"ISC" (space) message & send to 7575

ٹیکنالوجی کاعذاب

عیدالفطر کا دن میرے لئے ایک نئے تجربے کا دن تھا۔ دفتروں اور بازاروں کی چھٹی تو سب نے منائی لیکن میں نے اس بار عید کے روز ایک نیا تجربہ کیا اوریہ دن میں نے ہر قسم کی مصروفیت کو چھوڑ کر ''ذہنی سکون‘‘ کے ساتھ منایا۔ موبائل فون کو قابو میں رکھا، ایس ایم ایس کو آنے کی اجازت تھی لیکن جانے کی نہیں۔ مجھ پرایس ایم ایس پڑھنے کی پابندی تھی۔ واٹس ایپ بند تھا، ٹیلی فون خود کرنے میں اتنی احتیاط رکھی کہ کوئی بھی مجھ پر کنجوسی کا الزام لگا سکتا ہے۔ ٹیلی ویژن کو نگاہوںسے دوررکھا۔ میری طرح اخبارات بھی صوفے کے ایک کونے میں آرام کرتے رہے۔ دو دن کے اس ''ناغے‘‘ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ذہنی سکون اور روحانی آرام کا ایک جھونکا لپکتا ہوا میرے پاس آیا اور اُس نے مجھے ''ٹیکنالوجی کے عذاب‘‘ سے نہ صرف نکال لیا بلکہ سوچنے اور غور وفکر کرنے کاموقع بھی دیا اور میرا دل خوشی سے جھومنے لگا۔ میں پہلی بار یہ سمجھ پایا کہ اللہ نے عیدالفطر کا تحفہ ہمیں کیوں دیا ہے؟ میرے اندر سے آواز آئی کہ میں ہر عید پر پیسے خرچ کرکے ''ٹینشن ‘‘کے دلدل میں کیوں اترتا تھا؟ میرے روز وشب کے بدلائو نے مجھے عید انجوائے کرنے کا موقع دیا۔ میں نے خوشی کے اِن ایام میں تحمل کے ساتھ اپنے خاندان کے لوگوں سے گفتگو کی، سب کی بات چیت غور کے ساتھ سنی،کسی کو نہ روکا اور نہ ٹوکا اور نہ کسی سے یہ کہا کہ '' جلدی بات کرو فلاں کی کال ہولڈ پر ہے‘‘۔ اپنے موبائل فون کو اتنا بھی استعمال نہیں کیاجتنی اس کی ضرورت تھی۔ آج سے قبل فون مجھے استعمال کررہا تھا لیکن اِس بار فون کو میں نے اِس ''گستاخی‘‘ کی اجازت ہی نہیں دی اور عیدالفطر سے نہ صرف لطف اندوز ہوتا رہا بلکہ اپنے وطن کے اُن افراد کے بارے میں سوچتا رہا جو ''ٹیکنالوجی کے اِس عذاب‘‘ کی زد میں آکر اپنی عیدکی خوشیاں غارت کرتے ہیں۔
آج کے عہد کے قلم کاروں کا شاید یہ المیہ ہے کہ وہ صرف سیاست دانوں کے بارے میں ہی مسلسل لکھتے رہتے ہیں، اُن کو نہ انسانوں سے پیارہے اور نہ ہی انسانی ذات کے معاشرتی دکھوں سے کوئی لگائو ہے۔ ہمارے معاشرے کے مفادات نے انسانی روحوں کو کتنا زخمی کردیا ہے، کیا ہم اس کا احساس رکھتے ہیں؟ اور اگر نہیں رکھتے تو کیوں نہیں رکھتے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ اس طرح کے لوگ زندگی کی نفسا نفسی کے بارے میں تو لکھنے کی جسارت کرتے ہیں لیکن ان مسائل پرنہیں لکھتے جن میں روحانی تسکین کا سبب موجود ہو۔ 
''واٹس ایپ‘‘ بند کرنے پر دوستوں نے احتجاج بھی کیا، موبائل فون پر ناراضگی کے گرما گرم ایس ایم ایس بھی موصول ہوئے ۔ ہم نے بھی ہمت کرکے اُن سے پوچھ ہی لیا کہ ''حضور! کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم فضولیات سے فارغ ہوکر صرف عید منائیں اور آرام کریں، جسمانی بھی اور ذہنی بھی۔ آرام کا مطلب ہی لاتعلقی ہے اور لاتعلقی اُسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی فیملی اور قریبی رفقا کو وقت دیں اورسو فیصد وقت تحفے کے طور پر دیں، اُن کی بات اتنی غور سے سنیں جس کے لئے وہ پورے سال سے انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ کیا ہم یہ نہیں کر سکتے؟ کاروباری مفادات کے لئے''عید مبارک‘‘ کے اَن گنت پیغامات بھیجنے والوں کو ہم ان ایام میں ٹال دیں۔ دنیا داری کے لئے تو ہمارے پاس عید کے دودن چھوڑیں 363 دن موجود ہوتے ہیں۔ جس طرح زیادہ کھانا صحت کے لئے نقصان دہ ہے اِسی طرح خواہ مخواہ زیادہ مصروف رہنا ذہن کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
اِس عید الفطر کا تجربہ میرے لیے نئی پیدائش جیسا ثابت ہوا۔ عید کے پہلے دن میرے بنائے ہوئے قانون کے مطابق جب میر ا پوری دنیا سے رابطہ کٹ گیا تو مجھے ابتدا میں ایسا محسوس ہوا کہ میں غلط کررہا ہوں اور جب دن گزر گیا، سورج ڈھل گیا، رات شروع ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے ذہن نے نیا غسل لیا ہے اور پاکیزگی کا احساس ابھرنے لگا۔ میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو'' وٹا من بی کمپلیکس ‘‘کا انجکشن لگ گیا۔ آج سے قبل میں''اَدھوری چھٹی‘‘ مناتا تھا اوریہ بالکل'' ادھوراسچ‘‘ کی طرح ہوتی تھی جو منافقت کو تو فروغ دے سکتا تھا لیکن صحیح فیصلوں کو جنم دینے کے قابل نہیں ہوتا اور نہ ہی منزل کا پتا دے سکتا ہے۔ ہمیں ٹیلی فون‘ موبائل فون‘ ٹیلی ویژن‘ واٹس ایپ ‘ وائبر‘ فیس بک اور ایس ایم ایس سے ضرور انجوائے کرنا چاہیے، یہ ایک نعمت بھی ہے اور مسلسل استعمال کیا جائے تو زحمت بھی۔ لیکن یہ جدید سائنسی 
اوزار انسان کا وقت چھین لیتے ہیں، انسان عبادت بھول جاتا ہے۔ گفتگواور برتائو سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں مل پاتا۔ ہمیں اِن ایجادات سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن اس کو مقصد ِ زندگی نہیں بنانا چاہیے۔ اِن جدید ایجادات نے ہماری معاشرتی اور خاندانی رشتوں کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک وقت تھا جب پوسٹ آفس کے ذریعے عید کارڈ ارسال اور موصول کئے جاتے تھے اور اس عرصے میں کوئی ٹیکنالوجی اس راہ میں حائل نہیںتھی... سب کچھ پرسکون تھا، لیکن اب ایسا نہیں،گزشتہ دنوں واٹس ایپ پر ایک اسکیچ نما میسج گردش میں تھا کہ ایک ڈرائنگ روم میں پانچ ‘چھ نوجوان لڑکیوں نے نانی اماں کو گھیر رکھا تھا اور سب کی سب موبائل میں ڈوبی ہوئی تھیں جبکہ نانی اماں خاموش بیٹھی ان کی فراغت اور اپنی باری کا انتظار کررہی تھیں۔ یہ نانی اماں سے ملاقات نہیں تھی، ہماری ثقافت اور تہذیب کی ''تعزیت‘‘ تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ ماحول اور اسٹائل اسی طرح چلتا رہا تو گھر کے بزرگ اپنے گھر میں اکیلے ہوجائیں گے۔
آخر میں ایک ناول نگار کی یہ چند سطر یں قابل غور ہیں... کسی سے پوچھا گیا'' تم اتنے مصروف ہوتے ہوئے بھی سب کے لئے اتنا وقت کیسے نکال لیتے ہو ؟‘‘جواب ملا ''رشتوں کو اہمیت دینا سیکھو... وقت اپنے آپ مل جائے گا‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں