سندھ کے بزرگ وزیر اعلیٰ نے بالآخر اپنی تمام ہمت جمع کرکے استعفیٰ دینے کی زبانی پیشکش کردی ہے۔ سانحہ صفورا میں 45 معصوم افراد لقمہ اجل بنے جو سکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت کی بہت بڑی نااہلی قرار دی جارہی ہے۔ قائم علی شاہ نے پہلے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو معطل کیا جو عموماً اس طرح کے واقعات کے بعد ہوتا ہے ، پھرایک قدم آگے بڑھ کر آئی جی سندھ کو بھی ہٹانے کا فیصلہ کیا لیکن ابھی یہ خبر پوری طرح پھیلی بھی نہ تھی کہ ایک اہم ''شخصیت‘‘کا دبائو آ گیا اور ''ریورس گیئر‘‘لگ گیا۔۔۔۔۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آئینی تقاضے آئی جی سندھ کی کرسی کے راستے کی دیواربن گئے تھے۔ اسماعیلی برادری کے دن دیہاڑے قتل عام پر پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔۔۔۔۔۔ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا: ''ہم کب تک سوگ منائیں گے؟ دہشت گردکب مکمل طور پرسوگوار ہوںگے؟‘‘۔
کراچی میں اتنے بڑے سانحے نے اسلام آباد سمیت پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ آرمی چیف نے اپنا دورہ سری لنکا منسوخ کیا اور کراچی پہنچ گئے۔ چند گھنٹوں بعد وزیر اعظم بھی شہر قائد میں تھے۔ یکے بعد دیگرے اجلاس شروع ہوئے۔۔۔۔۔کچھ کی اطلاعات میڈیا تک پہنچیں بعض کا کسی کو پتا ہی نہ چلا۔ اِسی دوران قائم علی شاہ نے تمام افسران و حکام کی موجودگی میں مستعفی ہونے کی پیشکش کی تو آصف زرداری نے اُن کی جانب غصے سے دیکھا اور کہا کہ'' آپ کوکس نے کہا ہے کہ استعفیٰ دو، ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، ہمت پکڑ کر بیٹھو‘‘۔ اس پر عسکری قیادت نے کراچی کی صورت حال پر سخت موقف اختیارکرنے کا اشارہ
دیا۔۔۔۔۔ماحول کشیدہ ہوا اور بالآخر اجلاس ختم کردیا گیا۔ ''ٹھنڈے‘‘ ماحول میں ہونے والی گرماگرمی کے کچھ تھپیڑے باہر بھی آگئے۔۔۔۔۔یعنی استعفیٰ کی زبانی پیشکش اخلاقی طور پر نہیں بلکہ جھنجھلاہٹ میں کی گئی۔ آرمی چیف تین اجلاسوں میں شریک تھے لیکن میڈیا کو صرف دو کے بارے میں بتایا گیا۔ بدھ کی رات گئے ہونے والے ایک اجلاس میں صرف سکیورٹی اداروں کے سربراہان شریک تھے اور اسے میڈیا کی پہنچ سے دور رکھا گیا۔ اجلاس میں انتہائی اہم فیصلے کیے گئے جس کے نتائج آئندہ چند روز میں سامنے آجائیں گے۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ ان فیصلوں کے نتیجے میں بڑی ہلچل مچے گی، کئی کرسیاں ہلیں گی ، کئی چہرے بدلیں گے اور کافی حد تک منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا۔
سانحہ صفورا میں جہاں اتنا زیادہ جانی نقصان ہوا وہاں ملیر کے معطل ایس ایس پی رائو انوار کو بحالی کا فائدہ بھی ہوا ؛ بلکہ انہیںکئی ''اہم ذمہ داریاں ‘‘سونپ دی گئیں۔ ماہرین حیران ہیں کہ ایسے موقع پر یہ سب کچھ کیوں کیا گیا؟کراچی میں ''پاورفل‘‘ شخصیات کئی گھنٹے تک موجود تھیں لیکن اس کا نوٹس نہیں لیا گیا یا شاید جان بوجھ کر ایسا ہونے دیا گیا۔ رائو انوار میں کوئی اور خوبی ہو یا نہ ہو ، ایک خوبی اُن کی اہمیت کو اجاگر کردیتی ہے کہ ایم کیو ایم ان کی مخالف اور وہ ایم کیو ایم کے مخالف ہیں یعنی دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔
قائم علی شاہ پارلیمانی طور پرسندھ کی طاقت ور شخصیت ہیں ۔ اُن کا ارکان اسمبلی میں بہت اثر ورسوخ ہے، وہ ارکان سندھ اسمبلی کو قابو میں رکھنے کا فن جانتے ہیں، انہیں یہ علم ہے کس کی کیا قیمت ہے ؟کس کی کیا طاقت ہے ؟کس کو پیار کرنا ہے اور کس کو ڈنڈا دکھانا ہے ؟ کون ''گاجر‘‘ سے مان جائے گا اور کسے'' کھیرے‘‘ کی ضرورت ہے ؟ایک جملے میں کہا جائے تو قائم علی شاہ ڈاکٹر عشرت العباد ''پارٹ ٹو‘‘ ہیں۔
