"ISC" (space) message & send to 7575

اب ’’بول‘‘…!

جب 16دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہوا تھا تو مغربی پاکستان کے اخبارات نے تین سطر کی خبر شائع کی تھی کہ ''دو فوجی کمانڈروں نے معاہدے کے تحت جنگ بندی قبول کرلی‘‘ لیکن آج پاکستانی میڈیا نے یہ ثابت کردیا کہ جب اپنے گروہی مفادات کا معاملہ ہو تو چار‘ پانچ دن لگاتار، بغیر آرام اور وقفے کے ایسی لڑائی بھی لڑی جاسکتی ہے جس سے پوری دنیا حیران ہو کر پوچھنے لگے: '' اپنے ملک کے لیے تو اس طرح نہیں لڑے تھے؟‘‘ آج کل ایک ایسی آئی ٹی کمپنی میڈیا پر چھائی ہوئی ہے جس کا کل تک کسی نے نام بھی نہ سنا تھا، وہ آج ٹی وی چینلز کی ہیڈ لائن سے شروع ہوکر موسم کا حال اور انٹرٹینمنٹ نیوز تک کا وقت بھی''کھا‘‘رہی ہے۔ اِس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کمپنی کا کاروبار غیر قانونی ہے بلکہ اِس کا جرم یہ ہے کہ اِس نے ایک بڑا ٹی وی چینل نیٹ ورک شروع کرنے کا اعلان کیا اور اِس کا دوسرا جرم یہ تھا کہ اِس نے ''آن ایئر‘‘ ہونے سے قبل ہی اپنے گروپ کو پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ لکھنا شروع کردیا ... بس پھر کیا؟ موقع ملنے کی دیر تھی کہ تمام ٹی وی چینلز ''راشن پانی‘‘ لے کر چڑھ دوڑے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کسی ایک کا پلان تھا ، دیگر ٹی وی چینلز ''استعمال‘‘ہوگئے۔ ہٹلر نے مسلسل جنگ کا اصول اپنایا تو وہ کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ قانونِ قدرت انسان کی 
مرضی کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ قادر ِمطلق کے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔''فنا‘‘سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ''انا‘‘ کی دلدل سے خود کو نکال لیا جائے۔ پہلے اخبارات کے بنڈل خریدلیے جاتے تھے اور اب ایسی خریداری مخالف ٹی وی چینلز کے''ٹیلنٹ‘‘ کی ہوتی ہے۔''ٹیلنٹ‘‘ کی ایک ''فوج‘‘ آن ڈیوٹی اور دوسری ''اسٹینڈ بائی ‘‘رکھنے کا عمل بھی ایک ٹی وی چینل نے شروع کیا جو آج سب سے زیادہ ''خوف ‘‘کا شکارنظر آتا ہے، جس کا اندازہ اُس کی نان اسٹاپ ٹرانسمیشن سے لگایا جاسکتا ہے ۔
ایک دوسرے کے خلاف بولنے والے چینل میں سے کچھ ''ایک‘‘ہوگئے ہیں۔ بعض ٹی وی چینلز نے تو ایک دوسرے کیخلاف مقدمے تک دائر کر رکھے ہیں، لیکن تازہ لڑائی میں وہ سب کچھ بھول بھال چکے ہیں۔ انہیں صرف ایک نیا ''دشمن‘‘ نظر آرہا ہے جو ''مستقبل‘‘بدلنے کا وعدہ کرچکا ہے اور سب کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ کئی اینکرز توایک تیر سے تین شکار کرتے ہوئے نئے چینل کے مالک شعیب شیخ کو بھی اس لیے لائن پر لے رہے ہیں کہ ریٹنگ بھی مل جائے، 
غیر جانبداری کا ثبوت بھی دیا جائے اور اپنی نوکری ''ہینڈسم امائونٹ‘‘میں پکی کرلی جائے۔ پاکستان کے میڈیا میں جو کچھ ہورہا ہے ایسا نہ کچھ سوچا تھا نہ ہی وہم و گمان میں تھا، لیکن ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ ''اسقاط حمل ‘‘کی کوشش اب ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ بعض دفعہ ''بیک فائر‘‘حملہ آور کے لیے ہی مصیبت جان بن جاتے ہیں۔ ایگزیکٹ کے ٹی وی چینل نے اس لڑائی جھگڑے میں اتنی پبلسٹی حاصل کرلی ہے کہ شاید اربوں روپے خرچ کرنے کے باجود بھی اسے نصیب نہ ہوتی۔ تاریخ کے سبق بڑے نرالے ہیں اس لڑائی کی تمام تفصیلات اخبارات میں بھی شائع ہوچکی ہیں، جو سچ تھا وہ سب نے پڑھ لیا اور جو سچ نہیں تھا وہ بھی قارئین کو پڑھوادیا گیا۔ سچ یہ ہے کہ 2016ء تک پاکستانی قانون کے تحت کمپیوٹر کے کاروبار پر کوئی ٹیکس نہیں ہے اور ''سپر سچ ‘‘یہ ہے کہ فلاں کمپنی نے ٹیکس ادا نہیں کیا ، کچھ پتا نہیں چل رہا کہ قانون سچا ہے یا میڈیا کا ''لٹھ بردار دستہ۔۔۔!‘‘۔
الطاف حسین حالی نے مصیبت کے ایام کو ٹالنے کا ایک ہی حل بتایا تھا اور وہ وقت دعا تھا:
اے خاصہ خاصان رُسُل وقت ِدعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
تاریخ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جب قومیں بند گلی میں پہنچ جاتی ہیں تو وہاں سے نکلنے کا راستہ تاریخ بتاتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے صاحبزادے امام حسینؓ کو خط لکھا تھا جس میں ایک شاندار اور عالی شان مشورہ دیا تھا کہ''اے بیٹے جب دشمن تیری تباہی و بربادی کا گڑھا کھود رہا ہو تو غمگین مت ہونا کیونکہ تمہیں کیا خبر کہ تیرا رب تیری کامیابی اور کامرانی کے محل کی بنیادیں تیرے دشمن ہی سے کھدوا رہا ہو‘‘۔
کراچی کی میڈیا وار جو پورے پاکستان میں آناً فاناً پھیلی یہ دو''سیٹھوں‘‘ کی لڑائی بھی ہوسکتی ہے، لیکن قوم کو یہ دیکھنے کا موقع بھی ضرور ملا کہ اب ''الیکٹرانک میدان ِ جنگ‘‘ میں آنے والوں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ میدان اب ہر کسی کے لیے آسان نہیں رہا، لیکن انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ ''جب تمام ادارے کامیابی سے کام کررہے ہوں تو اس وقت خود بخود نظام ِ قدرت کے تحت ایک نئے ادارے کے لیے جگہ خالی ہوتی ہے اور یہ جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے‘‘۔ اس نظام قدرت نے دنیا میں نت نئی ایجادات کو جنم دیا اور انسان جدید سے جدید تر ہوتا چلا گیا اور سہولیات سے فیض یاب ہونا بھی اسی نظام کا حصہ ہے۔کچھ لوگوں کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور کچھ اداروں کو کامیابی کی بلندیوں کو چھونا ہے۔ یہ قانون ِقدرت ہے کہ ایک جاتا ہے تو دوسرا آتا ہے، اس سسٹم اور قانون میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں۔ شاہد آفریدی نے جب 37گیندوں پر سنچری بنائی تھی تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ یہ ریکارڈ ٹوٹ جائے گا، لیکن پہلے کورے اینڈرسن نے 36گیندوں پر اور پھر اے بی ڈیولیئرز نے 31گیندوں پر یہ ریکارڈ توڑ دیا اور کہا گیا ''ریکارڈ بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں‘‘۔
کراچی کی میڈیا وار میں نہ کسی کی جیت اور نہ ہی کسی کی ہار ہوگی۔ انسان کچھ وقت گزرنے کے بعد بڑے سے بڑے واقعات کو بھول جاتا ہے، ان کے اثرات بھی ختم ہوجاتے ہیں، لیکن زندگی کا سفر جاری وساری رہتا ہے اور بعض اوقات ایک ہنسی سی آتی ہے کہ ہم اتنی چھوٹی اور احمقانہ بات پر کس قدر جوش وجنون کے ساتھ لڑے تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں