کراچی ''لاعلاج‘‘ نہیں۔ اِس کے دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔ جو امراض اس شہر کو لاحق ہیں وہ ایسے نہیں کہ ''ڈاکٹر‘‘ علاج سے ہی انکار کر دیں۔ اور ایسے بھی نہیں کہ صرف سرجری ہوتی رہے... اور زخم بھرنے کیلئے ادویات نہ دی جائیں۔ کراچی کے اہم مسائل کئی طرح کے ہیں۔ ان میں کچھ سماجی اور کچھ سیاسی ہیں۔ اگر حکمرانوں کی نیت صاف ہو تو تاریکی اور احساس محرومی میں ڈوبا کراچی پھر روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے۔ اگر اس مسئلے پر سنجیدگی سے نہ سوچا گیا تو کراچی آہستہ آہستہ تباہی و بربادی کی اس کھائی میں جا گرے گا جس کے بارے میں نہ تو ہم نے اور نہ ہی کسی اور نے سوچا ہو گا۔ کراچی دکھ کے دریا میں بہتا ہوا وہ تنکا ہے جو ڈوبتے کو سہارا بھی دے سکتا ہے اور موجوں کے تلاطم میں کھو بھی ہو سکتا ہے۔
کراچی تین سال سے خود کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کبھی پکڑ دھکڑ‘ کبھی اسلحہ کی برآمدگی اور کبھی گرفتاریاں تو ہو رہی ہیں لیکن کراچی کے زخموں پر مرہم کوئی نہیں رکھ رہا۔ کراچی ایک بیمار شہر ہے... اس کے زخموں سے خون رس رہا ہے... اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ زخموں کا علاج دوا سے ہو سکتا ہے ڈنڈے سے نہیں۔
آج کے جدید دور میںکراچی کو آہستہ آہستہ ترقی سے دور کیا جا رہا ہے۔ کراچی وہ بدقسمت بھینس ہے جس کا پچھلا حصہ حکمرانوں اور اگلا حصہ عوام کے پاس ہے... یعنی دودھ ہر شخص پینا چاہتا ہے لیکن چارہ کھلانے کو کوئی تیار نہیں۔ کراچی کی رونقیں، سڑکیں اور ایک میٹروپولیٹن شہر کی خصوصیات ایک ایک کرکے ختم ہو رہی ہیں۔ تفریحی مقامات اور باغات میں دھول اُڑ رہی ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر ملک بھر سے آنے والے محنت کشوں،
ہنرمندوں اور کاریگروں کا خوف دیکھنے کے قابل ہے۔ وہ تڑپ رہے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا مسئلہ اب ایک وقت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ پہلے کبھی کچی آبادیوں میں پانی نہیں تھا‘ اب تو پکی آبادی میں بھی پانی نہیں آتا۔ موئن جودڑو کی سڑکیں تو آج کے دور میں بھی سلامت ہیں‘ ان پر گڑھے نہیں۔ کوئی ناہمواری نہیں اور نہ ہی وہ سڑکیں موت کا کنواں بنی ہوئی ہیں لیکن کراچی کی سڑکیں قدم قدم پر شکستہ حالی کا شکار ہیں۔ گڑھے اتنے گہرے ہوتے جا رہے ہیںکہ اندھیرے میں بھی نظر آتے ہیں۔ ایک نقاد کا طنزیہ جملہ غور طلب ہے کہ ''ہماری سرزمین کو اس لئے چاند سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ چاند پر بھی گڑھے ہیں اور کراچی کی سڑکوں پر بھی گڑھے ہیں‘‘۔ سڑکوں پر گندا پانی اس شان سے کھڑا رہتا ہے کہ جیسے یہ سڑکیں اس کا مستقل ٹھکانہ ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کی ترقی کیلئے وفاق اور صوبہ سندھ اپنے بجٹ سے منصفانہ حصہ دیں اور پنجاب، بلوچستان اورخیبر پختونخوا کی حکومتیں بھی اپنے بجٹ سے خصوصی امدادی رقم فراہم کریں... جو ان صوبوں کے باشندوں کی آبادیوں میں شہری سہولیات کی فراہمی کیلئے خرچ کی جائیں۔ کراچی میں جب تک دل کھول کے فنڈ نہیں دیئے جائیں گے‘ شہر کی خوبصورتی اور تفریحی مقامات کی جاذبیت میں اضافہ نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ شہر اسی طرح سسکتا بلکتا اور روتا رہے گا۔
1977ء میں بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد اس وقت کی فوجی حکومت نے بلوچستان کیلئے معاشی پیکج دیا تھا کہ دکھی بلوچوں کو سہارا دیا جا سکے لیکن کراچی کے دکھوں کی کسی نے پروا نہیں کی۔ آپریشن کے بعد کسی مریض کو بھی جوس‘ فروٹ اور ٹانک دے کر اس کی کمزوری کم کی جاتی ہے۔ وزیر اعظم صاحب بھی یہاں ایک عرصے کے بعد چکر لگانے آتے ہیں اور الٹے پائوں تیزی کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں۔ کراچی میں موجود ذہنی تنائو کم کرنے کیلئے بڑے اقدامات کی ضرورت ہے‘ جو وفاق خود اپنی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ پاکستان کی سب سے زیادہ آبادی والے شہر کے ٹریفک کے مسائل کو حل کیا جائے۔ پاکستان پر کسی ایک شہر کا حق نہیں‘ پاکستان سب کا ہے اور سارے شہر پاکستان کے ہیں۔ کراچی کا مسئلہ نرم دلی اور گرمجوشی سے حل کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ کراچی کو یونہی لاوارث چھوڑ دینا ویسا ہی خطرناک عمل ہے جو ہم نے چھ نکات کے نعرے لگنے کے بعد مشرقی پاکستان میں اپنایا تھا۔ اور ملک دولخت ہونے کے بعد کہنے لگے کہ ہم نے بنگالیوں کے ساڑھے پانچ نکات مان بھی لئے تھے۔ کراچی میں 22 اگست کا سانحہ بہت دانائی اور تدبر کے ساتھ کچل دیا گیا اور زمین اور زمین پر بسنے والے انسان‘ دونوں بچا لئے گئے لیکن جب بادل آتے ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے پیچھے بارش بھی آرہی ہے۔
کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شہر ہے اور یہ شہر اپنی محنت اور اس شہر کے نوجوان اپنی جدوجہد کا انعام چاہتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت ان کے ماں اور باپ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کراچی کے ماں باپ اس کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ اب کراچی کی نمائندگی رکھنے والی ایک جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ پیپلز پارٹی 2 لاکھ 90 ہزار نوکریاں بانٹ رہی ہے جس کے خلاف ہم عدالت میں جائیں گے۔ سندھ کے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہارالحسن نے کہا ہے کہ ''سندھ میں نوکریوں کی بندر بانٹ پر وائٹ پیپر جلد جاری کریں گے‘ کراچی کے جعلی ڈومیسائل بنائے جا رہے ہیں۔ کراچی کے نام پر ان لوگوں کو نوکریاں دی جا رہی ہیں جو کراچی کی سڑکوں اور ثقافت سے ناواقف ہیں‘ کراچی کا حق مارا جا رہا ہے‘‘ لوگوں میں بے چینی اس وقت پھیلتی ہے جب ہم کوئی مسئلہ حل نہیںکرتے اور بعض مرحلوں پر اس کا فائدہ دشمن اٹھا لیتا ہے۔ اگر طاقت اور ٹینک سے مسائل حل ہوتے تو آج عراق‘ افغانستان‘ شام اور یمن میں امریکہ کی حکومت ہوتی اور ساری دنیا امریکیوں کی غلام ہوتی۔ پاکستان کی تمام دکھی قومیتوں کو حقوق دینے چاہیئں تاکہ ہر شخص صوبے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اگر ہم نے یہ نہیں کیا تو پھر ہمیں انتظار کرنا چاہئے کہ قدرت آسمان سے کوئی خدائی فوجدار
بھیجے جو ہمارے دکھ کو دور کرے۔ عقلمند قومیں اپنے بیمار کی دوا اور علاج پر توجہ دیتی ہیں۔ کراچی ایک دکھی شہر ہے۔ یہاں ملک بھر میں سب سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں لیکن کراچی کو ایسی ایمبولینس کا انتظار ہے جو اسلام آباد سے چلے اور 25 سال کی بے قراری اور دکھ کو دور کر دے۔
آخر میں ایک دلچسپ خبر سے یہ معلوم ہو گیا کہ آئینی بحران کسے کہتے ہیں۔ کرغزستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنا آئین ہی کھو بیٹھا ہے۔ چند روز قبل جب وہاں کی پارلیمنٹ میں آئین کی اصل کاپی کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا تو سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں کیونکہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اصل آئین کہاں اور کس کے پاس ہے۔ وزیر انصاف نے جواب دیا کہ آئین کی اصل کاپی صدارتی انتظامیہ کے پاس ہو گی... جبکہ صدارتی انتظامیہ کے سربراہ نے صاف انکار کر دیا کہ آئین کی اصل کاپی تو وزیر انصاف کے پاس ہے... اور پھر وزیر قانون کا جواب بھی آیا کہ آئین کی اصل کاپی ان کے پاس نہیں ہے۔ یہ خبر امریکہ اور یورپ کیلئے تو اچنبھے کا باعث ہو سکتی ہے لیکن ہمارے لئے بالکل نہیں کیونکہ پاکستا ن کا آئین بھی کرتے سے سکڑ کر بنیان جیسا ہو گیا ہے۔ مرضی اور منشا کی ترامیم کرتے کرتے ہم نے آئین کا اصل حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ آئین ہمارے پاس بھی نہیں ہے۔ اس کے آرٹیکل 62 اور 63 کو لے لیجئے۔ اگر اس کا نفاذ ہوتا تو کیا پارلیمنٹ میں موجود لوگ وہاں موجود رہ سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے تو کہا تھا کہ آئین کیا ہے کاغذ کے چند ٹکڑے جب میرا جی چاہے گا پھاڑکر پھینک دوں گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے پاکستان کو آئین نہیں آئینے کی ضرورت ہے جس میں حکمران اپنا چہرہ اور گڈگورننس دیکھ سکیں۔