"ISC" (space) message & send to 7575

مارچ میں ’’ مارچ‘‘۔۔۔۔؟

عیسوی سال کا تیسرا مہینہ پاکستان کی سیاست کیلئے عموماً اہم ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔سیاسی نجومیوں کی بیشتر پیش گوئیاں بھی اسی مہینے کے بارے میں ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ معمہ آج تک حل نہیں ہوا کہ ''مارچ‘‘کا مہینہ بھاری کیوں ہوتا ہے اور اس مہینے کا ملکی سیاست سے کیا تعلق ہے؟۔
گرما گرم بیانات نے موسم کو بھی گرم کرنا شروع کردیا ہے۔سابق صدر مملکت پرویز مشرف نے کہا ہے کہ'' حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوچکی ہے اور نواز شریف فوری طور پرمستعفی ہوجائیں ‘‘ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ''نیب کو قابو کرنے والاآرڈیننس لانا حکومت کیلئے خطرنا ک ہوگا۔ آرڈیننس میں ترمیم کی حمایت کرنے والے کو چور کہا جائے گا‘‘شیخ رشید نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ ''نواز شریف اور آصف زرداری کبھی ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوسکتے، دونوں ایک ہی پیج پر ہیں،بس عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے‘‘ ۔۔۔۔۔۔عمران خان بھی ''مُک مُکا سیاست‘‘کا الزام لگاتے ہیں۔ ان تمام بیانات کو غور سے دیکھا جائے تو ملکی سیاست کے اہم دائو پیچ سمجھ میں آجاتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ حالات کسی طور پر بھی جمہوریت کیلئے اچھے نہیں ہیں۔ مارچ کا مہینہ حکومت کیلئے ''جمہوری پل صراط‘‘ثابت ہوسکتا ہے۔ جب ملک کے وزیر اعظم پر اعتماد کاعالم یہ ہوجائے توکسی بھی وقت سیاسی افراتفری کی تلوار نیام سے باہر آسکتی ہے اوریہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کی کرسی کے چاروں پائے اپنے نہیں اس لئے بعض تجزیہ کار بلاجھجک کہتے ہیں کہ بساط پلٹ بھی بلکہ اُلٹ بھی سکتی ہے ۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دس ماہ قبل ریٹائرمنٹ کے اعلان کی ضرورت کیوں محسوس کی ؟یہ بات اب لوگوں کی سمجھ میں آہستہ آہستہ آرہی ہے۔نیب کے چیئرمین قمر زمان چودھری میں ''کرنٹ ‘‘کیسے آگیا؟ ''احتسابی گاڑی ‘‘ فرسٹ گیئر سے اچانک ٹاپ گیئر میں کیسے چلی گئی؟پنجاب میں نیب کی تیز رفتار کارروائیاں کیوں شروع ہوئیں؟کیا پنجاب میں بھی کوئی ''خواجہ ڈاکٹر عاصم ‘‘پکڑا جائے گا؟یا کوئی ''راناعزیر بلوچ‘‘گرفت میں آئے گا؟یہ وہ سوالات ہیں جن پر جمی گرد آہستہ آہستہ چھٹ رہی ہے۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ چیئرمین نیب کو قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف مشترکہ طور پر مقرر کرتے ہیںتو وہ کیسے قائد ایوان یا ان کی پارٹی کیخلاف کارروائی کرسکتے ہیں؟لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ مقبولیت سے بڑی سپورٹ کوئی نہیں ہوتی۔ماضی میں جب نواز شریف مقبول تھے تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے جیسے ہی استعفیٰ طلب کیا گیا، انہوں نے تین چار ماہ قبل ہی پیش کردیا۔اسی طرح نیول چیف ایڈمرل منصور الحق کو ''ہائی ٹی ‘‘پر وزیر اعظم ہائوس بلایا گیا۔ چائے کی چسکیاں لی جارہی تھیںکہ اچانک انہیںپی ٹی وی پر نئے نیول چیف کی تقرری کی خبر سنوا کر رخصت کیا گیا لیکن جب1999ء میں نوا ز شریف غیر مقبول ہوئے تو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف فضا میں تھے اور زمین پر حکومت کا تختہ الٹاجا چکا تھا۔ آج جبکہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت پرویز مشرف سے بھی زیادہ ہے،فیصل آباد سے شروع ہونے والی عوامی مہم ''جانے کی باتیں جانے دو ‘‘ اسلام آباد کے بعد اب کراچی پہنچ چکی ہے۔ کراچی کی اہم شاہراہوں پرجنرل راحیل شریف کے مسکراتے پوسٹرزعوام کا استقبال کرتے نظر آرہے ہیںاور یہ سبق بھی دے رہے ہیں کہ بہت کچھ آسان نہیں ہے۔
