خبروں کے اعتبار سے کراچی، جیکب آباد اور سبی سے زیادہ گرم شہر ہے۔ نائن زیرو پر چھاپے سے صولت مرزا کی ویڈیو اور نبیل گبول کے استعفیٰ سے ضمنی انتخاب کے سلگتے ماحول تک کراچی سے گرماگرم خبروں کی بارش ہورہی ہے۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن شروع تو بحرانِ یمن کے نام پر ہوا، بحث بمباری پرہونی تھی لیکن ذکر کراچی کا ہوتا رہا اور زبانیہ بمباری سے ایم کیو ایم اور تحریک انصاف ایک دوسرے کو''زخمی‘‘کرتے رہے۔
این اے 246 نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کراچی کی سیاست میں تلاطم ہے، محاذ جنگ میں تبدیل ہونے والے اِس حلقے میںانتخابی گرماگرمی نے شہر کا درجہ حرارت بڑھادیا ہے۔ جذبات کی لہریں فلائی اوورز، سائن بورڈز اور بلند عمارتوں کو کراس کررہی ہیں۔ ۔ہر جگہ یہی بحث چل رہی ہے۔ چائے ‘ کولڈ ڈرنک اورکھانے سے لے کر بڑی بڑی شرطیں لگ رہی ہیں۔ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال ہے۔۔۔۔۔ ضمنی انتخاب کون جیتے گا؟ بیشتر لوگ اسے یک طرفہ مقابلہ کہہ رہے ہیں ، کئی اِسے کراچی میں اہم تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں تو بعض نے کہا کہ یہ الیکشن تحریک انصاف کے کراچی میں '' سیاسی داخلے ‘‘کا ٹکٹ ہے۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ مخالف امیدوار کی ضمانت ضبط ہوجائے گی تو عمران خان اور امیدوار عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ ''ہم بھرپور مقابلہ کریں گے اور کراچی کی یہ سیٹ ہماری ہوگی‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ فوج اور رینجرز نگرانی کریں۔ ایم کیو ایم ابتدا میں کچھ محتاط ہوگئی تھی ۔۔۔۔ نائن زیرو پر چھاپے اور صولت مرزا کی ویڈیو سے پیدا شدہ صورت حال نے ایم کیو ایم کو'' بیک فٹ ‘‘پر دکھیل دیا تھا ، وہ میڈیا کی ''ہٹ لسٹ ‘‘پر تھی، وہ اس قدر جذباتی ماحول نہیں پیدا کرسکی جس کی الیکشن میں ضرورت ہوتی ہے۔ کریم آباد میں قائم کیمپ پرنامعلوم نوجوانوں کے حملے نے ایم کیو ایم میں نئی جان ڈال دی اور وہ جوش و جذبے کے ساتھ انتخابی مہم پر نکل کھڑی ہوئی۔ اس سے قبل ایسے ہی جوش کا مظاہر ہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے کیا تھا لیکن پھر خواجہ آصف کی تقریر نے پی ٹی آئی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اورجوں جوں وقت گزرتا گیا صورت حال تبدیل ہوتی چلی گئی۔ پی ٹی آئی کا خیال تھا کہ مرحلہ وار رینجرز آپریشن کے نتیجے میں نڈھال ایم کیو ایم شاید ہی مقابلہ کرسکے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین کراچی آئے اور چلے گئے، نقادوںکا کہنا ہے کہ انہوں نے کراچی کو حیدرآباد جتنا وقت بھی نہیں دیا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ عمران خان پارٹی کارکنوں کی کم تعداد سے مایوس ہوئے، شاید اسی لیے وہ جناح گرائونڈ پر زیادہ دیر تک نہیں رکے۔ باخبر حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جناح گرائونڈ میں عمران خان کے کان میں کسی نے کچھ کہا جس کے بعد وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ تیز رفتاری سے واپسی کے باعث نادر اکمل لغاری اور فیصل واوڈا کی گاڑیاں الٹ گئیں جس سے نادر لغاری کے دو گارڈز اور دو موٹرسائیکل سوار زخمی بھی ہوئے؛ تاہم ان زخمیوں کی تعدادکوچھپایا گیا اور مرہم پٹی کرا کے گھر بھیج دیا گیا۔
ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی میں شعلہ بیانی کے بعد الطاف حسین نے ٹھنڈی پھونکیںمارکر درجہ حرارت کم کیا۔ عمران خان کو جب یہ یاد آیا کہ وہ آدھے مہاجر ہیں تو الطاف حسین نے انہیںپورا مہاجر تسلیم کرلیا اور رابطہ کمیٹی کو ہدایت کی کہ بھابھی ریحام خان کے لیے سونے کا سیٹ‘ عمران خان کے لیے سوٹ اور دیگر تحائف پیش کئے جائیں۔کسی نے یہ خبر بھی اُڑادی کہ ہار سونے کانہیں چاندی کا ہے اور اِس پر سونے کا تو صرف پانی ہے جس پر ایم کیو ایم نے برہمی کا اظہار بھی کیا اور دکان کی رسید تک دکھادی کہ سوا دو لاکھ روپے دے کر یہ سیٹ خریدا گیا ہے۔
این اے 246میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اپنے پتے انتہائی مہارت سے کھیل رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے پکے ووٹ تو اُن کے ساتھ ہیں ہی لیکن جو لوگ عمران خان کی طرف جانا چاہتے ہیں یا ارادہ کر رہے ہیں، وہ بھی اس صورت حال سے پریشان ہیں کہ 126دن اسلام آباد کے کنٹینر میں گزارنے والے عمران خان جناح گرائونڈ میں 10منٹ بھی نہ ٹھہر سکے۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ پنجاب میں ہجوم اکٹھا کرنا عمران خان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن کراچی میں لوگ جمع کرنا ایک مشکل کام ہے، شاید اسی لیے جناح گرائونڈ میں بھی اتنے لوگ نظر نہیں آئے کہ عمران خان ''اندر‘‘ سے مطمئن ہوجاتے۔ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عمران اسماعیل بنگالی پاڑے جیسے پسماندہ علاقے میں بھی نہیں گئے جہاں کے ووٹ انہیں مل سکتے تھے اور نتیجہ یہ نکلا کہ بنگالی کمیونٹی نے ایم کیو ایم کے امیدوار کی حمایت کردی۔ ایسے کئی علاقے ہیں جنہیں تحریک انصاف نے یکسرنظر اندا زکردیا ہے۔
تحریک انصاف نے جناح گرائونڈ کو جلسے کے لیے چھوٹا قرار دے کر اب شاہراہ پاکستان کو چن لیا ہے جہاں سے سہراب گوٹھ بہت قریب ہے اور شاید وہاں سے سپورٹرز بآسانی مل جائیں۔ یہ پیش گوئی ابھی سے کی جاسکتی ہے کہ 19اپریل کا جلسہ دھرنے کے دنوں والے جلسے کے مقابلے میں زیادہ بڑا نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کے سابق صدراور رازدار مخدوم جاوید ہاشمی تو کہتے ہیں کہ وہ جلسہ کیا ہی ایم کیو ایم کے تعاون سے گیا تھا۔
کراچی میں یہ بحث چھڑ ی ہوئی ہے کہ کراچی کے عوام کس کی قید میں ہیں اور تحریک انصاف انہیں کس سے آزاد کروانا چاہتی ہے؟ تحریک انصاف نے کچھ باتیں سیاسی کیں اورکچھ انتخابی۔2013ء کے عام انتخابات میں شہباز شریف کی وہ تقریریں بھی سب کو یاد ہیں جب وہ آصف زرداری کو گھسیٹ رہے تھے، پہلے تین اور پھر چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کررہے تھے لیکن سب نے دیکھا کہ حبیب جالب کے اشعار سناکر عوام کو گرمانے والے شہباز شریف خود ٹھنڈے پڑگئے۔ پوری دنیا میں انتخاب لڑنے کا ایک طریقہ ہے اور وہ ہے اپنا منشور پیش کرو، اپنا پروگرام عوام کو بتائو، انہیں پسند آئے گا تو ووٹ دیں گے ورنہ کسی اور امیدوار کی طرف بڑھ جائیں گے۔ الزام تراشی، بڑھکیں، دشنام طرازی اورگالم گلوچ سے آج تک کوئی انتخاب نہیں جیت سکا۔
ایک نظر حلقے کے ووٹرز پرڈالتے ہیں۔۔۔۔۔این اے 246 میں کل ووٹرز تین لاکھ ستاون ہزار آٹھ سو ایک ہیں جن میں ایک لاکھ چھیانوے ہزاردوسو تیس مرد اور ایک لاکھ اکسٹھ ہزار پانچ سو اکھترخواتین ہیں ۔کل پولنگ اسٹیشن 213 ہیں جن میں پندرہ مرد ‘ پندرہ خواتین اور 183مشترکہ پولنگ اسٹیشن ہیں۔ مردوں کے 402اور خواتین کے 367 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں ۔211 مرد ‘ 2 خواتین پریزائیڈنگ افسران اور 769پولنگ افسران ڈیوٹی انجام دیں گے۔ الیکشن کمیشن نے رینجرزکو پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر تعینات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دلوں پر پہرہ دینے والے اہلکار کہاں سے لائے جائیں گے؟ ایک محفل میں مزاحیہ گفتگو کرنے والے جوشیلے نوجوان نے کہا کہ ''اگر ہوسکے تو ووٹ بھی انہی پہرے داروں سے ڈلوادیا جائے ‘‘۔
کراچی میں یہ بحث بھی زور پر ہے کہ عمران خان کو نائن زیروعزیز آبادکا دورہ کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ وہ اس دورے سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟ان کا کہنا ہے کہ''میں نے کراچی میں خوف کی فضا ختم کردی ہے ‘‘ لیکن بقول پرویز رشید ''کراچی میںخوف کی فضا ختم کرنے کے دعوے دار عمران خان خود خوف زدہ ہوکر کیوں بھاگے؟ یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب عمران خان کو دینا پڑے گا۔ اگر وہ اتنے شور وغل کے بغیر نائن زیرو اور عزیز آباد کا دورہ کرتے تو انہیں بھی فائدہ ہوتا اور اہلیانِ کراچی اُن کی سیاسی حکمت عملی سے بھی کچھ سیکھتے ۔۔۔۔۔جنگ وجدل اور شور و غل میں تو کوئی بھی نہیں سیکھ سکتا۔ ذرا تحمل ہوتا تو ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر(سابق صوبائی وزیر داخلہ)کو بھی یہ تبصرہ کرنے کا موقع نہ ملتا کہ ''عمران خان کے استقبال کے لیے کارکن کم اور پولیس اہلکار زیادہ تعداد میں آئے۔