے‘‘۔
لی کوان یوسنگاپور ہی نہیں پوری دنیا کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے یہ حکم دیا کہ آپ کو فیکٹری لگانی ہے یا فلورمل‘ منرل واٹر کا پلانٹ لگانا ہے یا کمرشل ہسپتال بنانا ہے‘ آج درخواست دیں اجازت نامہ دوسرے روزدوپہر کے بعد کوریئر کے ذریعے آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔ سنگا پور میں پراپرٹی خریدنے کے قوانین بھی عجیب ہیں اگر آپ کے پاس اپنے جائز پاسپورٹ کی فوٹو کاپی ہے تو آپ سنگاپور میں کوئی پلاٹ ‘مکان ‘فیکٹری ‘ہوٹل‘ فلیٹ اور ڈسکو کلب خریدکر اس کے مالک بن سکتے ہیں۔ سنگاپور پوری دنیا میں ترقی کی ایک مثال ہے‘ جہاں کی قومی زبان انگریزی ہے۔ انہوں نے اپنی مادری زبان گھروں تک محددو کردی تاکہ پوری دنیا میں ترقی اور علم کے دروازے اِن کے لئے کھل جائیں۔ اپنی کرنسی کو بھی سنگاپور ی ڈالر کے نام سے شناخت دی تاکہ دنیا میں پہچان کرانے میں کوئی مشکل نہ ہو۔ سنگاپور کے قانون کے تحت آپ پلاٹ کے مالک بن سکتے ہیں لیکن اُسے خالی نہیں چھوڑ سکتے۔ خالی پلاٹ پر بلدیاتی قوانین کے تحت سبزہ لگانا ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بچہ سائیکل پر گزرے اور اُس کے چہرے اور آنکھوں میں مٹی چلی جائے اگر آپ نے سبزہ نہیں لگا یا تو بلدیہ وہ پلاٹ ضبط کرسکتی ہے۔
سمندری جغرافیائی حیثیت کا بہترین استعمال کوئی سنگاپور سے سیکھے۔ ہم تو اتنے بے وقوف ہیں کہ کراچی ائیرپورٹ کے ٹرانزٹ پیسنجر(مسافر)کو کنیکٹڈ فلائٹ کی سہولت فراہم کرنے کے منصوبے بھی فائلوں میں کاکروچ کے انڈوں تلے دبے ہوئے ہیں‘ ہم پہلے چور تھے‘ پھر کمیشن خور بنے اور اب آدم خور بن گئے ہیں۔لیکن ہماری ایک خوبی یہ ضرور ہے کہ ایک ہی لیڈر کو بار بار آزماتے ہیں‘ ایک ہی نظام کو بار بار چلاتے ہیں‘ چاہے وہ ناکامی کے تمام شعبوں میں پہلے نمبر پر ہو۔ شاید اسی لئے کسی شاعر نے کہاہے ؎
یا رب تو نے مجھے کس دیس میں پیدا کیا
جس دیس کے بندے ہوں غلامی پر رضامند
ہمارے'' متبرک ‘‘اور ''مقدس ‘‘لیڈر تو ملک کو بھی کسی صنعت یا کھیت کی طرح چلانے پر بضد ہیں۔ وہ عوام کومزدور سمجھتے ہیں یا پھر کسان۔ ہمارے سیاستدان تو پارٹی کی لیڈر شپ اپنی اولاد کے سوا کسی کے حوالے نہیں کرتے۔ اوربعض ایسے لیڈر بھی ہیں جو اپنے بیٹے تک پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ایوب خان نے پاکستان کے بارے میں کہاتھا کہ ''یہ قوم جمہوریت کے قابل نہیں ہے اِسے براہ راست ایم اے پولیٹیکل سائنس نہ کرائیں بلکہ پرائمری سے پڑھائیں‘‘اسی لئے ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا بلدیاتی نظام متعارف کروایا تھا۔جمہوریت صنعتی معاشرے کا نظام ہے‘ جسے ہم جاگیردارانہ معاشرے میںٹھونسنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی پائوں کا موزا دستانہ سمجھ کر پہننے کی کوشش کرے اور ساتھ ہی یہ بھی کہے کہ ''موزا تو موزا ہوتا ہے چاہے ہاتھ میں پہنو یا پائوں میں‘‘علامہ اقبال نے تڑپتے ہوئے یہ بھی کہا تھا ؎
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے‘ سلطانی بھی مکاری
لی کیوان یو کے ویسے تو بے شمار مقولے ہیں لیکن اُن کے آخری وقت کے ایک مقولے سے ان کے عزم ‘ جوش و ولولے اور حب الوطنی کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ''میں بستر علالت پر ہوں جب تم لوگ مجھے قبرمیں اُتاروگے اور میں نے محسوس کیا کہ کچھ غلط ہورہا ہے تو میں اٹھ کر کھڑا ہوجائوں گا‘‘۔