قومی ادارہ برائے احتساب(نیب) پاکستان کا آئینی ادارہ ہے جس کا کام بدعنوانی کو روکنااور اس کے حصہ داروں اور سہولت کاروںکو پکڑناہے۔یہ16 نومبر1999ء کو پرویز مشرف کے صدارتی فرمان کے اجرا کے ذریعہ معرضِ وجود میں آیا۔۔۔۔۔پہلے سندھ اور اب پنجاب میں یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ نیب کو سیاسی انتقام کیلئے بنایا گیا۔کتنی دلچسپ بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کو 17سال بعد معلوم ہوا کہ نیب کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ حالانکہ اب تک کئی وزرائے اعظم اور اپوزیشن لیڈرز نے چیئرمین نیب کو مشترکہ طور پر مقرر کیا اور اب تو صوبائی احتساب کمیشن بھی بنالئے گئے ہیں، کیا یہ بھی سیاسی انتقام ہے؟کیاہر صوبہ ''پولیٹیکل وکٹمائزیشن ‘‘پر یقین رکھتا ہے؟یا پھر صرف ''وفاقی نیب‘‘ کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا؟واقفان ِ حال کہتے ہیں کہ نیب کے پر کاٹنے والے کہیں اپنے پر نہ کٹوابیٹھیں۔
دوسری طرف چیف جسٹس سپریم کورٹ انور ظہیر جمالی نے جامشورو (حیدرآباد)میں ڈاکٹروں کو تعلیم دینے والی یونیورسٹی میں تقریر کے دوران قوم کی ''سیاسی بیماریوں ‘‘کا علاج بتاتے ہوئے کہا کہ'' عدالتیں بنیادی حقوق کے مسئلے پر آئین کو مسترد کرسکتی ہیں‘‘اس میں لفظ ''بنیادی حقوق‘‘ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اٹھارویں ترمیم اور بنیادی حقوق کی آپس میں لڑائی ہے، جب کوئی بھی پاکستانی شہری کسی بدعنوانی کا مرتکب ہو تو وہ قانون کے شکنجے میں آئے گالیکن اٹھارویں ترمیم حکمرانوں ‘ارکان پارلیمنٹ اور سابق حکمرانوں کو تحفظ دیتی ہے۔ یہ آئین کی اُس شق کے خلاف ہے جس میں یقین دلایا گیا ہے کہ تمام پاکستانیوں کے حقوق یکساں ہوں گے۔ جب اسرائیل کے وزیر اعظم کو سزا ہوسکتی ہے،تھائی لینڈ کی وزیر اعظم کا احتساب ہوسکتاہے،امریکی صدر نکسن کو انصاف کے کٹہرے میں آنا پڑتا ہے تو پاکستان کے اندر قانون کی گرفت کیوں ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔یہ ڈھیلی گرفت کس کس کو مضبوط کرتی ہے؟یہ وہ سوال ہے جو ایک بحث کی شکل میں اس ملک کی سیاست میں داخل ہونے والا ہے اور اس بحث کا آغاز اس شخص نے کیا ہے جس کے پاس انصاف کرنے کی سب سے زیادہ طاقت ہے اور جو ازخود نوٹس(سوموٹو)کا بھی اختیار رکھتا ہے ۔اس لئے حکمرانوںاور ان کے حامیوں کو بہت سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ اخبارات میں جس طرح کی خبریں شائع ہورہی ہیں، اس پر ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا یہ تبصرہ ہی کافی ہے کہ'' سندھ میں مجھے کوئی ایسا افسر ملوادو جس پر کرپشن کا کوئی مقدمہ یا الزام نہ ہو ‘‘اس تبصرے پر پاکستان کی سیاست رُک جاتی ہے اور لوگ جمہوری عمل کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں، تو بہ توبہ کرتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں