آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کراچی میں امن کی مکمل بحالی تک آپریشن تیز کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بدھ کوکور ہیڈ کواٹر کراچی کا دورہ کیا ۔آرمی چیف نے کراچی کی صورتحال پر سکیورٹی کانفرنس کی بھی صدارت کی جس میں ڈی جی ایم او، ڈی جی رینجرز، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی شریک ہوئے۔جنرل راحیل شریف نے کراچی میںامن وامان کی صورتحال بہتر کرنے کیلئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کو سراہااور زور دے کرکہا کہ اس حوالے سے صوبائی حکومت اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔آرمی چیف کی جانب سے کراچی آپریشن تیز کرنے کی ہدایت کو انتہائی اہمیت دی جارہی ہے ۔کیونکہ آرمی چیف کے اس دورے کو بطور آرمی چیف کراچی کا آخری دورہ بھی کہا جارہا ہے۔ کیونکہ اُن کی ریٹائرمنٹ میں بھی بیس دن رہ گئے ہیں۔ ایکسٹینشن کی باتیں تو ہورہی ہیں لیکن ان میں حقیقت کتنی ہے یہ ابھی تک کسی کو نہیں پتا۔صرف اندازوں اور تجزیوں کی ''دکانیں‘‘ کھلی ہوئی ہیں ۔
کراچی آپریشن کو تین سال ہوگئے ہیں۔رینجرز نے جس آب وتاب اور بھرپور قوت سے جو آپریشن شروع کیا اورکراچی میں تابڑ توڑ چھاپوں اور بھرپورکارروائیو ں کے نتیجے میں رینجرز نے کراچی میں جو امن وامان قائم کردیا تھا اس میں دراڑیں پڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔رینجرز چند ہفتوں سے اس طرح ایکشن نہیں کررہی جو اس کا خاصا رہا ہے ۔منگل اور بدھ کی درمیانی شب کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں ایک بڑی کارراوئی کے دوران 17ہائی پروفائل کریمنلز پکڑے گئے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ تمام ملزمان ''اوپر‘‘سے آنے والے ایک ٹیلی فون کے نتیجے میں رہا بھی ہوگئے ۔مذہبی انتہا پسندی میں ملوث افراد کی گرفتاری میں بھی رینجرز پیچھے ہی رہی ۔نہ کوئی ریمانڈ لیا گیا اور نہ ہی کوئی قابل ذکر پھرتی دکھائی گئی ۔15د ن کے دوران کوئی بھی ایسا شخص نہیں پکڑا گیا جسے 90روزہ ریمانڈ پر لیا گیا ہو۔سمجھ نہیں آرہا کہ رینجرز کو کیا ہوگیا ہے ؟سندھ حکومت کی جانب سے رینجرز کو باربار بھرپورتعاون کی یقین دہانیوں کے دعوے بھی کئے گئے ہیں ۔کئی مقامات پرپولیس کو آگے رکھ کر چھاپے مارے گئے اور سندھ پولیس کو طاقتور دکھانے کی کوششیں بھی کی گئیں ۔حال ہی میں امجد صابری اورفوجی جوانوں سمیت اہم وسنگین مقدمات میں مطلوب ملزمان کی گرفتاری کا اعلان بھی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کیا ۔واقفانِ حال کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کی پولیس افسران کے ساتھ پریس کانفرنس بھی کسی نہ کسی کیلئے ''خفیہ‘‘پیغام ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ رینجرز نے امجد صابری کیس میں سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو حراست میں لیا ہواتھا اور انہوں نے دوران ِ تفتیش اہم انکشافات بھی کئے تھے اس معاملے میں شواہد بھی جمع کئے جارہے تھے لیکن سی ٹی ڈی نے صبح ملزمان کو گرفتار کیا اور شام کو تفتیش مکمل کرکے وزیراعلیٰ سندھ سے پریس کانفرنس بھی کروادی ۔عجلت میں اٹھائے گئے ایسے اقدامات سے رینجرز کے ہائی پروفائل امیج میں کمی تو نہیں آئی لیکن اس کا تسلسل ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔رینجرز کراچی کے امن کی علامت ہے لیکن بہر حال یہ پوچھنا پڑے گا کہ رینجرز کے آہنی ہاتھ کو کسی نے روکا ہے یا وہ خود رُک گیا؟
دو ماہ قبل اختیارات کی ہلکی پھلکی جھڑپیں بھی نظر آتی تھیں لیکن اب ایسی خبریں بھی اخبارات کی زینت نہیں بن رہیں ۔سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا سے 50کروڑ روپے بھتہ طلب کیا گیا قتل کی دھمکی بھی دی گئی ۔لیکن رینجرز اس معاملے میں بھی خاموش رہی ۔پولیس افسران موقع پر پہنچے شکایت سنی لیکن رینجرز کی کوئی مداخلت نظر نہیں آئی ۔کراچی کے ایک تاجر کو افغانستان سے بھتہ کیلئے فون پر دھمکیاں دی گئیں ۔لیکن رینجرز نے اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی ۔رواں ہفتے ملیر میں 14گھنٹے تک ہنگامہ آرائی ہوتی رہی ۔ٹرانسپورٹ رک گئی ۔ ریلوے ٹریک بندہوگیا ۔ٹرینوں کی آمدورفت معطل ہوگئی ۔علاقہ میدان جنگ بنا رہا ایک وقت ایسا بھی آیاکہ معاملا ت پولیس کے ہاتھوں سے نکلنے لگے،لیکن چند قدم پر رینجرز کا پڑائو ہونے کے باوجود رینجرز میدان میں نہ آئی اور نیوز چینلز دیکھنے والے عوام بھی رینجرز کو ''مس‘‘کرتے رہے ۔
آرمی چیف صاحب نے کراچی آپریشن تیز کرنے کا حکم دے دیا ہے اور اب یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ 2سال سے ''کلیئر‘‘نہ ہونے والے منگھوپیر میں بھی ''کومبنگ آپریشن‘‘کیا جائے۔جب ہماری فوج سوات میں کامیاب آپریشن کرسکتی ہے ۔وزیرستان میں دہشت گردوں کے چھکے چھڑا سکتی ہے تو منگھوپیر میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ۔؟ منگھوپیر میں وقفے وقفے سے آپریشن ہوتے رہتے ہیں دہشت گرد بھی پکڑے جاتے ہیں ۔لیکن مکمل صفایا نہیں ہورہا ۔اور ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کو مرحلہ وار کلیئر کیا جائے ۔ دہشت گردوں اور مجرموں کی سرکوبی کی جائے۔رینجرز کی یقینا یہ سوچ ہوسکتی ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑتے ہیں ۔ریمانڈ لیتے ہیں ۔ پولیس کے حوالے کرتے ہیں ۔جیل بھیجتے ہیں یہ تمام خبریں تواخبارات میں شائع ہوتی ہیں لیکن کمزور پراسیکوشن کی وجہ سے ان کو سزادینے کی خبر نہ کسی اخبار میں شائع ہوتی ہے اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل پر کوئی ٹِکر چلتا ہے۔جب تک سزا نہیں ہوگی نہ کراچی آپریشن طاقتور ہوگا اور نہ ہی گرفتاریوں اور چھاپوں کے اثرات گلیوں ‘محلوں اور کچی آبادیوں میں چھپے مجرموں میں خوف پیدا کریں گے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ''اسپیڈی کورٹس‘‘بنائی جائیں تاکہ مجرموں کو فوری سزائیں ملیں ورنہ رینجرز کے چھاپے اور کارروائیاں بھی بے نتیجہ ہی رہیں گے اور مایوسی بڑھے گی۔