"ISC" (space) message & send to 7575

پاناما لیکس: کراچی بازی لے گیا۔۔۔!

پاناما کا دوسرا ''دھماکہ‘‘ ہوگیا۔ ''زخمیوں‘‘میں مزید 400 پاکستانی شامل ہیں، ان میں کراچی والے سب سے آگے ہیں۔ دوسرے نمبر پر لاہور اور پھر پنجاب کے دیگر شہر ہیں۔ بلوچستان کی'' آف شور‘‘ کمپنیاں تو ''گھروں‘‘میں ہی قائم ہیں جس کی تازہ مثال سیکرٹری خزانہ کے گھر سے برآمد ہونے والا ''قومی خزانہ ‘‘ہے۔ خیبر پختونخوا چوہے مارنے میں آگے اور پاناما لیکس میں سیف اللہ خاندان کی چند درجن آف شور کمپنیوں کے سوا مجموعی طور پر پیچھے ہے۔
''آف شور‘‘کمپنیوں کا شور کراچی کے علاوہ پورے ملک میں مچا ہوا ہے۔ کراچی کے 150نام بھی'' پارٹ ٹو‘‘ میں آگئے ہیں جن میں سے بیشتر کی رہائش کلفٹن اور ڈیفنس میں ہے۔ سوشل میڈیا بھی''پاناما لیکس‘‘ سے بھرگیاہے۔ دلچسپ تبصرے جاری ہیں۔۔۔۔۔کسی نے کہا: ''آنے والے وقتوں میں کہا جائے گا محنت سے کمائی اس دولت کا فائدہ کیا جو کسی لیکس میں آپ کا نام بھی شامل نہ کروا سکے‘‘۔ کسی نے لکھا: '' کیش گھر میں رکھا تھا کہ جب بھی بلوچستان کا خزانہ خالی ہو اسے بھردوںاور خزانہ خالی ہونے کی نوبت نہ آنے دوں‘‘ ، 'محب وطن ‘سیکرٹری خزانہ بلوچستان۔ ایک منچلے نے سیکرٹری خزانہ بلوچستان کو قائد اعظم سے محبت کرنے والا افسر قرار دیا اور لکھا: ''مشتاق رئیسانی کو قائد اعظم سے اتنا پیار تھا کہ وہ جہاں ان کی تصویر دیکھتے جمع کرلیتے، اسی محبت میں 
انہوں نے 65 کروڑ روپے کے نوٹ جمع کئے‘‘۔ کسی نے ٹویٹ کیا: ''کرپشن کے بڑے دماغ ملک سے باہر آف شور کمپنیاں بناتے ہیں اور چھوٹے دماغ والے اپنے گھر کو ہی آف شور اکائونٹ سمجھ کر اسی میںمال جمع کر لیتے ہیں‘‘۔ کسی نے بتایا: ''ہمارے چھوٹے صوبے والے واقعی نالائق ہیں‘ کرپشن کرنا ہی نہیں آتی‘ پکڑے جاتے ہیں‘ انہیں بڑے صوبے کے''مہاکرپٹ‘‘ سے ٹریننگ دلوائی جائے‘‘۔ ایک ''جیالا ٹویٹ‘‘ کی عبارت یہ تھی: ''تم کتنے پاناما پکڑو گے؟ ہر گھر سے پاناما نکلے گا‘‘۔۔۔ منجانب حکومت بلوچستان ۔
پاناما کا ہنگامہ کراچی والوں کو سڑکوں پر نہیں نکال سکا۔ اتنا بڑاواقعہ ہوگیا لیکن کوئی قابل ذکر رد عمل کراچی سے سامنے نہیں آیا، پورا ''گیم پلان‘‘ اسلام آباد میں ہی بنتا‘ بگڑتا رہا ہے۔ کراچی کے شہری تو کبھی لندن کے نئے میئر کو اور کبھی اپنی سڑکوں کو دیکھتے ہیں۔ کراچی کے ووٹر حیران ہیں کہ بلدیاتی انتخابات تو یہاں بھی ہوئے تھے لیکن کوئی میئرکیوں نہیں بن سکا؟ دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدان جمہوریت کے ہی خلاف کیوں ہیں؟ کراچی کو وفاق سے کچھ نہیں مل رہا۔ صوبہ آنکھیں دکھاتا ہے۔ 
بلدیات کا تو وجود ہی خطرے میں ڈال دیا گیا اورعالم ِ اسلام کے سب سے بڑے شہر کو مقامی پولیس تک میسرنہیں۔
کراچی قومی سیاست کا ''لیڈر‘‘ رہا ہے لیکن ''پاناما لیکس‘‘ کے خلاف رد عمل میں اس وہ ''زیڈ‘‘ کے خانے سے باہر نہیں نکل پا رہا، جو حکمرانوں کے لئے تو اچھا ہے لیکن قومی یکجہتی کا شعور رکھنے والے اس پرضرور پریشان ہیں۔ قوم کو منقسم نہیں ہونا چاہیے، مفادات کی لڑائی تو ایک گھر میں بھی ہوتی ہے، لیکن اس گھر کا باپ یا سربراہ معاملات کو سنبھال لیتا ہے۔ کراچی کا تو اب کوئی باپ ہی نظر نہیں آتا۔ یہ تو کئی بار سنا ہے کہ ''کراچی کسی کے باپ کا نہیں‘‘ لیکن کراچی کا باپ وفاق ہے‘ صوبہ ہے یا کوئی اور؟ یہ اب تک معلوم نہیں ہوسکا، اس لئے کراچی کو یتیم اور لاوارث شہر کہنا غلط نہیں ہو گا۔
پورا پاکستان ''وزیٹنگ حکمرانوں‘‘ کی گرفت میں ہے اور کراچی میںایک ''لاڈلا بیٹا‘‘بیٹھا ہے جسے کراچی کے علاوہ پورے پاکستان کی فکرہے۔ وہ ''لاڈلا بیٹا‘‘ کشمیریوں کے حقوق کی بات کرنے باغ (آزاد کشمیر) تک جاتا ہے لیکن اپنے شہر کو حقوق دینے کی بات شاید بھول جاتا ہے یا پھر یاد ہی نہیں رکھنا چاہتا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس ''لاڈلے بیٹے‘‘ کے جتنے بھی فعال گروپوں کو رینجرز نے پکڑا وہ سب کے سب ''گندے انڈے‘‘ نکلے۔ 
پارلیمنٹ میں کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم بھی تذبذب کی سیاست کر رہی ہے۔ کہاں آگے بڑھنا ہے، کہاں پیچھے ہٹنا ہے، کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا! مولانا فضل الرحمن نے تو ''بھائو تائو‘‘ کرلیا، لیکن ایم کیو ایم نے کوئی پوزیشن نہیں لی، وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی بنا کر رکھنا چاہتی ہے اور مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی بگاڑنا نہیں چاہتی۔ عوام کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ایم کیو ایم اپوزیشن کے ساتھ ہے یا حکومت کے ساتھ؟ ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کا ''تھنک ٹینک‘‘ سوچنے کی صلاحیت کو ''فل اسٹاپ‘‘ لگا کر 'بیٹھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔
لندن کے نومنتخب میئرصادق خان کی تقریب حلف برداری کراچی کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کرگئی۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو عرصہ بیت گیا، لوگ چیئرمین اور ڈپٹی کے نام تک بھول گئے، لیکن حلف برداری نہیں ہوئی۔ ''پاناما لیکس‘‘ کے بعد اب ''کراچی لیکس‘‘ کا نمبر ہے، جس میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے لے کر متواتر زیادتیوں کی طویل داستان کا ''آتش فشاں‘ پھٹ پڑے گا اور''کراچی لیکس‘‘ میں وہ نام سامنے آئیں گے جو کراچی کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ کمائو پوت شہر کے خلاف سازشیں کرنے والے بھی بے نقاب ہوں گے۔
ہمارے حکمرانوں کا بھی جواب نہیں، ابھی عوام پاناما اور آف شور کو ہی سمجھ نہیں پائے تھے کہ ''ٹی او آرز‘‘ نامی لفظ دن میں ہزاروں بار سن سن کر کان پک گئے۔ ''آف شور‘‘ کے شور کو ''ٹی اوآرز‘‘ میں دبانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ ہر ٹی وی چینل کے''ٹکر‘‘ سے لے کر ''بیپر‘‘ اور ''ہیڈر‘‘ سے ''بائٹ‘‘ تک ''ٹی اور آرز ‘‘ کی گونج سنائی دیتی ہے۔ پاناما کی دوسری قسط نہ آتی تو سادہ لوح لوگ ''ٹی او آرز ‘‘ کو ہی ''آف شور‘‘ سمجھنے پر اکتفا کرلیتے، لیکن ایک بات طے ہے کہ جو قوم اتنے بڑے سانحات اور واقعات کو مذاق میں بھلا دے، اس پر مزاحیہ ایس ایم ایس بنائے، دلچسپ ٹویٹ کرے، خاکے بناکر پوسٹ کرے ایسی قوم ایک نہ ایک دن ترقی ضرور کرتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں