کراچی کو ایک بار پھر جملہ بازی کا''میدان جنگ‘‘ بنایا جارہاہے۔ ایک طرف رینجرز اپنا کام کررہی ہے اور دہشت گردوں کے بعد ان کے'' فنانسرز‘‘بدعنوان سرکاری افسران کو بھی آپریشن کے دائرے میں لارہی ہے کیونکہ رینجرز اہلکاروں نے طویل تحقیق اور مختلف انٹیلی جنس رپورٹوں کے بعد یہ کہانی سمجھ لی ہے کہ دہشت گردی کے پیچھے بدعنوان سرکاری اہلکار ہیں‘ جو لوٹ مار کرکے بڑا حصہ خود رکھ لیتے ہیں اورجو تھوڑا ( وہ بھی ماہانہ اربوں روپے) ہوتا ہے اُن دہشت گردوں کی نذر کرتے ہیں تاکہ عوام کو خوفزدہ رکھا جائے اور تحقیقات کرنے والے سویلین اہلکاروں کو ڈرا دھمکاکر کانوں پر ہاتھ رکھنے پر مجبور کیا جائے۔ دوسری طرف سیاست کاروں نے بھی آپس میں ہلکی پھلکی ''سرحدی جھڑپیں‘‘ شروع کررکھی ہیں۔
گزشتہ دنوں وزیراعظم میاں نواز شریف نے کراچی میں جوش ِخطابت میں علامتی طور پر ان مہاجروں کو مکھی قرار دے دیا جو مختلف مرحلوں پر اپنی جان ماورائے عدالت معاملات میں گنوا بیٹھے تھے۔ میاں نواز شریف کی جانب سے ان مہاجروں کو مکھی قرار دینے پر سندھ کے شہری علاقوں میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ'' کراچی میں اگر کوئی مکھی بھی مر جائے تو شہر بند کردیا جاتا ہے‘ گورنر صاحب آپ اِس کو روکیں‘‘ اِسے کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا!۔ گورنر صاحب! شہر بند کرنے والوں کو کیسے روکیں؟ پولیس اور انتظامیہ تو سندھ کے وزیر اعلیٰ کے کنٹرول میں ہیں۔ گورنر کو آئینی زبان میں آج کل ''وفاق کا ڈاکیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب گورنر کو بے بس اور بے اختیار کیا جارہا تھا تو میاں صاحب اس کو روکنے کیلئے آگے نہیں آئے اور سندھ حکومت نے مرحلہ وار سندھ کے گورنر کو بے اختیار کردیا ۔ اب وہ ''بیچارہ‘‘نواز شریف کی خواہش پوری کرنے کے قابل ہی نہیں بچا!
کراچی میں بڑھنے اور اُبھرنے والا غصہ ابھی پک کرلاوا نہیں بنا لیکن ایم کیو ایم آہستہ آہستہ اِس معاملے پر مہاجروں کی غیرت جگا رہی ہے جبکہ نواز لیگ نے اب مؤقف بدلا ہے ۔ اُن کا کہنا ہے ہم تو الطاف حسین کو شہد کی مکھی مانتے ہیں جو بہت قیمتی ہوتی ہے۔ عوام اِس دلیل کوضرور مان لیتے اگر واٹس ایپ جیسی ٹیکنالوجی نہ آئی ہوتی۔ واٹس ایپ پر میاںنواز شریف کی اصل وڈیو اور آڈیو دونوں دھڑادھڑشیئرکی جارہی ہیں۔ ابھی آگ سلگائی جارہی ہے دیکھیں اس کا کیا رزلٹ نکلتا ہے لیکن ایک بات ضرور ہے‘ کراچی کے دانشور حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر حکمران اپنا لب و لہجہ نرم اور مثبت کرلیں تو بہت ساری مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں۔
جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تو انہوں نے بھی میاں نواز شریف کی طرح انہی کے لہجے میں مہاجروں کو علامتی طور پر چوہا کہا تھا اور بات بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ امن وامان کا مسئلہ پیدا ہونے لگا تھا اور بڑی مشکل سے معاملات ٹھنڈے ہوئے۔ مہاجروں نے نواز شریف پر بڑے احسانات کئے ہیں۔ اُن کی سیاست جب صوبائی سطح کی تھی‘ تو مزار قائد اعظم پر کراچی کی تاریخ کے ایک عظیم الشان جلسہ عام میں الطاف حسین نے ایک زبانی قرار داد پیش کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان کے اگلے وزیراعظم میاں نواز شریف ہوں گے۔ جلسۂ عام نے قرار داد کی تائید کی اور الطاف حسین نے اُس وقت کہا تھا کہ'' کیاقرآن میں لکھا ہوا ہے کہ پنجابی وزیراعظم نہیں بن سکتا؟ اب قائد اعظم کے مزار پر نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی منظوری ہوگئی ہے‘‘۔ کراچی کے شہریوں کو وہ جلسہ‘ وہ قرارداد اور تائید آج بھی یاد ہے‘ لیکن آج یہ کہا گیا کہ اس جلسہ میں ہماری تخت نشینی کی منظوری دینے والے مکھی ہیں۔ اس طرح سے قومی اشتعال بڑھتا ہے۔ نسلی منافرت پیدا ہوتی ہے۔ بنگالیوں کو بھی ہم نے ''بھوکے بنگالی ‘‘کا خطاب دے کر نفرت کا نشانہ بنایاتھا اور دنیا نے دیکھ لیا۔ نفرت نے نفرت کو جنم دیا اور ملک کی سرحدیں چھوٹی ہوگئیں ۔ آج 45سال ہوگئے‘ یہ زخم نہیں بھر سکا۔ قوموں کے لیڈر بڑے دل کے انسان ہوتے ہیں‘ تنگ نظر نہیں۔ وزیراعظم پورے ملک کے عوام کیلئے حکمران ہوتاہے‘ اس کا دل وسیع ہوتا ہے ۔ ہماری اسلامی تاریخ میں تو وہ سنہری دور بھی آیا ہے کہ جب ایک خلیفہ نے منبرِ نبویﷺ پر عہد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا پیاسا مرگیا تو اس کا جواب دہ میں ہوں گا‘‘، جبکہ ہماری اسلامی مملکت کے حکمران ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ''وہ مکھی‘‘ ہیں۔ ہمیں نرم مزاجی اور خوش اخلاقی کی ضرورت ہے۔ بے نظیر بھٹو نے ایک جلسۂ عام میں تقریر کرتے ہوئے مہاجروں کو ''چوہا‘‘ کہا تھا۔ یہ ''چوہے‘‘ ان کے اتنے گلے پڑگئے کہ بالآخر ان کے اقتدارکا سورج غروب ہوا۔ لندن میں صنم بھٹو کی رہائش گاہ پرمحترمہ بے نظیر سے ملاقات ہوئی۔ لنچ کے بعد واجد شمس الحسن‘ آصف جیلانی ‘ ڈاکٹر شاہد مسعود اور صابر علی کی موجودگی میں ہم نے محترمہ بے نظیر سے سوال کیاکہ'' آپ نے مہاجروں کو چوہا کیوں کہا تھا؟‘‘ پہلے کچھ دیر انہوں نے اِس پر سوچاپھر ہماری طرف دیکھا اور کہا کہ ''یہ غلطی تھی‘‘۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ ''ہم نے عبدالحفیظ صدیقی جوکہ آپ کے اسپیچ رائٹر تھے ان سے بھی پوچھا تھا کہ ''آپ نے تقریر میں مہاجروں کو ''چوہا‘‘ کیوںلکھا ؟‘‘تو جواباً عبدالحفیظ صدیقی نے کہا کہ'' میرے پاس تقریر کی کاپی موجود ہے‘ میں نے نہیں لکھا تھا اور اس کو تین چار اعلیٰ افسران نے بھی چیک کیا تھا‘‘محفل کے ماحول کو نرم اور دوستانہ دیکھ کر بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ''مجھے ''سادہ کپڑے والوں‘‘ نے ایک پرچی دی تھی اُس پریہ جملے لکھے ہوئے تھے‘‘۔ ایک بار پھر انہوں نے کہا کہ''یہ غلط ہوگیامجھے نہیں پڑھنا چاہیے تھا‘ میں نے سوری بھی کردی تھی‘‘۔ مجھے اُس وقت بے نظیر بھٹو پاکستان کی ایک سچی اور عظیم خاتون لگیں۔ اُن کے قتل کی بہیمانہ خبر مجھے دبئی میں راؤ عمران نے ایس ایم ایس کے ذریعے دی تو میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ وہ ایک عظیم خاتون تھیں۔ وہ غلطی کو تسلیم کرتی تھیں اور ''سوری‘‘ بھی کہتی تھیںکہ انسان خطا کا پتلا ہے۔
عمران خان نے بھی کراچی والوں کو ''زندہ لاشیں‘‘ قرار دیاتھا۔ ایک سیاسی پارٹی کے دفتر پر انتخابی حملہ کرکے پورے کراچی کو گرما گرمی میں مبتلا کردیا اور الیکشن کا نتیجہ بھی دیکھ لیا۔ اسی طرح ذوالفقار مرزا نے بھی اپنی زبان کے کرتب دکھائے اور مہاجروں کو ننگا بھوکا قرار دیا۔ پھر انہیں یہ بھی کہنا پڑا کہ میرے جسم پر جو کپڑے ہیں وہ آصف علی زرداری کے ہیںاور اس غیر ذمہ دارانہ لفظی جنگ کا انجام یہ نکلا کہ گرما گرمی پیدا کرکے اپنی پارٹی اور دوستوں کو بھی ''خدا حافظ‘‘ کہہ گئے۔ کیا ہم پاکستان میں رہنے والے آپس میں بھائی نہیں بن سکتے؟ قیام پاکستان کے بعد سب نے پٹھانوں کو دھتکارا‘ پھر خان عبدالغفار خان کو '' سرحدی گاندھی ‘‘ کہہ کر تمسخراُڑایاگیا۔ قومی وسائل کی تقسیم میں بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا۔ آج بلوچی اخبارات لکھ رہے ہیں کہ'' پورے بلوچستان کا بجٹ چالیس ارب کا ہے اور اسلام آباد کی میٹروبس کیلئے45 ارب روپے خرچ کردیئے گئے‘‘۔ وہ تو یہ بھی لکھتے ہیں کہ ''45ارب روپے اڑادیئے گئے‘‘۔ ملک چلانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم سب قومیتوں کا احترام کرنا سیکھیں‘ نفرت کی آگ نہ بھڑکائیں‘ کیایہ صحیح ہے کہ ملک کو سب سے زیادہ دولت کمانے والے شہر کو قومی وسائل میں سے ہم لاڑکانہ کے برابر بھی حصہ نہ دیں؟ لیکن صرف یہ سوچ لیجئے جب دودھ دینے والی گائے مرگئی تو اُسے ''میٹرو بس‘‘ زندہ نہیں کرسکے گی۔