سیاسی مخالفین یہ چاہتے ہیں کہ قائم علی شاہ کی کرسی کو ہلا کر دیوار گرانے کا راستہ بنایا جائے اور قائم علی شاہ کے حامی جانتے ہیں کہ اگر ''میوزیکل چیئر‘‘کے اس کھیل میں ایک کھلاڑی آئوٹ ہوا تو پھر ایک سلسلہ چل پڑے گا۔۔۔۔۔ وزراء کو نکالنے کے مطالبات سامنے آئیں گے۔ پانی کا بحران ہوا تو شرجیل میمن ، جیل سے قیدی بھاگا تو منظور وسان، بچے پڑھائی میں پیچھے رہ گئے تو نثار کھوڑو، سرکاری اسپتالوں میں مریض مرنے لگے تو جام مہتاب ڈہر، کچی شراب سے ہلاکتیں ہوئیں توگیان چند، مستحقین کو زکوٰۃ نہ ملی تو دوست محمد راہموں، کوئی بڑا ٹریفک حادثہ ہوگیا تو ممتاز حسین جکھرانی کو بھی استعفیٰ دینا ہوگا۔ اورصرف یہی نہیں12وزارتوں کا قلمدان رکھنے والے قائم علی شاہ کی ساتھ 2 مشیر ، 13اسپیشل اسسٹنٹ اور4کوآرڈی نیٹرز بھی '' بے روزگار‘‘ ہوجائیں گے۔
قائم علی شاہ اُس بوڑھے باپ کی طرح ہیں جسے یہ خطرہ ہے کہ اُن کے ''سیاسی بچے‘‘کہیںاُنہیں ''ایدھی ہوم‘‘میں نہ جمع کرادیں ، اس لیے انہیں خود اپنی ذمہ داریاں بیٹوں کو سونپ دینی چاہئیں۔ لیکن افسوس! ہمارے ملک میں'' استعفیٰ کلچر‘‘موجود ہی نہیں۔ ہم عجیب قوم ہیں اس لیے ہمارے لیڈر بھی ویسے ہی ہیں۔ یہاں ٹرینیں ٹکراجائیں، جہاز گر جائیں، بسیں تباہ ہوجائیں، بم دھماکے ہوجائیں، خود کش حملے ہوں ، انسانی نعشوں کے ڈھیرلگ جائیں، پیٹرول بحران ہو یا سی این جی کی بندش، پانی کی تلاش ہو یا بجلی کا انتظار۔۔۔۔۔۔کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں ہوتا تو استعفیٰ کیوں دے؟ ہم خود سے اوپر نہیں بلکہ نیچے دیکھتے ہیں۔ ہم فرانس‘ اٹلی‘ اسپین کی مثالیں نہیں دیتے بلکہ آرمی پبلک اسکول اور ماڈل ٹائون سانحات کو جواز بناتے ہیں۔ پشاور میں ڈیڑھ سو بچے اور دوسرے افراد شہیدہوئے تو پرویز خٹک کیوں مستعفی نہیں ہوئے؟ لاہور میں پولیس اہلکاروں نے معصوم لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا تو کیا شہباز شریف نے استعفیٰ دیا تھا؟
قائم علی شاہ کے استعفیٰ کی گونج سندھ اسمبلی تک بھی پہنچ گئی ہے ۔۔۔۔۔اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ قائم علی شاہ اپنی اہلیت ثابت کریں یا پھر مستعفی ہوجائیں۔ اس گرما گرم مطالبے پر صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے جوابی سوال کیا کہ ''جب سانحہ واہگہ بارڈر ہوا تو کیا شہباز شریف نے استعفیٰ دیا تھا؟‘‘اسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔ عذرگناہ بدتر ازگناہ !
اس وقت سندھ میں تمام مسائل پس پشت جبکہ قائم علی شاہ کا استعفیٰ سرفہرست ہے۔ ہر طرف سے ایک ہی آواز آرہی ہے ۔۔۔۔۔''قائم علی شاہ سے استعفیٰ لیا جائے‘‘ لیکن اس کی مدلل وجہ کوئی نہیں بیان کرتا جبکہ سندھ کے بعض سینئر ترین سیاست کاروں کا یہ خوف بہت غور طلب ہے کہ اگر قائم علی شاہ کی حکومت ''اپ سیٹ‘‘ہوئی تو سندھ حکومت کے کئی بڑے اور طاقتور ستون گرنے شروع ہوجائیں گے یا گرادئیے جائیں گے۔
گورنر سندھ بھی رخصتی کا کوئی ''شارٹ کٹ‘‘ڈھونڈ رہے ہیں اوروفاقی حکومت نے ان کو ''نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت گورنر ہا ئوس سنبھالنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے لیکن کبھی کبھی دل ِنادان یہ سوچتا ہے کہ بے چارہ سندھ کا گورنر'' گورنر ہائوس‘‘ میں ''قید‘‘ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ صیاد مسکرا رہا ہے یا کوئی اور پلاننگ کی جارہی ہے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ قائم علی شاہ کا استعفیٰ دہشت گردی ختم کرنے میں مدد دے یا نہ دے لیکن سندھ میں کرپشن کم کرنے میں معاون ضرور ثابت ہوگا۔ ہمارے ملک میں اخلاقیات کا بحران تمام بحرانوں سے سنگین ہے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی آئین کو نصاب میں شامل کرنے کے بجائے اگر اخلاقیات کو نصاب کا حصہ بنوادیں تو شاید ہماری کوئی نسل اس سے فیض یاب ہوجائے۔