''سندھ پولیس میں ہزاروں ڈاکوئوں اور کرمنلز کو بھرتی کیا گیا ہے‘‘۔ یہ بات بند کمرے میں نہیں بلکہ حیدرآباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران پیر پگارا نے کہی۔ سندھ پولیس اپنی بعض اچھی خوبیوں کے باوجود ہمیشہ تنقید اور ''عدمِ احترام‘‘ کا شکار رہتی آئی ہے۔ سندھ پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی جمہوری ملک کے''انٹرنیشنل شہر‘‘ کراچی کو کنٹرول کرنے والی پولیس نہیں لگتی۔ لندن پولیس کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی یہ خوبی ہے کہ اسے دیکھ کر عوام کو ڈر نہیں لگتا۔ لندن کے تمام سیاحتی مقامات پر لندن پولیس کا مجسمہ (اسٹیچو) فروخت کے لئے موجود ہوتا ہے اور لندن میں سب سے زیادہ بکنے والی 2 سوینیٔرز میں پولیس اسٹیچو اور ڈبل ڈیکر بس ہیں۔ کراچی میں یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں۔ یہاں توپولیس کی وردی خوف اور دہشت کی علامت ہے۔ کراچی پولیس کا سپاہی اکیلا ہوتو وہ ڈرا ہوا‘ سہما ہوا ہوتا ہے اور چھپ کر اور دبک کر چلتا ہے، لیکن اگر چار پانچ پولیس والے ہوںتو عوام اُن سے ڈرتے ہیں اور بچ کر نکلتے ہیں، چاہے اس کے کاندھے پر 1940ء کی بوسیدہ اور ناقابل بھروسا بندوق کیوں نہ لٹکی ہوئی ہو۔ سندھ پولیس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہے، ہر آنے والی حکومت اپنی ضرورت اور اپوزیشن کو سامنے رکھ کر اس کی'' تنظیم نو‘‘کرتی ہے۔ اگر سیاسی مخالفت زیادہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ پولیس کے لئے جدید اسلحہ اورگاڑیاں خریدنا بہت ضروری ہے، لیکن اگر ڈاکو، بھتہ خور اور اسٹریٹ کرمنلز زیادہ متحرک ہو جائیں تو بڑے پیمانے پر بھرتیوں کابگل بجایا جاتا اور بے روزگاروں کو ہجوم در ہجوم بھرتی کیا جاتا ہے۔ سندھ پولیس کی بھرتی کے لئے انٹرویو توکمروں میں ہوتے ہیں لیکن ''اپائنٹمنٹ لیٹر‘‘ بند کمروں میں ''گرم مٹھی‘‘کروا کر دیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سندھ پولیس کی بھرتی کے لئے کوئی معیار‘اصول‘ قاعدے اور ضوابط نہیں رکھے گئے۔ ارکان اسمبلی اپنے کوٹے کی تعدادکے مطابق سپاہیوںکوبھرتی کرکے اپنی''آمدنی‘‘ میں اضافہ کرتے ہیں اور حکمران اپنے اضلاع سے سپاہی بھرتی کر کے ایک وفادار فوج بناتے چلے جاتے ہیں۔ ان تمام اعمال کا دار و مدار انہی نیتوں پر ہوتا ہے جووہ الیکشن لڑنے کے لئے کرتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ مخالفین اور خاص طور پر عوام کو یہ پیغام دیا جائے کہ اگر ہماری سیاسی مخالفت کرنے کی کوشش کی تو پولیس آپ کی نسلوں کو بھی سیدھا کرسکتی ہے۔
گزشتہ سال ایک ''بااثر شخصیت‘‘ کے اشارے پر آئی جی سندھ نے سندھ ہی کی ایک اور''بااثر شخصیت‘‘ کے مخالفین کو کچلنے کے لئے سندھ ہائیکورٹ پر تین گھنٹے طویل حملہ کروایا اور جب اِسی ہائیکورٹ نے آئی جی سندھ کو طلب کیا تو اُسے چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ معافی نامے جمع کرائے گئے۔ آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ قسمیں کھائی گئیں۔ یقین دہانیاں کرائی گئیں، لیکن سندھ ہائیکورٹ کا ''دھماکہ خیز فیصلہ‘‘ آ گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف اُس آئی جی کو چلتا کیا گیا بلکہ عہدے اورمراعات سے بھی ''فارغ‘‘ کردیا گیا۔ اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ پولیس اگر کرنے پر آئے تو وہ سب کچھ کرسکتی ہے کہ ماضی کی ایف ایس ایف کی ''خونخوار یادیں‘‘ تازہ ہو جائیں۔ یوں تو سندھ کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے لیکن اس میں سندھ پولیس سب سے بلند''مرتبے‘‘ پر فائز ہے۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون میںسعید آباد پولیس ٹریننگ سنٹر تھا جسے''پنجابی پولیس ٹریننگ سنٹر‘‘ قرار دے کر رزاق آباد میں سندھ پولیس ٹریننگ سنٹر بنایا گیا جہاں اندرون سندھ سے بھاری معاوضے پر بھرتی کی جانے والی پولیس کی ٹریننگ کی گئی اور اس بات کی احتیاط بھی رکھی گئی کہ وہاں کوئی''اجنبی‘‘ نہ آنے پائے، ایسی پولیس بھرتی کی جائے جونہ صرف کراچی پر قبضہ کرسکے بلکہ کراچی کے عوام کو بھی ڈرا دھمکا کر قابو میں رکھے۔ یہ تجربہ پہلے انگریزوں نے کیا۔گوروں نے تو یہ پولیس اس لئے بنائی تھی کہ عوام کو کنٹرول میں رکھا جائے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر کوگریڈ 9 میں ہی افسربنادیاگیا۔ وہ تنخواہ بی پی ایس 9 کے تحت لیتا ہے، اسی اسکیل کے دیگر ملازمین اہلکار ہی کہلاتے ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیںہوتی۔ ڈرانے‘ دھمکانے کا ایسا ہی تجربہ مشرقی پاکستان میں بھی دہرایا گیا۔
پولیس کا بنیادی کام عوام کی خدمت کرنا اور تحفظ دینا ہوتا ہے لیکن سندھ پولیس کی ناکامی سندھ حکومت کے لئے اس وقت مصیبت بن گئی جب رینجرز کو بلانا پڑا، اختیارات دینے پڑے کیونکہ سندھ پولیس کراچی میں اُس افغانی کی طرح تھی جوکسی اجنبی شہر میں آئے اور وہاں کی گلیوں‘سڑکوں‘بازاروں‘چوراہوںاورمحلوں سے ناواقف ہو۔ سندھ پولیس کراچی کے ''رسم و رواج‘‘ سے ناآشنا ہے، اردو آباد ی کی سوچ الگ ہے‘ پختون آبادی میں جانے کے لئے اجازت لینا پڑتی ہے، بلوچ علاقے پولیس کی آمد کو ثقافتی طور پر اچھا نہیں سمجھتے اور پنجابی علاقے پولیس کو آزادانہ چھاپے نہیں مارنے دیتے، لیکن تین سے پانچ لاکھ روپے دے کر بھرتی ہونے والے معصوم‘ سیدھے اور بھولے اہلکار وہ صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے کہ وہ کثیر القومیت شہر کراچی کو کنٹرول کرسکیں، نہ وہ عوام میں ہر دلعزیز بن سکے۔کئی مقامات پر کھلم کھلا جرائم کرتے ہوئے پولیس اہلکار ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے جس سے کراچی کا صنعتی‘ تجارتی اور کاروباری کلچر تباہ ہوگیا۔
انگریزوں نے ''رہائشی پولیس‘‘ کا تصور دیا تھا۔ لوکل پولیس وہ تھی جو اس شہر یا آبادی کے نوجوانوں پر مشتمل تھی جبکہ رہائشی پولیس کا درجہ انہیں دیا گیا جن کے پاس ڈیوٹی والے مقام پر کوئی گھر نہیں تھا، انہیں تھانے کی حدود میں ہی فلیٹ یا کوارٹر بناکر دیئے گئے۔ 69 سال گزرنے کے باوجود بھی ان مقامات میں پولیس اہلکار رہائش پذیر ہیں لیکن حکمرانوں نے دکانوں‘پارکوں‘میدانوں‘اسکولوں ‘گیراجوں اور دیگر قبضے کے مقامات پر تھانے بناکر اس تصور کو بھی ملیا میٹ کردیا اور اس طرح کی کوئی مستحکم پالیسی نہیں بنائی گئی۔ سندھ پولیس میں عجیب تماشے ہوئے۔ یہاں ڈاکٹر سے لے کر بعض وزراء کے بھانجے، بھتیجوںکو اعلیٰ افسران کی حیثیت سے تعینات کیا گیا جنہوں نے ڈیوٹی جوائن کرتے ہی پہلا سوال یہ کیا کہ ''زرخیز مقامات‘‘ کون کون سے ہیں؟ بدعنوان افراد کی تھانے میں اتنی آزادانہ رسائی ہوگئی کہ کسی شریف آدمی کا تھانے میں آکر اپنے کپڑے بچانے کا بھی کوئی راستہ باقی نہ رہا۔
تمام دیگر شعبوں کی طرح اب پولیس میں بھی بھرتی کا عمل شفا ف بنانے کے لئے بالآخر فوج کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ سندھ میں 26 ہزار پولیس اسامیاں پُر کرنے اور مستقبل میں بھرتیوں کے لئے میرٹ کو بنیاد بنانے کے لئے پولیس کی اعلیٰ ترین مینجمنٹ نے ریکروٹمنٹ (بھرتی) کے عمل میں چند بنیادی تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔ نئے طریقہ کار کے تحت سندھ پولیس ریکروٹمنٹ بورڈ جو ایک سینئر پولیس افسر، پاک فوج کے نمائندے اور سی پی ایل سی کے ارکان پر مشتمل ہوگا، میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ حکمت عملی فوجی حکام کے ساتھ مشاورت کے ذریعے وضع کی گئی ہے تاکہ اس فورس میں میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں یقینی بنائی جاسکیں جو انتہائی حد تک سیاست زدہ ہیں۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ریکروٹمنٹ کے عمل کی مانیٹرنگ سی پی او کی سطح پر ایک بورڈ کرے گا جس کا نام سندھ پولیس
بھرتی بورڈ ہوگا۔ ایڈیشنل آئی جی پولیس سندھ کی قیادت میں ڈی آئی جی پی اسٹیبلشمنٹ، ڈی آئی جی پی فنانس، سی پی ایل سی کا نمائندہ اور اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ اس بورڈکے رکن ہوں گے جبکہ اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ اس بورڈ کے سیکرٹری کے طور پر بھی کام کریں گے۔ ریکروٹمنٹ کمیٹی میں پاک فوج کے نمائندوں کے نام بھی شامل ہوں گے جنہیں کور فائیو نامزدکرے گی۔ اس پالیسی کے تحت کسی اسامی کے لئے ایس پی آر بی کی منظوری سے قبل اضلاع میں کوئی نئی ریکروٹمنٹ نہیں ہوگی۔ صوبائی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھرتیوں کے لئے ریکروٹمنٹ سال میں ایک مرتبہ ہوگی یا پھر سندھ پولیس ریکروٹمنٹ بورڈ کی جانب سے اس امر کا تعین کیا جائے گا۔کانسٹیبل کے لئے استحقاق کا معیار جو 18سے25 برس ہے اس کے لیے درکار کم از کم تعلیمی قابلیت میٹرک ہے، کم از کم قد پانچ فٹ پانچ انچ ہونا ضروری ہے جبکہ خواتین کے لئے یہ حد 5 فٹ ہے۔ مردوں کے لئے سینے کی چوڑائی 33 انچ مقرر ہے جس میں 1.5فیصد کی توسیع ہوسکتی ہو۔ صرف وہی امیدوار درخواست دے سکیں گے جن کا ڈومیسائل متعلقہ ضلع کا ہوگا، کسی دوسرے ضلع کے ڈومیسائل کے حامل امیدوار کی درخواست کو زیر غور نہیں لایا جائے گا۔ تحریری ٹیسٹ انگریزی زبان، اردو ، سندھی، عمومی آگہی، ریاضی اور سائنس کے حوالے سے ہوگا اور اس میں سائنس اور منطق شامل ہوںگے۔ صرف ایسے امیدوار جو تحریری امتحان میں 40 فیصد نمبر حاصل کرسکیں وہی کوالیفائیڈ تصور ہوں گے۔ تحریری ٹیسٹ امیدواروں پر دوران امتحان منکشف ہوگا اور اس کی ایک نقل ڈسٹرکٹ پولیس ہیڈکوارٹر کے نوٹس بورڈ پر چسپاں ہوگی۔ وہ لوگ جو تحریری ٹیسٹ کے معیار پر پورا اتریں گے ان سے انٹرویو کیاجائے گا جس کے لئے پالیسی میکنزم طے کیاجائے گا۔ بعد میں طبی معائنہ ہوگا اور کردار کی تصدیق و دیگر معمول کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جوچالیس فیصد نمبر کی پابندی رکھی گئی ہے، اللہ کرے کہ اِن میں سے چند درجن امیدوار کامیاب ہو بھی جائیں۔