پاکستان میں کبھی استعفے لئے جاتے تھے‘ اب دئیے جاتے ہیں۔پہلے مطالبات کئے جاتے تھے کہ استعفیٰ دو لیکن اب مطالبات کے ساتھ استعفے منسلک ہوتے ہیں۔ پہلے تحریک انصاف اور اب ایم کیو ایم والے استعفوں کی سیاست کررہے ہیں‘ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ استعفے دینے والے اب تک اسمبلی میں موجود ہیں لیکن لینے والے (سپیکرقومی اسمبلی)چلے گئے۔
''آپریشن نائن زیرو‘‘کراچی سے اسلام آباد تک پہنچ چکا ہے‘ معاملات آخری مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔ وفاقی حکومت کراچی آپریشن کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی پر توراضی نہ ہوئی؛ البتہ شکایات کے ازالے کیلئے کمیٹی ضرور بنے گی۔ یہ کتنی موثر ثابت ہوگی یہ وقت ہی بہتر بتائے گا۔ ایم کیو ایم نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ کراچی آپریشن جاری رکھا جائے لیکن ہمارے تحفظات کو ضرور دور کیا جائے تاکہ احساس محرومی کم ہوسکے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان مذاکرات قائد ایم کیو ایم الطاف حسین کی تقریروں اور انٹرویوز پر اٹک گئے ہیں۔ ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ پارٹی قائد کو اظہار رائے کا حق دیا جائے۔ بہرکیف 19نکاتی مطالبات اب سمٹ کر پانچ یا چھ نکات پر آ گئے ہیں‘ جس میں کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل ‘کارکنوں کی گمشدگی وغیرہ شامل ہیں۔ اسلام آباد سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ اب یہ معاملات حل ہوجائیں گے اور انگریزی کی اصطلاح ''فیس سیونگ‘‘پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ حکومت اور ایم کیو ایم دونوں کا ''بھرم‘‘رہ جائے یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
حکومت اور ایم کیو ایم کے مذکرات کی موجودہ صورتحال میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دورہ کراچی انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ کورہیڈ کوارٹر میں منگل کو امن وامان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے انٹیلی جنس اداروں ‘ رینجرز اور پولیس کی کارکردگی کو سراہا اور کراچی میں آپریشن جاری رکھنے اور دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی فوری سماعت کیلئے فوجی عدالتوں کی تعداد میں اضافے کی منظوری بھی دی۔ تجزیہ نگار آرمی چیف کے دورہ کراچی کو''اہم پیغام‘‘قرار دے رہے ہیں اور موجودہ حالات میں کور ہیڈ کوارٹرمیں ایک طویل اجلاس بھی انتہائی اہم تھا ۔
کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر جہاں تاجر برادری خوشی کا اظہار کررہی ہے وہیں کراچی سٹاک ایکسچینج کو پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ضم کرنے کی خبر نے اُن میں بے چینی بھی پھیلائی ہے۔ دارالحکومت سے لے کر اہم اداروں ‘ فلمی صنعت اور پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی )کی کراچی سے منتقلی کی وجہ سے یہاں پہلے ہی احساس محرومی موجود ہے اور حکومت کے اس فیصلے سے اِس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہم نے ایسے اقدامات سے فلم انڈسٹری اور ٹیلی وژن تو تباہ کردیا صنعت و تجارت بھی ''آکسیجن ‘‘پر زندہ ہے‘ ہم نے مسابقت (کمپی ٹیشن)ختم کر دیا ہے۔ ایک جانب کراچی آپریشن کے ذریعے سرمایہ کاروں کو کراچی میں سرمایہ کاری کیلئے آمادہ کیا جارہاہے لیکن دوسری جانب وفاقی حکومت کے ایسے فیصلے کراچی پر ''معاشی حملہ‘‘ثابت ہوسکتے ہیں۔ ابھی وِد ہولڈنگ ٹیکس کے اثرات ختم نہیں ہوئے کہ بینکوں کی ''خستہ حالی‘‘ نمایاں ہونے لگی ہے۔ بینکوں میں پیسہ نہیں ہے‘ ٹرانزیکشن نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ کچھ بینکوں نے تو پانچ روپے میں اکائونٹ کھلوانے کیساتھ لائف انشورنس تک کی سہولت بھی دیدی ہے کہ کسی طرح بھولے بھٹکے کھاتے داراس طرف آجائیں‘ لیکن کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ود ہولڈنگ ٹیکس کی چنگاری کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہے‘ اگر یہی کرنا ہے تواتنے بینک رکھنے کی کیا ضرورت ہے ایک ہی
بینک کردیں اس سے کم ازکم برانچوں کا خرچہ بھی بچ جائے گا۔ ود ہولڈنگ ٹیکس نے روپے کی حیثیت ''ٹکے‘‘جیسی کردی ہے۔ لوگوں نے پیسہ بینکوں میں رکھنے کی بجائے ڈالر اور پرائز بانڈ خریدنے شروع کردیئے ہیں اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ڈالر 105روپے پر پہنچ چکا ہے‘ جسے ڈار صاحب نے بڑی مشکل سے 100روپے پر ''اٹکا‘‘ کر رکھا ہواتھا لیکن حکومت کے ایسے فیصلوں سے ڈالر کی اونچی اڑان ایک بار پھر شروع ہوچکی ہے۔ عوام اب حکومت کے ایک اور اقدام کے منتظر ہیں جس میں یہ دیکھا جائے گا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی حالیہ کمی کے فوائد عوام تک کتنے فیصد پہنچیں گے؟ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈال کر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں گے یا 50ڈالر فی بیرل سے کم ہوکر 37ڈالر فی بیرل ہونے والاتیل پاکستان کے عوام کیلئے بھی خوشی کا باعث بنے گایا پھر ایک اور ٹیکس لگا کر سستا پٹرول مہنگے داموں فروخت کیا جائے گا۔
کراچی کی ان مارکیٹوں میں جہاں موٹر سائیکل پر گزرنا محال تھا اب آپ کار میں آرام سے گزر سکتے ہیں۔ بازاروں میں سناٹے ہیں‘ بھیڑ ختم ہوگئی ہے‘ بھائو تائو کی آوازیں نہیں آتیں اور روپے کا لین دین روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کی ہر پالیسی واضح طور پر ناکام ہورہی ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی پالیسیاں عوام کو خوش رکھنے کے بجائے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو ''راضی ‘‘رکھنے کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں گروی اخبارات بھی کھلم کھلا لکھ رہے ہیں کہ پاکستانی معیشت اچھی ہوتی جارہی ہے‘ جس کامطلب یہ ہے کہ پاکستانی حکمران مقررہ وقت پر عوام کا خون نچوڑ کرعالمی بینک اور آئی ایم ایف کو پہنچا رہے ہیں۔ کراچی ‘لاہور‘ راولپنڈی‘ اسلام آباد اور فیصل آباد اجڑ رہے ہیں اور ہمارے حکمران نیویارک اور لندن کی ترقی اور خوشحالی کیلئے سود کے پیسے پہنچا رہے ہیں۔ امریکی صدر مہینے میں تین سے چار مرتبہ اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ ''مجھے عوام کی قوت ِخرید بڑھانے میں دلچسپی ہے اور اس کیلئے فلاں فلاں اقدامات کررہا ہوں‘‘ پاکستان میں کسی کو پتہ ہی نہیں کہ عوام کی قوتِ خریدو فروخت کیا ہے بلکہ اب یہ بھی سوال وجواب ہورہے ہیں کہ عوام میں کوئی ایسی قوت بچی بھی ہے یا نہیں؟ عوام کی مفلوک الحالی کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر کی گھٹیا اور زائد المیعاد ادویات اور غذائی اشیا کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ کوئی نہیں سوچ رہا کہ ملک کہا ں جارہا ہے ؟کراچی والے خوش ہیں کہ لاہور تباہ ہورہا ہے اور لاہور والے خوش ہیں کہ کراچی تباہ ہورہا ہے‘ کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ پاکستان تباہ ہورہا ہے۔ امریکہ نے روس کے ٹکڑے کرنے کیلئے وہاں اپنی فوج نہیں اتاری تھی بلکہ صرف روس کو معاشی بدحالی میں مبتلا کردیا اور اُس کے سارے ''جوڑ‘‘کھل گئے!